"IMC" (space) message & send to 7575

اُمید افزا ماحول

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میںکہا کہ میں روایتی اپوزیشن رہنما نہیں بننا چاہتا، ملک جن مسائل سے دوچار ہے ان کے حل کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر تمام داخلی اور خارجی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے ۔ دہشت گردی اور امن و امان ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہا ہے کہ اس ایشو پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔خیبر پختون خوا کی حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کوئی بھی جماعت یا ادارہ اکیلے نہیں لڑسکتا۔ حالیہ چند ہفتوں میںتحریک انصاف کے دو صوبائی ارکان اسمبلی پرتشدد واقعات میں جاں بحق ہوگئے۔محض دودن قبل مردان میں ہونے والے خودکش حملہ میں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی عمران مہمند شہید ہوئے ۔ ان ہلاکتوں سے ظاہر ہوتاہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے نزدیک تحریک انصاف اورعوامی نیشنل پارٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ عمران خان کی طالبان سے مذاکرات، ڈرون حملوں کے خلاف بھرپور مہم اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے مطالبات کو طالبان نے کو ئی اہمیت نہیں دی اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی اے این پی والا سلوک شروع کرچکے ہیں۔ شدت پسندوں کی جانب سے تحریک انصاف کے ساتھ کیا جانے والا سلوک غیر متوقع نہیں ۔صوبائی حکومت نے مالی وسائل کا رخ تعلیم اور صحت کی طرف موڑکر شہریوں کی زندگی بدلنے کے جس سفر کا آغاز کیا وہ دہشت گردوں کو پسند نہیں ۔ تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ صوبائی حکومت کا ایک غیر معمولی قدم ہے۔تعلیمی بجٹ کا نصف بھی دیانت داری سے خرچ کردیا گیا توپاکستان کا یہ پسماندہ صوبہ ترقی کی دوڑ میں دوسرے خطوں کو مات دے سکتاہے۔یہاں کے نوجوان جفاکش اورچیلنج قبول کرنے والے ہیں۔ مسابقت کے ماحول میں ان کے جوہر زیادہ کھل کر سامنے آتے ہیں۔سازگار ماحول دستیاب ہو تو خیبر پختون خوا کے شہری معجزے برپا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کے پی کے میں امید کا دیا روشن کیا ۔لوگوں کو یہ توقع تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے سے حالات میں سدھار آئے گا ۔ پے درپے دھماکوں اور شہریوں پر حملوں سے یہ سہانے خواب بکھر گئے ۔پاکستان میں ترقی و استحکام‘ اغیار کو گوارا نہیں۔ نظریاتی مغالطوں اور فکری کجی نے بھی قوم کا بہت ساوقت برباد کیا۔عمران خان اور ان کے حامیوں نے اس ملک کے سیاسی کلچر کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک کالم میں‘ میں نے خان کو گیم چینجر لکھا تھا لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے کہ جو ریاستیں نجی ملیشیاء اور مسلح گروہوں کی حمایت کرتی ہیں وہ بتدریج اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔ایک ریاست میں طاقت کے دو مراکز نہیں ہوسکتے ہیں۔جو گروہ شہریوں کی جان ومال سے کھیلتے ہیں ان کے نقطہ نظر کی وکالت نہیں کی جاسکتی۔ بدقسمتی سے خان صاحب نے شدت پسندوں کی کارروائیوں کو مسترد کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا۔ کچھ تجزیہ کار کہتے تھے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی سیکولر اور امریکا نواز جماعتیں ہیں لہٰذا شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔ چند ایک مبصرین کا یہ بھی نقطہ نظر تھا کہ برسراقتدار آکر تحریک انصاف یا نون لیگ انتہاپسند گروہوں سے باآسانی مذاکرات کرسکیں گی۔یہ لولی لنگڑی دلیلیں اب بری طرح پٹ چکی ہیں۔ تحریک انصاف کے دو ارکان صوبائی اسمبلی شہید کیے جاچکے اورباقیوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔زیارت میں قائداعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کو نذرآتش کرکے نون لیگ کو پیغام دیا گیا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں میں ابھی دم ہے۔اسلام آباد کے ساتھ رابطے میں قوم پرست بلوچوں کو کوئٹہ میں ہونے والوں حملوں کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ وہ نون لیگ سے دور رہیں ۔ جماعت اسلامی بارہ برسوں سے مسلسل کہتی رہی کہ پاکستان میں امریکا نواز حکومت شدت پسندی کو ہوا دینے کا باعث بنتی ہے۔ اب خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی نہ صرف سرکار میں شراکت دار ہے بلکہ وزیرخزانہ سراج الحق کو عظیم سیاسی مدبر کے طورپر پیش کیا جاتاہے۔اس کے باوجوومردان میں تیس کے لگ بھگ افراد کو ہلاک کردیا گیا ۔ سراج الحق کہتے ہیں:مردان میں نمازجنازہ پر حملہ غیر انسانی، غیر اسلامی اور پختون روایات کے خلاف ہے۔ اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف والوں نے اے این پی کے راہنمائوں اور کارکنوں کے جنازوں کو کندھا دیا ہوتا۔ سیاسی مخالفین پر حملوں کی مذمت کی ہوتی تو آج تحریک انصاف کے لوگ بم دھماکوں میں نہ مارے جاتے اور جماعت اسلامی پر لرزہ طاری نہ ہوتا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردوں کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔وہ اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتے۔ حکومت نے امن کی بحالی کی خاطر صوفی محمد کا مطالبہ تسلیم کرکے مالاکنڈ میں شرعی نظام عدل کے قیام کا اعلان کیا لیکن چند دنوں بعدطالبان نے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کرناشروع کردیا۔پاکستان کے دستور کو مانے سے انکار کردیا گیا۔پورے ملک پر اپنا جھنڈا لہرانے کے عزم کا اظہار کیاگیا۔بے پناہ قربانیوں اور جدوجہد کے بعد ان علاقوں کو واگزار کرایاگیا اوروہاں ریاست کی عمل داری قائم ہوئی ۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو شدت پسندوں کے سامنے کھڑے ہونا ہوگا۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل عندیہ دیا تھا کہ انہیں تلخ زمینی حقائق کا احساس ہے اور وہ اپنے آپ کو مقابلے کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اب شدت پسندوں نے براہ راست خیبر پختون خوا کی حکومت کو چیلنج کیا ہے ۔اسے فوج اور مرکزی حکومت کے تعاون سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔سب سے بڑھ کر مقامی آبادی کو متحرک کرنا ہوگا تاکہ وہ ان عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ حکومت کا دست وبازور بنیں۔ تحریک انصاف ایک نئی جماعت ہے۔اس کی صفوں میں شامل لوگوں مختلف جماعتوں سے ٹوٹ کر آئے ہیں جنہیں ایک تنظیم میں پرونے میں وقت درکار ہے۔عمران خان خود بھی اپوزیشن کی سیاست کرتے رہے ہیں۔اپویشن میں زیادہ سے زیادہ نکتہ چینی کرنے اور کیڑے نکالنے پر داد ملتی ہے۔ اقتدار کانٹوں کا تاج کہلاتاہے جہاں کارکردگی ہی کامیابی کی واحد کسوٹی ہے۔تحریک انصاف کی قیادت میںقائم مخلوط حکومت نے خیبر پختون خوا میں حکومت سنبھال کر اپنے آپ کو بڑی آزمائش میں ڈالا ہے۔ انہیں ہر حال میں سرخرو ہونا ہوگا۔ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا قیام ہے باقی مسائل جزوی ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ ان کے پاس ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی قیادت کرنے والے ونسٹن چرچل نے کہا تھا: \"Never give in -- never, never, never, never, in nothing great or small, never give in except to convictions of honor or good sense...\"

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں