"IMC" (space) message & send to 7575

قطر ہی کیوں؟

دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو خوردبین کی مدد کے بنا قطر کو تلاش کرنا محال ہے۔اس کے باوجود وہ عالمی سیاست اورسفارتی کاری میں غیر معمولی طور پر سرگرم ہے۔علاقائی معاملات میں قطر کی دلچسپی دیکھتے ہوئے دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولنے کی اجازت دینا عجیب نہیں لگا۔سترہ سال پہلے قطر کے موجودہ امیر حماد بن خلیفہ التانی نے اقتدار سنبھالا ۔ اس وقت قطر خلیجی ممالک کی سیاست میں سعووی عرب کا ضمیمہ سمجھاجاتاتھا اور عالمی معاملات میں اس کا کوئی نام ہی نہیں لیتاتھا۔ قطر کے نئے حکمران امیر حماد نے بتدریج اپنی علیحدہ عالمی شناخت بنانا شروع کی۔1990ء کے آغاز میںکویت پر عراق کے حملے اور قبضے نے قطری حکمرانوں میں اپنے تحفظ کے تئیں شدید خدشات پیدا کیے۔وہ کویت کے انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ قطر نے رفتہ رفتہ عالمی معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی۔امریکا کے ساتھ تعلقات میں گہرائی لائی گئی۔ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اورکاروبار کے علاوہ غیر روایتی امور میں دلچسپی لینا شروع کی۔کویت کو عراقی قبضے سے آزادی دلانے کے بعد امریکی افواج کے لیے سعودی عرب میں اپنے قیام کو طول دینا ممکن نہ رہا۔ اس موقع پر قطر نے امریکا کو اپنے ملک میں طویل عرصہ تک قیام کی اجازت دی۔عراق اور افغانستان میں امریکا کی جنگی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے قطر میں سینٹ کام کا دفتر قائم کیا گیا۔قطر کو امریکا اور دیگر عالمی کھلاڑیوں کے لیے مفید اور قابل قبول ریاست بنا کر پیش کیا گیا۔ عالمگیریت کے رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر قطر میں جہاں شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کی گئی وہاں الجزیرہ کے نام سے عالمی معیار کا ٹیلی وژن چینل بھی قائم کیا گیا۔الجزیرہ میں دنیا کے بہترین ماہرین اور دماغوں کو جمع کیا گیا۔اسے بے پناہ وسائل فراہم کیے گئے۔ساتھ ساتھ آزادی بھی دی گئی۔الجزیرہ نے افغانستان کی جنگ، عراق پر امریکی قبضے اور فلسطین میں اسرائیل کے خلاف جاری تحریک مزاحمت کی شاندار کوریج کرکے دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔الجزیرہ کے معیار اور غیر جانبداریت کی وجہ سے یہ عرب دنیا کا مقبول چینل بن گیا۔اس کے انگریزی ورژن نے بی بی سی اور دیگر عالمی اداروں کے معیار کوچھوا۔گزشتہ سال لندن میں بی بی سی ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں اینڈریو وائٹ ہیڈ سے پوچھا کہ وہ کس چینل سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس نے بلاجھجک جواب دیا کہ بی بی سی کو الجزیرہ نے مات دے دی ہے اور ہم ہر وقت یہی چینل دیکھتے رہتے ہیں۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالامال اس ملک نے بڑی خاموشی سے خطے ہی کی نہیں بلکہ عالمی معاملات اور اقتصادیات میں بھی کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ کھیلوں کے مقابلے کراتاہے۔بین الاقوامی معیار کے تعلیمی اداروں کے کیمپس اور تھنک ٹینکس کے علاقائی دفاتر یہاں قائم ہیں۔ان اداروں میں پوری آزادی سے سیاسی اور علاقائی مسائل پر بحث مباحثہ ہوتاہے۔دوحہ میں آرٹ کے نادر نمونوں پر مشتمل ایک عجائب گھر بھی قائم کیا گیا ہے جہاں دنیا بھر سے مسلمانوں کی یادگاریں جمع کی گئی ہیں۔ یہ عجائب گھر ہزاروں برس پرانی تاریخ کو سیاحوں پر کھول دیتاہے۔ گزشتہ جولائی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔یہاں کی حیرت انگیز ترقی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ قطری نوجوان جدید تعلیم یافتہ ہیں۔ان کا ورلڈ ویو دیگر عرب نوجوانوں سے کافی مختلف ہے۔سماجی سرگرمیوں پرعربی ثقافت کا رنگ غالب ہے ۔ جدیدیت کے اثرات بھی نمایاں ہیں ۔ سرکاری سطح پرمخلوط محفلوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ انہیں روکنے کے لیے سخت پابندیاں ہیں نہ مادر پدر آزادی بلکہ قطری اپنے مقامی کلچر کے تحفظ کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔دوحہ کے ایک ریستوران میں ایک نوجوان نے قطر کو بڑے خوبصورت اور جامع پیرائے میں بیان کیا: قطر قدامت پسند نہیں اور نہ ہی مغربی ثقافت سے مرعوب ہے۔یہ مشرق اور مغرب، جدید یت اور اسلامی روایات کا امتزاج ہے۔ عرب آمریتوں کے خلاف چلنے والی حالیہ لہر میں قطر نے لیبیا اور شام میں اپوزیشن جماعتوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔انہیں ہتھیار ہی نہیں بلکہ مالی وسائل اور سفارتی معاونت بھی فراہم کی تاکہ وہ مؤثر قوت بن سکیں۔قطر کے اس کردار پر دیگر عرب ممالک کو بڑی تشویش ہے کیونکہ قطر‘ جو خطے میں جمہوریت اور آزادیوں کی حمایت کرتاہے‘ اپنے ملک میں بادشاہت قائم کیے ہوئے ہے۔الجزیرہ ٹی وی قطر کے علاوہ عرب ممالک میں پائی جانے والی عوامی بیداری کی تحریکوں کی بھرپور کوریج کرتا ہے۔ انہیں اجاگر کرتاہے ۔رائے عامہ کوشہری آزادیوں کے حق میں اکساتابھی ہے لیکن قطر کے داخلی حالات کے بارے میںخاموشی کی چادر اوڑھے لمبی تان کر سویا ہوا ہے۔ اس برس کسی بھی وقت قطر میں انتخابات کے انعقاد کا امکان ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ ان انتخابات میں سیاسی جماعتیں شرکت کریں گی یا یہ حسنی مبارک طرز کے انتخابات ہوں گے جن کے نتائج دیوار پر لکھے ہوتے تھے۔قطرچاہتاہے کہ عرب ممالک میں جلد سماجی تبدیلی رونما ہو۔یہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔اسی پس منظر میں وہ اندرون ملک انفراسڑکچر پر بھاری سرمایہ کاری کررہاہے جبکہ علاقائی معاملات میں بھی سرگرم کردار ادا کرتاہے تاکہ عرب ممالک کا سیاسی ماحول بدلے ۔ پرویز مشرف کے زمانے میںپاکستان کے ساتھ قطری حکومت کے تعلقات میں جو خرابی در آئی تھی اس کے اثرات ابھی تک برقرارہیں۔ قطر کے امیر نے میاں نوا زشریف کی رہائی کے لیے پرویز مشرف سے مذاکرات کا آغاز کیا ۔ بات چیت ابھی آگے نہیں بڑھی تھی کہ ایک اور عرب ملک درمیان میںآگیا۔ قطر کو آگاہ کیا گیا کہ فلاں ملک میاں نوازشریف کو پناہ دینے میں دلچسپی رکھتا ہے۔قطریوں نے پرویز مشرف سے فقط یہ مطالبہ کیا کہ اس حوالے سے جو بھی پیش رفت ہو اس سے انہیں آگاہ رکھاجائے۔ میاں نوازشریف رہا ہوکر جدہ چلے گئے تو قطر کو اخبار سے خبر ملی۔ انہوں نے پاکستان سے افرادی قوت منگوانے پر پابندی لگادی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس سردمہری کوتوڑ نے کے لیے اعلیٰ سطحی دورے کیے۔حنا ربانی کھر کے علاوہ صدر آصف علی زرداری خود بھی قطر گئے لیکن گرم جوشی ابھی تک نظر نہیں آتی۔ دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولنے کا مقصد علاقائی معاملات میں قطر کے کردار کی گنجائش پیدا کرنا ہے۔ علاوہ ازیں امریکا کے ساتھ قربت کی بدولت قطر کو یقین ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں نسبتاً زیادہ قابل قبول سہولت کار بن سکتاہے۔ پاکستان کو قطر کے ابھرتے ہوئے کردار پر نگاہ رکھنا ہوگی تاکہ طالبان کے دفتر کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں