"IMC" (space) message & send to 7575

تکلف برطرف

تکلف برطرف یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ شہریوں کے تحفظ کے ذمہ دار ریاستی ادارے ناکام ہوچکے ہیں ۔عالم یہ ہے کہ غیر ملکی سیاح تک محفوظ نہیں۔کرکٹ کھیلنے بنگلہ دیش تک پاکستان کا رخ نہیں کرتا۔ ورلڈبینک قرض دینے کے لیے دوبئی میں میٹنگ کرتاہے ۔غیر ملکی سربراہ پاکستان کا دورہ کرنے سے کتراتے ہیں۔تھوڑے بہت کوہ پیما ئی کے دلداہ گلگت بلتستان جانے کا خطرہ مول لیتے تھے وہ سلسلہ بھی اب رک جائے گا۔ دس سیاح قتل کردیئے گئے۔گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ مہدی شاہ کہتے ہیں : آدھی رات کو سیاحوں کو قتل کیا گیا۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بے قصور چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس کو معطل کیا۔مزید فرماتے ہیں:میرے پاس ایک بھی ہیلی کاپٹر نہیں کیسے سیکورٹی کی ذمہ داری نبھائوں۔مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ غیر ملکیوں کا قتل شریعت میں جائز نہیں۔ کوئی مولانا سے پوچھے کہ انتہا پسندوں نے پچاس ہزار پاکستانی شہریوں کوشہید کیا ، آپ نے اس قتل عام کے حرام ہونے کا فتویٰ جاری نہیں کیا جب کہ محض سیاسی مخالفت کی بنا پر عمران خان کو یہودی ایجنٹ اور تحریک انصاف کو ووٹ دینا حرام قراردیا۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کا واقعہ پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے متراف ہے۔یہ محض دہشت گردی کی کارروائی نہیں بلکہ وزیراعظم نواز شریف کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ کراچی سے خنجراب تک ریلوے لائن اور گوادر سے کاشغر تک تجارتی راہداری کے خواب دیکھنا چھوڑدیں۔ یہ بھی پیغام دیا گیا کہ اگر افغان طالبان پاکستان کی جیب میں ہیں اوروہ انہیں امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتاہے تو تحریک طالبان کو پاکستان کا مکوٹھپنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔سیاحوں کے قتل سے کچھ طاقتوں نے پاکستان کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے دکھایا ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میڈیا کو بتایا کہ یہ حملہ اس علاقے میں ان کے ذیلی گروپ جنودِ حفصہ نے کیا ہے جس کا مقصد ڈرون حملوں کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانا ہے اور ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والے کمانڈر ولی الرحمن کے قتل کا بدلہ لینا ہے۔جنود حفصہ کے ترجمان ، احمد مروت نے خبر رساں ایجنسی رائٹر کو بتایا ،’ یہ غیرملکی ہمارے دشمن تھے اور فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں مارا اور ہم مستقبل میں بھی ایسی کارروائی کرتے رہیں گے۔ـ‘ اس بیان کے بعد شتر مرغ کی طرح حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ریت میں سر چھپالینے سے کچھ نہیں حاصل ہوگا۔ پرویز مشرف کی دشمنی اور اپنی سیاست چمکانے کی خاطر نون لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور معتبر سیاسی شخصیات نے ’فسادیوں‘کے خلاف ریاستی اداروں کوفیصلہ کن ایکشن نہیں لینے دیا۔ قوم کو کنفیوژ کیا۔ بے گناہ شہریوں کے قتل پر ماتم کرنے کے بجائے اس جنگ کو امریکا کی جنگ قراردے کر اپنا وزن شدت پسندوں کے پلڑے میں ڈالا۔ پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو سیکولرقراردے کر شدت پسندوں کا جائز ہدف تصور کیا گیا۔نتیجہ ظاہر ہے ،آج نون لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتیں ہونے کے باوجود یہ جنگ جاری ہے۔ چودھری نثار علی نے شدت پسندوں کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا ہے۔افسوس! وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بات تو کی لیکن ملک کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ کو سرے سے زیربحث ہی نہیں لائے۔ عمران خان ابھی تک ماضی کے سراب میں گم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے علمبردار ہیں؛ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذاکرات کی کنجی طالبان کے نہیں بلکہ ان کے آقائوں کے ہاتھ میں ہے جو انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گلگت بلتستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اسلام آباد براہ راست حکومت کرتاہے۔چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سال میں زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔اور تو اور وزیراعلیٰ مہدی شاہ کا مسکن بھی اسلام آباد ہی ہے۔بسا اوقات کئی کئی ہفتے گلگت نہیں جاتے۔اسلام آباد کے پانچ ستارہ ہوٹل کے پچھواڑے میں کھڑے وسیع وعریض گلگت بلتستان ہائوس میں ہر وقت سیاستدانوں، سرکاری افسروں اور ٹھیکداروں کا میلہ لگا ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس خطے میں انتخابات تو کرادیئے لیکن اچھی اور موثر حکومت کی فراہمی کی کوشش نہیں کی۔آج بھی سیاسی قیادت کے بجائے نوکر شاہی کا سکہ چلتاہے۔ چند ماہ پہلے شاہراہ قراقرم پر مسافر بسوں کو روک کر شہریوں کو شہید کیا گیا۔گلگت شہر میں کئی بار حالات اس قدر خراب ہوئے کہ کرفیو نافذکرنا پڑا۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے میں گہری فرقہ ورانہ تقسیم پائی جاتی ہے۔چھ عشروں تک مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ چنانچہ مساجد، مدارس اور امام بارگاہیں طاقت کے مراکز کے طور پر ابھریں۔ سیاست کی باگیں علماء کے ہاتھ میں چلی گئیں۔انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب زہرافشانی کی ۔نتیجتاًہر مکتب فکر کی زیر زمین تنظیمیں قائم ہیں۔1988ء میں یہاں فرقہ ورانہ فساد میں بے شمار لوگ مارے گئے۔ ان علاقوں میں آبادی کا ایک بڑا حصہ ناراض ہے اور وفاقی حکومت کے اقدامات کو شک کی نظر سے دیکھتاہے ۔ جغرافیائی محل وقوع بالخصوص چین کے مسلم صوبے سنکیانگ سے متصل ہونے کی بدولت عالمی طاقتوں کی بھی اس علاقے پر گہری نظر ہے۔واشنگٹن میں گلگت بلتستان پر ایک انسٹی ٹیوٹ قائم ہے جو یہاں کے حالات پر تحقیق ہی نہیںکرتابلکہ لابنگ بھی کرتاہے۔دوبرس پہلے یورپی یونین کے دارالحکومت برسلز میں گلگت بلتستان پر ایک سیمینار ہوا۔نیویارک ٹائمز میں سیلگ ہریسن نے لکھا کہ چین کے گیارہ ہزار فوجی گلگت میں تعینات ہیں اور پاکستان نے عملاًیہ خطہ چین کے حوالے کردیا ہے۔گزشتہ برس پہلی بار سرکاری سطح پر ایک مغربی ملک کے سفارت کاروں نے گلگت کا دورہ کیا۔ امن وامان کے قیام کو یقینی بنا کر اس علاقے کو پاکستان کے لیے اثاثہ بنایا جاسکتاہے لیکن مشکل یہ ہے کہ کئی ایک ملکی اور غیر ملکی عناصر اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان پانی اور توانائی کے ذخائر سے مالا مال اس خطے کے وسائل سے مستفید نہ ہوسکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں