خدا نیلسن منڈیلا کی عمر دراز کرے ۔ وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔اساطیری شہرت کے حامل منڈیلا بیسویں صدی کی آخری دہائی میں شہرت کے آسمان پر ایک ایسا ستارہ بن کر چمکے جس کی چکاچوند سے دنیا کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ستائیس برس تک سفید فام حکمرانوں کے قید خانوں میں صعوبتیں برداشت کرنے ،قریبی ساتھیوں کی جدائی کا غم اٹھانے اور اپنے ہم وطنوں پر ٹوٹنے والے والے مصائب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کے چہرے پر ہردم پھیلی مسکراہٹ نے دولت درد کو دنیا سے چھپادیا ۔ وہ آج کی دنیا کا غالباً واحد کردار ہیں جس سے شرق وغرب میں آباد لوگ گہری عقیدت کااظہار کرتے ہیں۔عصری سیاست پرمنڈیلا کی شخصیت اور فکر کی چھاپ تادیر برقرار رہے گی۔ مصائب اور مشکلات سے عبارت ہنگامہ خیز زندگی گزارنے والے منڈیلا کو 1964ء میںعمر قید کی سزاسنائی گئی۔جیل ہی میں تھے کہ ان کا جوان سال بیٹا کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا۔چند ماہ بعد ماںبھی چل بسی لیکن جنازے کو کندھا دینے کی اجازت نہ ملی۔ عمر عزیز کے ستائیس برس قیدخانوں میں بیت گئے۔نسل پرست حکمرانوں نے ان کے عزم اور حوصلے کو توڑنے اور شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے توہین اور تذلیل کا ہر حربہ استعمال کیا ۔ جنوبی افریقہ کے لوگوں پر گزرنے والی قیامت کی بھی عجب کہانی ہے۔ صدیوں تک سفید فام اقلیت نے اکثریتی آبادی کو اچھوت بنائے رکھا۔ انہیں کارِسرکار میں شراکت تو درکنا رمعمولی شہری آزادیاں اور انسانی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے سفید فام آبادی کو افریقین یا غیر سفید اقوام، جنہیں رنگ دار بھی کہا جاتا تھا ،پر برتری دی گئی۔سیاہ فام آبادی کے لیے ’پاس ‘نامی شناختی کارڈ ساتھ رکھنا ضرور ی قراردیا گیا۔سیاہ فام لوگوں کی آبادیاں، بازار ،سکول اور شفاخانے جداجداتھے۔انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر سیاہ فام افراد کی تعیناتی کا تصور تک مفقود تھا۔قانونی طور پرسیاہ اور سفید فام آبادی کے مابین باہمی شادیوں کی ممانعت کی گئی۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ بدترین نسلی عصبیت کا مظاہرہ دنیا کی مہذب نسل کہلانے والے سفید فاموں کی جانب سے کیا گیا۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کے حقوق اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کا آغاز اٹھارویں صدی کے آخر میں ہوا۔افریقی نیشنل کانگریس نے سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد میں بے پناہ قربانیاں دی۔پولیس کی سیاہ فام مظاہرین کی جھڑپیں معمول تھیں۔ان گنت شہری اس جدوجہد میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں نقد جاں ہارگئے۔ ہزاروں گھائل ہوئے ۔ جنوبی ا فریقہ کی جیلیں اور عقوبت خانے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا دوسر اگھر کہلاتے تھے۔نوجوانوں کے ایک طبقے نے مسلح جدوجہد بھی شروع کی لیکن وہ سرکار کو سرجھکانے پرآمادہ نہ کرسکے۔بہت سارے بیرون ملک جاکر نسل پرستی کے خلاف سیاسی اورسفارتی محاذ پر سرگرم ہوگئے۔ نیلسن منڈیلاجیل ہی میں تھے کہ انہیں حکومت کے ساتھ بات چیت کی دعوت دی گئی۔ایک قیدی کو مذاکرات کی دعوت ،وہ بھی اس حال میں کہ وہ اپنے ساتھیوں کے مشاورت کرسکتاہے۔ نہ انہیں اعتماد میں لے سکتاہے، ایک چال بھی ہوسکتی تھی اور سنجیدہ پیشکش بھی۔جولائی 2008ء میں ٹائم میگزین نے نیلسن منڈیلا سے ایک طویل انٹرویو کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس شخص نے کس طرح اپنے حریفوں سے کامیاب مذاکرات کیے۔تلخی اور تنائو کے ماحول میں مفاہمت اور ایک دوسرے کو معاف کرکے ایک نئے ملک کی تعمیر کو ممکن بنایا۔یہ ایک شاہکار کہانی ہے جس میں انہوں نے اپنی کامیابی کے آٹھ اصول بتائے۔جنہیں تفصیل سے ایک کالم میں سِمٹنا ممکن نہیں لیکن چنداہم نکات قارئین کی دلچسپی کے لیے درج کررہاہوں۔ منڈیلا کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ حالات کے جبر کے ہاتھوں آپ پریشان یا خوف زدہ نہ ہوں لیکن آپ نے یہ خوف اپنے حامیوں پر ظاہر نہیں ہونے دینا۔ بہترین لیڈر وہ ہوتاہے جو خود مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتاہے اور اپنے حامیوں کو مشکلات کے سفر میں ساتھ لے کر چلتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ بسا اوقات راہنما ئوںکو اصولوں پر ڈٹنے کی بجائے ’ سیاسی حکمت‘ کا مظاہرہ کرنا ہوتاہے۔ٹائم میگزین نے انہیں master tactician قراردیا۔ان کی سیاست کا محورجنوبی افریقہ سے نسل پرستی کا خاتمہ اور جمہوری نظام حکومت کا قیام تھا۔ان کا موقف ہے کہ مقصد کے حصول میں مذاکرات ہوں یا کوئی دوسرا راستہ، اسے اختیار کرنا یا نا کرنا حکمت عملی سے تعلق رکھتاہے نہ کہ اصول سے۔ اسی فکر کے تحت شہرت اور ذاتی ساکھ کی پروا کیے بنا انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ان کے ساتھیوں کو علم ہوا تو وہ سٹپٹا گئے۔ایک سینئر لیڈر انہیں جیل میں ملنے گئے اور کہا :آپ نے اپنی قوم کے ساتھ ’بدعہدی‘ کی ۔وہ اپنے ساتھیوں کے طعنوں سے بدمزہ نہیں ہوئے اور ان کے ساتھ مکالمہ جاری رکھاحتیٰ کہ پارٹی ان کے موقف کی قائل ہوگئی۔استفسارکیا گیا کہ کب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں: جیل میں قدم رکھتے ہی مذاکرات کا عمل شروع کردیا گیا تھا،منڈیلا کا جواب تھا۔ سفید فام مذاکرات کاروں کے ساتھ بات چیت کے عمل میں منڈیلا نے ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنے کی خاطر ان کی تاریخ ، تہذیب اور کھیلوں کے تئیں معلومات حاصل کیں۔رگبی (rugby)سفید فام اقوام کا پسندیدہ کھیل ہے۔منڈیلا نے یہ کھیل کھیلنا سیکھا۔ان کا نقطہ نظر تھا کہ ہمارا مستقبل سفید فام آبادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ جنگ کریں یا مذاکرات، ہمیں ان ہی کے ساتھ نبھا کرنا ہے لہٰذا اپنے دشمن کی سیاسی فکر اور سماجی رجحانات کا ادراک آزادی کی تحریکوں میں سرگرم لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ ساتھی ان باتوں کا مذاق اڑاتے ۔ جب حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تویہ معلومات اور مشاہدہ منڈیلاکے بہت کام آیا۔ 1990 ء میں افریقی نیشنل کانگریس پر سے پابندی اٹھالی گئی اور منڈیلا رہاہوگئے۔ 1994 ء میںوہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر جنوبی افریقہ کے صدر بن گئے۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے جیل حکام کو ذاتی دوستوں کی فہرست میں شامل کیا۔سفید فام حکومت کے کئی ایک وزراء کو نئی کابینہ میں شامل کیا۔ اپنے نجی مکان میں دوستوں سے زیادہ مخالفین کو دعوتوں پر مدعو کرتے۔ مخالفین کو سالگرہ پر مبارک باد کا پیغام بھیجتے۔شادیوں اور جنازوں میں شرکت کرتے۔دوستوں سے زیادہ حریفوں سے رابطہ رکھتے۔ انہوں نے ماضی کی تلخیوں اوربے رحمیوں کو دفن کرکے ایک نئے اور جدید افریقہ کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور مواقعے فراہم کیے گئے۔انتقام اور بدلے کی سیاست کو دریا برد کیا ۔ان اقدامات سے سفید فام اقلیت میں پایا جانے والا خوف تمام ہوا اور وہ سیاہ فام صدر کے ہمرکاب ہوگئی۔ چار برس تک افریقہ کا صدر رہنے کے بعد منڈیلا نے رضاکارانہ طور پر سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کر افریقہ کی قیادت نئی نسل کے سپرد کردی ۔انہیں امن کانوبل انعام عطا کیا گیا۔ وہ ایک غیر معمولی انسان ہیں ۔ان کے فہم وفراست نے جنوبی افریقہ کو خانہ جنگی سے محفوظ بنایا۔ان کی سیاست نے شہروں اور محلوں میں کھڑی نفرت کی دیواریں گرا کر محبت اور اخوت کے مینار تعمیر کیے۔سیاستدانوں کی توقیر میں اضافہ کیا۔یہ ثابت کیا کہ مفاہمت اور صلح جوئی سے جو بلند مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں، وہ مخالفین کو سولی پر لٹکانے سے نہیں ہوتے۔ یہ کہنے میں کوئی تعجب نہیں کہ نیلسن منڈیلا صدی کابیٹا ہے جس پر بجا طور پر دنیا فخر کرتی ہے ۔