"IMC" (space) message & send to 7575

ضمنی الیکشن اورڈاکٹر عبدالقدیر

اخبار میں یہ خبر پڑھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ممتاز سائنسدان عبدالقدیر خان صوابی سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ طویل عرصے تک اس ملک کے لوگوں نے ان کی نجات دہندہ کی طرح پرستش کی ۔ وہ قومی وقار کی علامت تصور کیے گئے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ ڈاکٹر قدیر نے مشکل حالات، بین الاقوامی قوتوں کی مخالفت اور بے جا پابندیوں کے باجود پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پرویز مشرف کی حکومت میں ڈاکٹر قدیر خان کو ایٹمی راز فروخت کرنے کا تنہا ذمہ دار قراردیا گیا لیکن عوام نے اس الزام کو قبول نہیں کیا۔قوم ان الزامات کے علی الرغم ان سے محبت کرتی رہی اور ان کی تکریم میں کوئی کمی نہ آئی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ڈاکٹر قدیر پر عائد پابندیاں ختم ہوچکی ہیں ۔وہ عام شہر یوںکی طرح معمول کی زندگی بسرکرتے ہیں۔معلوم نہیں سیاست میں ایسی کیا کشش ہے جو انہیں مسلسل بے چین رکھتی ہے۔تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے تھے‘ دروازے سے پلٹ گئے۔ غالباً عمران خان کی راہنمائی قبول نہ تھی۔انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان فرمایا۔سیّد منور حسن کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کی۔ منور حسن نے دلچسپ اعلان کیا :انتخابات میں ان کی جماعت کی کامیابی کی صور ت میں وہ صدر پاکستان ہوں گے یا عبدالقدیر خان۔ جماعت اسلامی انتخابات میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کرسکی۔اب ڈاکٹر قدیر اپنی جماعت تحریکِ تحفظِ پاکستان کے پلیٹ فارم سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے جارہے ہیں۔ اس فیصلے نے ان کے ہمدردوں کو مضطرب کردیا ہے۔سیاست ایک پیچیدہ اور بے رحم کھیل ہے۔یہاں پگڑی اچھلتی ہے اور دشنام طرازی روز کامعمول ہے۔بات کا بتنگڑ بنتا ہے۔ اچھا نہیں لگتا کہ ڈاکٹر صاحب قریہ قریہ گھوم کر ووٹ مانگیں ۔لوگوں کو خواب دکھائیں: مجھے ایم این اے بنادو،میں صوابی کو پیرس بنادوں گا۔مقامی معیشت تعمیر کروں گا اور روزگار کے مواقع کی بہتات ہوگی۔ ضمنی انتخابات میںسکیورٹی بھی بڑا سنجیدہ مسئلہ ہوگا۔پاکستان کونقصان پہنچانے والے گروہوں کے نزدیک دوست دشمن کی کوئی تمیز نہیں۔ان کا مقصد پاکستان کی کمر اور اس شہریوں کے حوصلے توڑنا ہے۔خاکم بدہن! ڈاکٹر صاحب کو کچھ ہوتاہے تو یہ ملک کی بڑی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز انتخابی مہم میں ایک بم دھماکے میں بال بال بچے تھے‘ حالانکہ انہیں ’فول پروف‘ سکیورٹی دستیاب تھی اور وہ وزیراعظم کے امیدوار تھے۔یہ سوال بہت تنگ کرتاہے کہ ڈاکٹر خان الیکشن جیت کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو وہ رکن اسمبلی بنے بغیر نہیں کرسکتے؟وہ محض اسمبلی کی ایک نشست سے کیا انقلاب برپا کریں گے؟سیاسی نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔نہیں جیتے ،جس کا غالب امکان ہے تو دنیا کہے گی کہ محسن پاکستان کی بے قدری ہوئی ہے۔سیاست آخری تجزیے میں ایک مقامی شے ہے۔ ووٹرز سوچیں گے کہ اگرانہوں نے محسن پاکستان کو کامیاب کرایا توکون ان کے مسائل حل کرائے گا؟ڈاکٹر قدیر اسلام آباد کے پوش ترین علاقے ای سیون میں رہتے ہیںجہاں تک رسائی کافی دشوار ہوتی ہے۔انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے زحمت دینا بھی عجیب لگتاہے۔ عوامی مسائل بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ تھانے اور کچہری میں رکن اسمبلی کی مدد درکار ہوتی ہے۔نجی تنازعات میں وہ ثالث کا کردار ادا کرتاہے۔حق مغفرت کرے محمد خان نے اپنے دور میں ارکان اسمبلی کو قابو کرنے کی خاطر ترقیاتی فنڈز ان کے ہاتھ میں دے دیے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ ایم این اے اور ایم پی اے ان داتا بن گئے۔سڑک کی منظوری بھی وہی دیتا ہے ۔ سکول کی ٹوٹی پھوٹی عمارت بھی ان کی نظر کرم کی محتاج ہوتی ہے۔ارکان اسمبلی عملاً بلدیاتی اداروں کا کام کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ہائیڈل پاور جنریشن کے بزنس سے منسلک سرمایہ کار ذوالفقار عباسی نے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کو احباب کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے لیے مدعو کیا۔وہاں یہ معاملہ زیربحث آیا کہ ارکان اسمبلی نے بلدیاتی اداروں کا کام سنبھال رکھا ہے۔ انہیں قانون سازی سے دلچسپی نہیں۔وہ اپنے حلقے میں ہونے والی تقرریاں اور تبادلے اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے اسدعمر سے پوچھا کہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اگلے چند ماہ میں خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات ہوں اور مقامی سطح پر تعمیر وترقی کی ذمہ داریاں بلدیاتی نمائندے سنبھالیں۔ ارکان اسمبلی کو روپے کے خردبرد کی چاٹ لگی ہوئی ہے‘ وہ کہاں اپنے اختیارات سے دستبردارہوتے ہیں؟ اسد عمر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ عمران خان کے ہاتھ میں جو لمبی ڈانگ ہے وہ یہ ممکن بنادے گی۔ مقامی حکومتوں کا مسلسل مطالعہ اور مشاہدہ کرنے والے ایک صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر ایک مرتبہ ملک میں بلدیاتی نظام جڑپکڑگیا اور مقامی نمائندے وسائل اور انتظامی اختیارات کا درست استعمال کرنا شروع ہوگئے تو روایتی سیاستدان اسمبلیوں کے بجائے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا پسند کریں گے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں صرف وہی لوگ حصہ لیں گے جو سنجیدگی کے ساتھ قانون سازی اور قومی امور میں پالیسی سازی کے کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا بہترین نظام متعارف کرایا تھا۔سیاستدانوں نے ذاتی اغراض کی خاطر اس نظام کو چلنے نہیں دیا ۔کراچی اور لاہور کے ناظموں کی مثالی کارکردگی نے اس نظام کی افادیت ثابت کی۔کئی ایک چھوٹے علاقوں میں بھی نوجوان سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آئی اور انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اعلیٰ کارکردگی کی بہترین مثالیں قائم کیں۔چاہیے یہ تھا کہ اس نظام کے نقائص درست کیے جاتے اور اسے برقراررکھاجاتا لیکن مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے متفقہ طور پر اس نظام کو دفن کرکے دم لیاتاکہ تمام مالیاتی اور انتظامی اختیارات کا ارتکاز ان کے ہاتھوں میں رہے۔ موجودہ اسمبلیوں کا ڈھانچہ اور مزاج ڈاکٹر قدیر خان کے مرتبے ومقام سے لگا نہیں کھاتا۔ ان کا میدان دوسرا ہے۔علم کے نور سے محروم عبدالستار ایدھی نے خلوص اور محنت سے پورے ملک میں خدمت خلق کا شاندار نیٹ ورک قائم کیا۔ملالہ یوسف زئی کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے دی جانے والی قربانی اور شجاعت نے قوم کا سرفخر سے بلند کیا۔ شوکت خا نم کینسر ہسپتال نے شہریوں کی خدمت ہی نہیں کی‘ دنیا میں پاکستان کی پہچان بن گیا۔ ڈاکٹر خان تعلیم اور صحت کے میدان میں کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔لوگ ان پر اندھااعتماد کرتے ہیں۔عطیات من وسلویٰ کی طرح برس سکتے ہیں۔فلاح عامہ کاکوئی بڑا منصوبہ شروع کریں۔پسماندہ علاقوں کو ہدف بنائیں۔ ذاتی دولت میں سے بھی حصہ ڈالیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔پاکستان کو بدلنے کا اب یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ اس کے شہری اپنی تقدیر کے خود مالک بن جائیں ۔حکومتیں تو بری طرح ناکام ہوچکی ہیں وہ اپنے شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکیں‘ عزت وروزگار کیا دیں گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں