ایبٹ آباد کمیشن کی خفیہ رپورٹ کی کاپی قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ پر دیکھ کر ڈاکٹر محموداحمد غازی کا سنایا واقعہ یاد آیا۔ اللہ تعالے انہیں غریق رحمت کرے۔پرویز مشرف کے دور حکومت میں وفاقی وزیرمذہبی امور رہے لیکن وزارت ان کی وجہ شہرت نہ تھی۔ وہ بلند پایہ عالم دین ،عصری علوم پر گہری دسترس اورزبان وبیان پر حیرت انگیز قدرت رکھتے تھے۔ادق موضوعات پر روانی سے گفتگو کرتے۔انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز نے عصرحاضر کے مسائل اور اسلام کے موضوع پر ڈاکٹر غازی کی لیکچر سیریز رکھی جس میں غیرملکی سفیروں اور مندوبین کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔سوال وجواب کی نشست شروع ہوئی تو ڈاکٹر غازی نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا ۔کہتے ہیں:ایک سکالر جو عزیز دوست بھی تھے اسلامی نظریاتی کونسل کی کچھ خفیہ سفارشات تک رسائی چاہتے تھے ۔ دقت یہ تھی کہ مخصوص سرکاری حکام کے علاوہ انہیں کسی اور کو دکھانے کی اجازت نہ تھی۔ بہت اصرار کرنے لگے کہ انہیں سفارشات کی کاپی پر ایک نظر ڈالنے کی اجازت دی جائے۔کلاسیفائیڈ دستاویز ہونے کی بدولت معذرت کرنا پڑی تو بہت بدمزہ ہوئے۔ رخصت ہوتے وقت میں نے کہا : کل اتوار ہے راولپنڈی صدر کا چکر لگا لیں وہاں پرانی کتابو ں کا بازار لگتاہے۔ میں نے گزشتہ ہفتے ان سفارشات کی کاپی فٹ پاتھ پر پڑی دیکھی تھی۔اگلے دن شکریے کا فون آیاکہ ان کا کام ہوگیاہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کا بھی یہی حال ہوا۔ایک برس تک جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں اس کمیٹی نے سرکھپایا اور337صفحات پر مشتمل رپورٹ مرتب کی۔سانحہ بھی کوئی کم نہ تھا۔کاکول کے پہلو میں اسامہ بن لادن چھ برس تک آرام سے شب وروز گزارتے رہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ان کی تلاش میں دنیا کی خاک چھان رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق کسی ایک بھی ریاستی ادارے کو یہ شک نہیں گزرا کہ وہ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ قمر زمان چوہدری نے کمیشن کو بتایا: ایم آئی، آئی ایس آئی اور صوبائی خفیہ ادارے اْنہیں اطلاعات فراہم نہیں کرتے بلکہ وزارتِ داخلہ کو میڈیا کے ذریعے اطلاعات ملتی ہیں۔ وزیردفاع نے کہا:انہیں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی اطلاع میڈیا کے ذریعے ملی۔اس کے علاوہ ان کی بیٹی نے انہیں امریکا سے فون کرکے بتایا کہ اسامہ مارا گیا ہے۔وزیردفاع نے کہا: وزیردفاع سے زیادہ اختیارات سیکرٹری دفاع کے پاس ہیں۔ وزیردفاع کو دفاعی معاملات پر بریفنگ نہیں دی جاتی اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا جاتاہے۔ سب سے دلچسپ مگر کرب ناک گفتگو جنرل (ر) شجاع احمد پاشا کی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سیاسی قیادت کو دفاعی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔وزیراعظم نے ان سے محض ایک مرتبہ سکیورٹی پر بریفنگ مانگی۔سیاستدان سرکاری دستاویزات کا مطالعہ نہیں کرتے۔پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکاروں کو جاسوسی اور اطلاعات جمع کرنے کی شدبد تک نہیں۔ اچھا ہوا کہ یہ رپورٹ منظر عام پر آگئی ورنہ اس کا حشر بھی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ جیسا ہوتا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تاکہ المیہ مشرقی پاکستا ن کا معروضی جائزہ لے کر اس سانحے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے۔مجرموں کو سزااورایسے اقدامات تجویز کیے جائیں جو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرسکیں۔جسٹس حمود الرحمان نے محنت شاقہ کے بعد تمام واقعات کا جائزہ لیا۔سینکڑوں افراد سے انٹرویوز کیے اور ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے حکومت کو پیش کی۔رپورٹ میں سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا اور سفارش کی گئی کہ انہیں عبرت ناک سزاد ی جائے ۔سفارشات پر عمل درآمد تو کجا فوری طور پر ا س رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔2000ء میں جاکر اس رپورٹ کے کچھ حصے میڈیا کے ہاتھ لگے تو علم ہوا کہ پاکستان کی شکست وریخت میں کس کا کیا کردار تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ملک کی جو رسوائی ہوئی وہ تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھا لیکن اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔چنانچہ مئی 2011ء کو ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن پورے خاندان سمیت پکڑے گئے ۔ یہ واقعے پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے جس کا داغ کبھی مٹایا نہ جاسکے گا۔فوری طور پر ذمہ داری کا تعین کرنے کے بجائے کمشن بنادیا گیا۔ بعدازاں اس کی رپورٹ بھی دبادی گئی۔ کمشن کی سفارشات پر عمل درآمد ہوا اور نہ کوئی بحث ومباحثہ۔سیاسی اغراض کے مارے حکمران خود اس طرح کی اہم رپورٹوںکا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ عوام کو آگہی حاصل کرنے دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطالعے کے بعد یہ احساس مزید پختہ ہوتاہے کہ خو د سرکاری اداروں میں بھی تطہیر کا عمل شروع ہونا چاہیے۔افغانستان کے جہاد اور بعدا زاں طالبان کے ساتھ رابطوں نے پاکستان کے سرکاری حکام حتیٰ کہ اعلیٰ عہدے داروں کے ذہنی رجحانات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے لکھا ہے کہ اکثر اوقات مجاہدین او رطالبان سے وابستہ سرکاری اہلکار اپنے زیر نگرانی افراد کے نظریات اور خیالات کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔انہوں نے ریٹائرڈ جنرل محمود احمد کا حوالہ دیا جوبرملا کہتے تھے کہ ’صاحب ایمان‘کے ساتھ گفتگو کے دوران ان کے لیے اپنے خیالات پر قائم رہنا اور مخاطب کو قائل کرنا مشکل ہوتاتھا۔ اس پس منظر میں اسٹیبلشمنٹ میں ایسے کمزور عناصر کی نشان دہی کی جانی چاہیے جو ملکی مفادات کی نگہبانی کے بجائے نظریاتی اور فکری کج بحثوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی پورٹ کے افشانے حکمرانوں کو مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ اگر وہ رپورٹ کو دبادیتے ہیں تو ان کے شفافیت اور سویلین کنٹرول کے دعوے بے وقعت ہوجاتے ہیں ۔تاریخ ظفر اللہ جمالی ،یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف اور نواز شریف میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھے گی۔ وزیراعظم کو جرأ ت اور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔بہت ہوچکا۔ رپورٹ کی سفارشات پر اس کی روح کے مطابق اور سبک رفتاری سے عمل درآمد یقینی بنانا ہوگاتاکہ آئندہ ایسے حادثات سے بچا جاسکے۔ یہ ذاتی طور پر وزیراعظم نواز شریف کے لیے اپنے آپ کو منوانے کا ایک بہترین موقع بھی ہے جسے کھونانہیں چاہیے۔