لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا کے اس بیان پر خوب لے دے ہورہی ہے کہ پاکستانی صحافی عورت ،شراب اور ڈالر کے عوض بک جاتے ہیں ۔بعض صحافی دوستوں نے اس الزام کا ترکی بہ ترکی جواب دیا لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کے اس طرح کے الزامات کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا جائے۔ یہ کوئی نیا طعنہ نہیں‘ اکثرسلامتی سے متعلقہ اداروں کو شکایت رہتی ہے کہ بھارتی صحافی اپنی ریاستی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں جبکہ پاکستانی صحافیوں کا طرزعمل معذرت خواہانہ ہوتاہے۔ اگر غیر جانبداری سے میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو واضح نظرآتاہے کہ صحافیوں اور دانشوروں کی بڑی تعدادپہلے ہی سرکار کے حامیوں اور مخالفین میں تقسیم ہے۔آزاد صحافیوں کے لیے معاشرے اور میڈیا مارکیٹ میں جگہ بنا نا خواب لگتا ہے۔ اگر آپ ’گورے‘ صحافی نہیں تو بیوروکریسی تک رسائی ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتاہے۔غیر ملکیوں کے لیے محض ایک ایس ایم ایس پر دروازے وا ہو جاتے ہیں۔نوکرشاہی اور سیاستدان دیسیوں کے ساتھ معلومات کے تبادلے سے ہچکچاتے ہیں۔ چند برس پہلے ایک محفل میں ایک سینئر افسر صحافیوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کا رونا لے کر بیٹھ گئے۔ ہر شخص صحافیوں کو بکائو مال ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔عرض کیا کہ صحافیوں کو معلومات کی ضرورت ہوتی ہے‘ انہیں تجزیہ کرنا ہوتاہے‘ سرکاری افسروں تک رسائی اور معلومات کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔میں نے انہیں چیلنج کیا کہ میں ایک ای میل پاکستان کے دفتر خارجہ کو لکھتاہوں کہ مجھے علاقائی مسائل بالخصوص پاک بھارت تعلقات پر معلومات درکار ہیں‘ لہٰذا ملاقات کاوقت دیا جائے۔ اسی مضمون کا دوسرا خط امریکی سفیر کو لکھتا ہوں۔مجھے یقین ہے دفتر خارجہ ملاقات تو کجا خط کی رسید تک نہیں دے گا۔ا س کے برعکس امریکی سفیر خو د مصروف ہوئے تو ان کا کوئی نمائندہ ملاقات بھی کرے گا ا ور خو ش دلی سے معلومات کا تبادلہ بھی۔ میری باتیں سن کر کافی دیر تک مجلس پر سناٹا چھایا رہا۔ بیس برس سے اسلام آباد کے نواح میں رہتا ہوں، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہاں سماجی روابط کا ایک بڑا ذریعہ غیر ملکی سفارت کاروں اور عالمی اداروں کی تقریبات ہیں۔ امریکی، برطانوی، بھارتی ،جاپانی اور کئی دوسرے سفارت خانے تسلسل سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں‘ جن میں شہر کی اشرافیہ جمع ہوتی ہے اور ہماری طرح کے لوگوں کو بھی ان کی ’زیارت ‘نصیب ہوجاتی ہے۔ اب کہیں جاکر ایک چائے خانہ اور کچھ کافی کارنر کھلے ہیں جہاں صاحب ثروت تشریف لاتے ہیں۔ دارالحکومت کے سیاستدان، کاروباری خواتین وحضرات اور سرکاری افسر عام لوگوں سے ہی نہیں رائے عامہ ہموار کرنے والے رہنمائوں سے بھی ملاقات اور بے تکلفی برتنے سے اجتناب کرتے ہیں۔لاہور کے برعکس یہاں کوئی ایسا فورم نہیں جہاں قومی مسائل پر اہل دانش جمع ہوتے ہوں اور باہمی مکالمے کی محفل سجاتے ہوں۔لے دے کر غیر ملکی رہ جاتے ہیں جو ہلکی پھلکی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ روایت چلی آرہی ہے کہ بھارتی سفارت کاروں سے ملاقات کرنے والوں کا خفیہ والے گھر تک پیچھا کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اہلکار جان کو آ جاتے ہیں ۔اب عالم یہ ہے کہ مغربی ممالک کے سفارت کاروں سے ملاقات کے بعد سپاٹ سے چہرے والا بندہ پاس آکر ملاقات کی پوری روئیداد سننا چاہتا ہے؛ حالانکہ اس کا حلیہ چغلی کھا رہا ہوتا ہے کہ وہ ان معاملات کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا ۔ محض آپ کو ہراساں کرنا چاہتاہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اپنے اہل دانش پر اعتماد نہیں کرتی۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف ہیں۔ انیس جیلانی اسلام آباد کے معروف وکیل ہیں۔ان کا غیر ملکیوں سے بہت ملنا جلنا ہے۔ایک مرتبہ پوچھا کہ پاکستانیوں سے کم اور غیر ملکیوں کے ساتھ زیادہ وقت صرف کرنے کی کوئی خاص وجہ؟انیس کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کتابیں پڑھتے ہیں‘ فلمیں دیکھتے ہیں‘ مارکیٹ میں آنے والی تازہ ترین تحقیق سے آشنا ہوتے ہیں‘ پاکستان کے حالات کا عرق ریزی سے مطالعہ کرتے ہیں‘ ان سے باتیں کرنے میںمزا آتاہے۔انسان محفل سے کچھ سیکھ کر اٹھتا ہے۔ اس کے برعکس دیسیوں کی مجلسوں میں نری گپ شپ کے علاوہ مال بنانے اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کے گر سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں۔ صحافیوں کو خبر اور تجزیے کے لیے آئیڈیاز چاہیے ہوتے ہیں جو ذہین لوگوں کی مجلسوں سے کشید کیے جاتے ہیں۔ عالمگیریت کے اس زمانے میں صحافی ’دیسی بابوئوں‘ کے نخرے اٹھانے سے قاصر ہیں۔ یہ پیش نظر رہے کہ اب لوگ دہرے معیارات قبول نہیں کرتے۔ جن تعلیمی اداروں اور تربیت گاہوں میں سرکاری اہلکار حکمرانی کے اسرار و رموز امریکی خرچ پر سیکھتے ہیں‘ وہاں صحافی چلیں جائیں تو اس قدر ناگواری کیوں؟ پاشا صاحب! ان مسائل کا حل یہ ہے کہ سرکار اپنے ذہین اور قادر الکلام اہلکاروں کو صحافیوں اور اہل دانش کے ساتھ رابطے رکھنے کی اجازت دے اور وہ ان کے استفسارات کا جواب عزت اور احترام سے دیں۔ انہیں اپنا ایجنٹ بنانے کے بجائے شراکت دار ی اور دوستی کا ماحول پیدا کریں تاکہ لوگ اعتماد کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔راقم الحروف کو کچھ عرصہ غیر ملکی جرائد کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اُن سے وابستہ صحافی اپنے سفارت کاروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں‘ ان سے معلومات حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔اسلام آباد میں طویل عرصہ تک قیام کرنے والے گارجین کے نمائندے جیسن برک نے القاعدہ پر ایک معرکۃ الآرا کتاب لکھ کر دنیا سے داد وتحسین سمیٹی۔میں نے جیسن سے پوچھا کہ اس قدر خفیہ معلومات کوئی صحافی کیسے جمع کرسکتاہے؟ کیا کسی برطانوی ادارے نے آپ کی مدد کی؟اس نے بلاتکلف جواب دیاکہ کائونٹر ٹیررازم کے کچھ برطانوی افسروں نے اپنی معلومات اور تجزیوں کا ا س کے ساتھ تبادلہ کیا۔ پاکستان میں ایسے تبادلہ خیال کی نظیر تلاش کرنا محال ہے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد صرف بریگیڈیئر (ر) شوکت قادر کو اسامہ کے اہل خانہ اور ان کی ڈائریوں تک رسائی دی گئی توانہوں نے اسامہ کی نجی زندگی کے حوالے سے دلچسپ انکشافات پر مبنی کتاب Operation Geronimo: the betrayal and execution of Osama bin Laden and its aftermath لکھی۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو صحافیوں کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلقات قائم کرنے کے اپنے موجودہ رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔حکمت عملی کے معاملات پر اختلاف رکھنے والوں کو غیر ملکی ایجنٹ قراردینا ایک منفی رویہ ہے۔پاکستان کے مسائل ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ جاری کرنے سے نہیں مکالمے سے حل ہوں گے ناکہ ایک دوسرے کی ناک رگڑ کر۔