وزیراعظم نوا ز شریف نے حالیہ چند ہفتوں میںآزادکشمیر کا دومرتبہ دورہ کیا۔ پہلے وہ مظفرآباد میں دریائے نیلم جہلم پر زیرتعمیر پن بجلی گھر کا معائنہ کرنے گئے اور چند روزقبل انہوں نے میرپور میں دریائے جہلم پر نجی شعبے میں بننے والے پہلے بجلی گھر ’ نیو بانگ اسکیپ ہائیڈور پاور پراجیکٹ ‘ کا افتتاح کیا۔میرپور میں وزیراعظم ہیلی کاپٹر سے اترے تو بجلی گھر کے روح و رواں اور حصہ دار حاجی محمد عزیز نے انہیں اٹھارہ برس قبل حاصل کیا گیا اجازت نامہ دکھا کر بڑے انکسار سے عرض کیا : میاں صاحب اس منصوبے کی تکمیل میں اٹھارہ برس لگے۔ ہمارے راستے میں قدم قدم پر کانٹے بچھائے گئے۔واپڈاحکام ہوں ، کشمیر کونسل ہو یا آزادکشمیر کی حکومت ہر ایک نے اس میں حصہ بقدرِ جُثہ ڈالا۔ وزیراعظم نے دل گرفتہ حاجی عزیز کو حوصلہ دیا کہ وہ نجی شعبہ کو درپیش مشکلات کے ازالے کی کوشش کریں گے۔ وزیرِ اطلاعات پرویزرشید نے انہیں اپنا کارڈ دیا کہ وہ کسی بھی مشکل میں ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔حاجی صاحب کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کا تعاون میسر ہو‘ ون ونڈو آپریشن ہواور سرعت سے زیرالتوا امور پر فیصلے کیے جائیں تو ان کا گروپ قلیل مدت میں اس طرح کے کئی مزید بجلی گھر تعمیر کرسکتاہے۔ 1995ء کا ذکر ہے کہ دریائے جہلم پر نجی شعبے میں پن بجلی کے وسیع امکانات کو استعمال کرکے سستی بجلی پیداکرنے کی غرض سے سرمایہ کارو ں کے ایک گروپ نے لاریب انرجی لمٹیڈ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی ۔اس زمانے میں آزادکشمیر میں ہائیڈل پاور سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری کی روایت تھی اور نہ ہی اس نوع کے منصوبوں کے لیے کوئی طے شدہ سرکاری پالیسی ۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اسلام آباد میں اختیار کی جانے والی پالیسیوںکا خودبخود آزادکشمیر پر اطلاق نہیں ہوتا۔ مقامی قانون ساز اسمبلی کو ان امور پر قانون سازی کرنا ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے متنازعہ خطہ ہونے کے سبب یہاں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں ۔ علاوہ ازیں یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے متعین قوانین موجود ہیں اور نہ ریاست ہی ضمانت یا تحفظ دینے پر آمادہ ہوتی ہے ۔ یہاں ایک پیچیدہ حکومتی نظام قائم ہے ۔ اختیارات کسی ایک ادارہ کے پاس نہیں بلکہ آزادکشمیر کی حکومت، کشمیر کونسل اور حکومت پاکستان کے درمیان منقسم ہیں لہٰذا فیصلہ سازی کا عمل سست اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔داخلی طور پر حکومت آزادکشمیر اور کشمیر کونسل کے مابین طویل عرصہ سے بجلی کی پیداوار ،ترسیل اور فروخت کے معاملے پر آئینی کشمکش جاری ہے ۔ نہیں معلو م کہ اہم امورپر کون حتمی فیصلے کرنے کا مجاز ہے۔ عمومی طور پر وفاقی وزیرامور کشمیر ہر معاملے میں دخل دیتے ہیں۔ منظور احمد وٹو جب تک کشمیر امور کے وزیررہے وہ اپنے دوستوں کو بجلی گھر تعمیر کرنے کے لائسنس دلانے کی کوشش کرتے رہے ۔نیشنل ٹرانسمیشن لائن سے کم فاصلے ، امن وامان اورملک میں توانائی کے بحران کے باعث ملٹی نیشنلز آزادکشمیر میں اس شعبے میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ اگر کسی کے پاس لائسنس ہوتو کسی بھی بڑے سرمایہ کار کے ساتھ شراکت داری کرسکتاہے ۔ واپڈا اور جرمن کمپنی جی ٹی زیڈ کے ماہرین ایسے متعدد مقامات کی نشاندہی کرچکے ہیں جہاں بجلی گھروں کی تعمیر سے 5,594 میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ پہلا منصوبہ ہے جس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں ایشیائی ترقیاتی بینک ،اسلامی ترقیاتی بینک اور فرنچ ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے مالی وسائل فراہم کیے۔ اس طرح آزادکشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کا دروازہ کھل گیاہے ۔نئے پیدا ہونے والے امکانات سے مزید استفادے کے لیے ضروری ہے کہ آزادکشمیر کو غیر ملکیوں کی آمد ورفت کے لیے کھولا جائے۔ اس وقت آزادکشمیر جانے والے غیر ملکیوں کو اجازت نامے کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ان مشکلات اور مسائل پر قابو پالیا جائے تو اس خطے میں موجود بجلی کی پیداوارکے امکانات سے یہاں معاشی خود انحصاری اور خوشحالی کا انقلاب برپا کیا جاسکتاہے ۔خود آزادکشمیر کی حکومت کے لیے اچھا ہے کہ وہ اس طرح کے منصوبوں کی مدد کرے کیونکہ معاہدے کے مطابق پچیس سال کے بعد چلتاہوا یہ بجلی گھر حکومت کے حوالے ہو جاتا ہے‘ جسے بجلی کی فروخت سے اربوں روپے کی آمدن حاصل ہوگی۔ بے پنا ہ آبی وسائل ہونے کے باوجود خود آزادکشمیر میںبھی صارفین کو نہ صرف بجلی کی قلّت کاسامنا ہے بلکہ صنعتی ترقی کا پہیہ بھی رُک سا گیا ہے۔ میرپور کی ستر فیصد صنعتیں توانائی کی کمیابی کے باعث بند ہوچکی ہیںجبکہ باقیوں کا حال بھی پتلا ہے۔ لوگ فیکٹریاںبند کرکے شادی ہال بنارہے ہیں۔ مناسب منصوبہ بندی،وسائل کی دستیابی اور معمولی سرکاری سرپرستی اور توجہ کے ساتھ آزادکشمیر کے اندر پن بجلی کے درجنوں منصوبوں کو مختصر مدت میں مکمل کیا جاسکتاہے؛ تاہم اس کے لیے حکومت کو سرمایہ کاروں کے راستے میں حائل رکاوٹیں کم کرنا ہوں گی اور سرخ فیتے کونکیل ڈالنا ہوگی تاکہ قدرت کی طرف سے عطیہ کردہ دریائی پانی کا بہترین استعمال کیاجاسکے۔ علاوہ ازیں آزادکشمیر کو بھی اسی شرح سے رائیلٹی یاواٹر یوزیج چارجز ملنے چاہئیں جس شرح سے خیبر پختون خوا کوملتے ہیں۔اس وقت واپڈا آزادکشمیر کو واٹر یوزیج چارجز کی مدد میں محض پندرہ پیسے فی یونٹ دے رہاہے جبکہ اس کا حق بیالیس پیسے فی یونٹ بنتاہے۔ اس ناانصافی کے خلاف وزیراعظم نواز شریف کو ایکشن لینا چاہیے۔ بیوروکریسی آسانی سے ماننے والی نہیں۔ پن بجلی گھروں کی تعمیر کا مقامی آبادی کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہونا چاہیے۔ لاریب کی طرح کی کمپنیوں کو سماجی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے مقامی آبادی کو تعلیم ،صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں منصوبے شروع کرنے چاہئیں تاکہ عام لوگوں کو باور کرایا جاسکے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں محض قدرتی وسائل سے استفادہ کرکے اپنے دولت کے انباروں میں اضافہ نہیں کرتی ہیں بلکہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نواز شریف نے مظفرآباد اور میرپور میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہی نہیں کیا۔ان کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ نوا زشریف کشمیرسے مخلص نہیں۔کئی ایک کشمیری رہنمائوں نے دھواں دھار مخالفانہ بیانات بھی جاری کیے کہ نواز شریف کشمیریوں کی قربانیوں کے اوپر کھڑے ہو کر بھارت سے دوستی کا پل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ روایتی جنگی جنون کو ہوادیتے لیکن اتنی بات تو کرسکتے تھے کہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل ضروری ہے۔نوازشریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس مسئلہ سے لوگوں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں اور انہیں آسانی کے ساتھ بھڑکایا جا سکتا ہے۔ یہ اچھا موقع تھا کہ وہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرتے۔