"IMC" (space) message & send to 7575

سیاسی تبرابازی

ضمنی انتخابات کے ہنگام مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان زبردست تبرا بازی جاری ہے۔مولانا فضل الرحمان کو سیاسی پنڈتوں کی بڑی تعداد نے سیاسی مدبر قرار دینا شروع کر دیا تھا کہ انہوں نے عمران خان کے ساتھ محاذآرائی شروع کردی۔ جن کی صلاحتیں کشمکش اور کشیدگی میں زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ گزشتہ چند عشروں سے ہمارے ہاں تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔کوئی اچھی فلم آتی ہے نہ تھیٹر ہے کہ جسے لوگ دیکھیں۔کھیل کود کے میدان طالبان کی مہربانی سے اجڑچکے۔ اب لے دے کر ٹی وی مباحثے ہیں یا پھر سیاستدانوں کی گرم گفتاری ہے جو طبیعت کو نہال کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے سیاسی اور گروہی مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر جس طرح عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا کیا وہ بڑا خطرناک ہے۔انہوں نے ایک نہیں متعدد مرتبہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قراردیا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرح کا الزام عمران خان کے قتل کا سبب بن سکتاہے۔ وہ پوری ڈھٹائی سے باربار یہ الزام دہراتے ہیں۔سب سے بڑی ان کی ’’دلیل‘‘ یہ ہے کہ چونکہ وہ یہ کہتے ہیں لہٰذا قوم کو اس الزام پر یقین کرلینا چاہیے۔شاعر نے غالباًایسی ہی ہستیوں کے لیے کہاتھا ؎ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔ مولاناکا بنیادی دکھ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ابھار نے خیبر پختون خوا کی سیاست میں ان کی ناگزیریت کا جنازہ نکال دیا۔وہ نوازشریف سے بھی بیزار ہیں کہ انہوں نے سیاسی وسعت قلبی کا مظاہرہ کیوں کیا اور اب وہ تحریک انصاف کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھاتے۔ مولانانے بڑی مہارت سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری چندماہ میں پی پی سے اپنا دامن چھڑایا اور رائے ونڈ سے تعلق استوار کیا۔وہ ماہر سیاسی نباض ہیں۔انہیں اندازہ تھا کہ پیپلزپارٹی کا خیمہ اکھڑ چکاہے لہٰذا وہ اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔نون لیگ سے تعلق ان کے کسی کام نہ آیا۔ نوازشریف کی سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن وہ مولانافضل الرحمان کی سیاسی بازی گری کو پسند نہیں کرتے ۔ان کے قریبی حلقوں میں کہاجاتا ہے کہ مولانا کی سیاست ان کو ایک آنکھ نہیں بہاتی۔لیکن ان کے سفارشی بہت ہیں اور موثر بھی ۔ فضل الرحمان کو خدشہ ہے کہ اگر عمران خان کو سیاسی طور پر روکا نہ گیا تو ملک کے اکثر علاقوں سے ان کا سیاسی بوریا بستر گول ہوجائے گا۔پشتون علاقوں میں عمران خان کو جس طرح قبولیت ملی اس کی نظیر حالیہ تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے۔وہ کوئی روایتی مولوی نہیں۔نہ ہی خبیر پختون خوا میں ان کے خاندان کی جاگیریں یا صنعتیں ہیں۔انہوں نے بڑی مہارت سے پشتون آبادی کے جذبات کو زبان دی۔ڈرون حملوں کے خلاف جرأت مندانہ موقف اپنایا۔بین الااقوامی سطح پر بھی پشتونوںکے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے خلاف آواز بلند کی۔علاوہ ازیں تحریک انصاف ان علاقوں میں ایک اعتدال پسند قوت کے طور پر ابھری جو عالمی برادری سے جدا نہیں۔وہ اپنا موقف بیان کرتی ہے لیکن شدت پسندی کو ہوا نہیں دیتی۔ہر مکتب فکر کے لوگ اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔یہ وہ محرکات تھے جنہوں نے تحریک انصاف کو نوجوانوں میں مقبولیت عطاکی اور انہوں نے قدامت پرست اور روایتی مولویوں ہی نہیں بلکہ عوامی نیشنل پارٹی کے لبرلز کے برج الٹ دیئے۔ اس کے برعکس مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام طالبان کے انداز فکر کی حمایت کرتی ہے۔ پشاور میں اس کی صوبائی حکومت تھی تو اس نے اپنے علاقوں میں انتہاپسندوں کی یلغار کے آگے بندھ باندھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ملاکنڈڈویژن سمیت پورے خیبر پختون خوا میں طالبان کا نیٹ ورک قائم ہوا۔ ان علاقوں میں پناہ گاہیں بنانے کا موقع ملا۔جہاں سے ہوکر انہوں نے پورے ملک میں دفاعی تنصیبات پر حملے ہی نہیں کیے بلکہ ہزاروں بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔اپنے دور حکومت میں شہریوں کو جدید تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے مزید مدرسے قائم کیے۔غیر ضروری طور پر امریکا اور مغرب کو للکارتے اور انہیں اشتعال دلاتے رہے۔ جس کانقصان یہ ہوا کہ مغربی دنیا میں پاکستان مخالف فضا مزید گہری ہوئی۔پاکستان کے دشمن مضبوط ہوئے اور پاکستانی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ تحریک انصاف کی خیبر پختون خوا میں قائم حکومت کی کامیابی اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مذہبی انتہاپسند غیر موثر ہوں۔ان کا زور ٹوٹے تاکہ پشتون آبادی قدیم روایات اور مذہبی رسومات کی جھکڑبندیوں سے آزاد ہوسکے۔ اگر ایک بار پشتون آباد ی کو امن سے ترقی کرنے کا موقع مل گیا تو وہ معجزے برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ان میں بے پناہ تحریک اور توانائی پائی جاتی ہے جس کو مثبت نہج پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے اسی کی دہائی سے پشتونوں کو جنگ وجدل سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا گیا۔افغانستان کا جہاد طویل عرصہ تک جاری رہا۔یہ ختم ہوا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی۔پھر طالبان تخت کابل پر فائز ہوگئے۔پاکستان بھر سے فرقہ پرستوں نے ان کی چھتر چھایا میں پناہ لے لی۔بعد میں امریکا بہادر آدھمکا تو ایک نئی جنگ برپاہوئی۔جس کا انجام اب جاکرہورہاہے۔ تحریک انصاف کو مشکل حالات میں خیبر پختون خوا کی حکومت ملی ہے لیکن اس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج واپس جارہی ہیں۔ ڈورن حملوں کا سلسلہ محدود ہوچکاہے۔ قوی امید ہے کہ ڈرون حملے مستقل طور پر بند ہوجائیں گے۔طالبان بھی مذاکرات کے عمل میں شریک ہوچکے ہیں جو بڑی مثبت پیش رفت ہے۔تعمیر نو کے نئے امکانات ہویدا ہیں۔جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔خیبر پختون خوا میں تعلیم اور روزگار کے نئے موقع پیداکیے جاسکتے ہیں۔صرف پن بجلی کی پیداوار ہی سے یہ ملک کا سب سے خوشحال صوبہ بن سکتاہے۔تحریک انصاف کی حکومت دلجمعی سے کام کرے تو خیبرپختون خوا کی قسمت بدل سکتی ہے۔ عمران خان کو مولانافضل الرحمان پر تبرابازی سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ وہ پہلے ہی ان کے مضبوط قلعے فتح کر چکے ہیں۔ طبع آزمائی کی مزید ضرورت نہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف کو پاکستانیوں نے نون لیگ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ دیئے ہیں۔ انہیں اپنے آپ کو پورے ملک میں منظم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔کراچی میں نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ایم کیوایم شکست وریخت کا شکار ہے۔الطاف حسین غالباًاب براہ راست قیادت فراہم نہیں کرسکیں گے۔ اگلے سال گلگت بلتستان میں انتخابات متوقع ہیں۔وہاں تحریک انصاف کو ابھی سے تنظیم سازی کرنی چاہیے۔آزادکشمیر میں حکمران پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔وہاں بھی تحریک انصاف پیش رفت کرسکتی ہے۔ عمران خان کو اپنی توانائی ان علاقوں میں بھی صرف کرنا چاہیے۔ ورنہ اگلے انتخابات میں یہ علاقے نون لیگ کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح گریں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں