کل جماعتی کانفرنس خوشگوار ماحول میں تما م ہوئی۔قومی سیاسی قیادت نے اتفاق رائے سے حکومت کو شدت پسندوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا ۔ یہاں تک تو معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔اس کے بعد کے مراحل کافی دشوار نظر آتے ہیں۔ مذاکرات کا عمل کیسے شروع ہو اور اسے غیر وں کی ریشہ دوانیوں سے بچ بچا کر کس طرح منطقی انجام تک پہنچایا جائے ؟حکومت کے لیے اس میدان میں سرخرو ہونا خود اس کی اپنی بقا اور اہلیت کا پیمانہ ہوگا۔یہ وزیراعظم نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کی صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے۔لہٰذا وہ ناکامی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ طالبان کا ردعمل فی الحال مثبت ہے لیکن وہ بھی ماہر نباض ہیں۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جو ان کی حمایت میں کمی کا سبب بننے۔چنانچہ اب وہ اپنی شرائط کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ماضی میں ان کی جانب سے مذاکرات کے لیے پیش کی جانے والی شرائط میں امریکا کے ساتھ تعاون کا خاتمہ، شریعت کا نفاذ، ’جہاد‘ افغانستان کی حمایت اور طالبان قیدیوں کی رہائی شامل تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شرائط ناقابل عمل تھیں لہٰذا بات چیت کا عمل شروع ہوتے ہی دم توڑدیتاتھا۔ مذاکرات بذات خود نفسیاتی جنگ کی مانند ہوتے ہیں۔ اعصاب شل کردینے والی مشق۔ یہ کمزور اعصاب کی شخصیات کے بس کا کام نہیں۔چودھری نثار علی خان کہتے ہیںکہ ان کے پاس مذاکرات کی جامع حکمت عملی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کے ذریعے شروع کرنا چاہتی ہے۔مولانا فضل الرحمان حکومت میں شامل ہوچکے ہیں۔ مولانا سمیع الحق بھی حکومت کی حمایت کے لیے پرتول رہے ہیں۔ دفاعی امور پر لکھنے والے سینئر صحافی عمر فاروق نے اپنی تازہ تجزیاتی رپورٹ میںلکھا :موجودہ طالبان پر ان مولانائوں کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ وہ (طالبان) القاعدہ کے نظریات اور مسلک کے زیادہ قریب ہوچکے ہیں۔جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی اور مذہبی فکر سے عملاًلاتعلق ہوچکے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی طالبان القاعدہ سے اپنا ناتا توڑنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ پنجابی طالبان بھی ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ثالثی کے لیے حکومت کو ایسی شخصیات پر انحصار کرنا چاہیے جو غیر جانبدار ہوں اور جن کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہ ہو۔چلے ہوئے کارتوسوں سے فائر کرنے کا کچھ حاصل نہیں۔ کابل کے حالیہ دورہ میں باخبر لوگوں نے بتایا کہ ملامحمد عمر طالبان کے محض علامتی سربراہ رہ گئے ہیں۔طالبان گروہوں پر ان کا حکم نہیں چلتا۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں طالبان کی نئی نسل ابھری ہے جو اب جنگجو ئوں کی قیادت کرتی ہے۔ بندوق کے استعمال نے انہیں طاقت ہی نہیں بلکہ علاقہ پر بے پناہ اختیار بھی عطا کیا ہے۔چندہ اور دیگر ذرائع سے بھاری سرمایہ اکٹھاکیا جاتا ہے۔ان کا ذہن سیاسی ہے اور نہ وہ پورے افغانستان پر حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں؛ بلکہ وہ اپنی اپنی موجودہ ’سلطنتوں ‘ پر راج برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ان کی زیادہ سے زیادہ دلچسپی یہ ہے کہ ان کی موجودہ حیثیت متاثر نہ ہو۔یہی کیفیت پاکستانی طالبان کی بھی ہے۔ عمومی طور پر شدت پسندی کے مسئلہ کو امن وامان کے تناظر میں دیکھا جاتاہے اور اس کے داخلی محرکات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جس کے باعث ساری کوششیں اکارت جاتی ہیں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور حال ہی میں تشکیل پانے والے انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی کہ محض طالبان سے مذاکرات کی کامیابی پر امن کے قیام کا دارومدار نہیں بلکہ اس کے لیے ہمہ پہلو جدوجہد کرنا ہوگی۔ سازگار فضا تیار کرنا ہوگی۔طالبان معاشرے میں پائی جانے والی شدت پسندی کا اظہار پر تشدد طریقوں سے کرتے ہیں لہٰذا ریاستی ادارے انہیں قابو کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ہماری مساجد ، مدارس اور اکثر مذہبی جماعتیں طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ذہن کی نشوونما کررہی ہیں۔ جن کی اصلاح یا انہیں روکنے کی کم ہی کوشش کی جاتی ہے۔ میں عام طور پر نماز جمعہ میں آخر ی لمحات میں شریک ہوتا ہوں لیکن حالیہ چند ماہ میں شعوری کوشش کی کہ خطبہ جمعہ سناجائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ علماء کرام موجودہ حالات پر کیا تبصرے فرماتے ہیں۔ علماء کرام کی اکثریت خطبہ جمعہ میں بھرپور سیاسی تقریر کرتی ہے۔ ان تقاریر کا ماحصل یہ ہے کہ پاکستان امریکا کا غلام بن چکا ہے۔ حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر ملک کی آزادی اور خودمختاری اغیار کے ہاں گروی رکھ دی ہے۔ وہ افغانستان میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ملکی دولت لوٹتے ہیں جب کہ شہریوں کو دووقت کی روٹی میسر نہیں۔یہ تقاریر سن کر خون کھول اٹھتاہے۔ منبر ومحراب سے دیئے جانے والے دلائل متاثر کن ہیں‘ بعض باتیں حقیقت بھی ہیں لیکن ادھورا سچ ہیں۔ان کا جواب حکومت دیتی ہے نہ میڈیا۔آصف علی زرداری کی حکومت کے دور میں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ ریاست اور حکومت کی نمائندگی کرنے والے‘ ابلاغی محاذ پر خاموش تھے۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو تک بھی جوابی پروپیگنڈے میں ناکام رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ شدت پسندوں کا پیغام عام ہوا اور ریاست بکھر تی گئی۔ مسئلہ ابلاغی صلاحیت کے فقدان کا نہیں بلکہ منصوبہ بندی اور طویل المیعاد وژن کی کمی کا ہے۔موجودہ حکومت بھی موثر ابلاغی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔وزیراطلاعات پرویز رشید ٹھنڈے مزاج کے سیاستدان ہیں۔پرویز مشرف کے دور میں زیر عتاب رہے ۔ وزیراعظم نوا زشریف سے گہری قربت رکھتے ہیں لیکن وہ استدلال کے آدمی نہیں ۔پرویز رشید حکومت کی زبان اور چہر ہ نہیں بن سکتے۔ ابلاغیات ان کا میدان نہیں۔وہ نظریاتی وفکری محاذ پرشدت پسندوں کے خلاف جنگ کی قیادت نہیں کرسکتے۔ انسداد دہشت گردی کی اتھارٹی (نیکٹا) میں ایسے ماہرین کو جمع کرنے کی ضرورت ہے جو شدت پسندوں کے نظریاتی کھوکھلے پن کو نمایاں کرسکیں۔ اعتدال پسند علما ء کو متحرک کریں۔ نمائشی اقدامات سے قطع نظر ایسے مدارس اور علما کی حوصلہ افزائی کریں جو اپنے آپ کو بدلنے پر تیار ہوں ۔مذہبی جماعتوں کے اندر موجود اعتدال پسند شخصیات کی قومی سطح پر پذیرائی کی جانی چاہیے۔ انتہاپسندسیاسی اور مذہبی شخصیات کو میڈیا سمیت ہر سطح پر نظرانداز کیا جائے تاکہ انہیں معصوم شہریوں کے اذہان و قلوب کو متاثر کر نے کا پلیٹ فارم دستیاب نہ ہو۔ جب تک شدت پسندی پر کنٹرول کے لیے ہمہ گیر حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی‘ دیر پا کامیابی کا حصول خواب ہی رہے گا۔ محض چند ایک انتہاپسند گروہوںسے ہتھیار ڈلوانے اور میڈیا پر خبریں چلانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ حکیم اللہ یا بیت اللہ مسعود کے مارے جانے سے کوئی جوہری فرق نہیں پڑتا۔ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جو ایسے عناصر کو پیدا کرنے اور انہیں ہیرو بنانے کے لیے سازگار نہ ہو۔ حکومت کو ان عناصر کے خلاف نظریاتی اور فکری سطح پر معرکہ آرائی کرنا ہوگا ۔بدقسمتی سے بارہ برس کی جنگ اور پچاس ہزار شہریوں کی قیمتی جانیں گنوانے کے باوصف حکومت شدت پسندوں کے خلاف ابھی تک کوئی جامع اور نتیجہ خیر ابلاغی حکمت عملی بنانے میں ناکام ہے۔