"IMC" (space) message & send to 7575

جامع حکمت عملی چاہیے!

مسلم لیگ نون کے راہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی جاوید ابراہیم پراچہ نے خبر دی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے ان سے ٹیلی فون پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے اور طالبان، لشکرجھنگوی اور سپاہ صحابہ کے پچاس قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بعدازاں جاوید پراچہ نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے خطرناک طالبان قیدیوں سے ملاقات کی۔اطلاعات کے مطابق اس وقت دو سو کے لگ بھگ طالبان حکومت کی قیدمیں ہیں جب کہ دوہزار کے قریب ایسے قیدی بھی ملک کے مختلف حصوں میں رکھے گئے ہیں جنہیں ابھی تک عدالتوں میں پیش کیا جانا ہے تاکہ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا جاسکے۔ حکومت ایک پر خطر اور پیچیدہ راستہ پر گامزن ہے جس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔طالبان اور ان کی حامی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کا عمل بے پناہ تحمل اور دوراندیشی کا تقاضا کرتاہے۔ممکن ہے کہ چند ایک گروہ یا شخصیات اس عمل کے نتیجے میں سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں ‘ زیادہ تر جنگجو سیاسی عمل کے نظریاتی مخالف ہیں اور وہ بندوق کے زور پر اپنا سیاسی اور سماجی فلسفہ زندگی قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔وہ پاکستانیوں کو دوبارہ کلمہ پڑھا کر ملک میں اپنی ’’امارت‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔پنجابی طالبان میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو القاعدہ کے عالمی ایجنڈے کے علمبردار اور اس کے پرچارک ہیں۔اب وہ دینی مدارس کے حلقہ اثر سے نکل کر عرب انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ جو ہر قیمت پر پاکستان میں اپنی آئیڈیالوجی نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے مطالبات سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی ناک رگڑا رگڑا کر انہیں بے توقیر کررہے ہیں۔مذاکراتی عمل کے آغاز ہی میں میجر جنرل ثناء اللہ کی شہادت بھی اس امر کی غماز ہے کہ طالبان اور ان کی ساتھی تنظیموں کو سیاسی عمل سے کوئی دلچسپی نہیں۔مجھے طالبان یا ان کے زیراثر تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔مایوسی پھیلانا مقصود نہیں لیکن جو لوگ اس نوع کی تنظیموں کے ڈھانچے سے واقف ہیں انہیں علم ہے کہ اس طرح کے گروہوں کی لگام کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ ان کی انفرادی خودسری کا یہ عالم ہے کہ ان کی تنظیموں کے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز افراد بھی ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود بھی چاہنے کے باوجود اپنے ساتھیوں اور مالی وسائل فراہم کرنے والوں کی مرضی اور منشا کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ شدت پسندوں کو وسائل فراہم کرنے والے غیر ملکی ان تنظیموں کے اندر گہرا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی پر بھی نہیں مارسکتا۔لال مسجد آپریشن میں غازی عبدالرشید نے حکومت کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہی تو ان کے اپنے ساتھی سدراہ بن گئے۔انہوں نے کوئی معاہد ہ نہیں ہونے دیا۔ماضی میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کا عمل اس لیے کامیاب نہ ہوسکا کہ حکومت ان کے ساتھ یک طرفہ ڈیل کرنا چاہتی تھی لیکن ذاتی اغراض رکھنے والوں نے انہیں ناکام بنادیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر بحث میں باہر سے انتہاپسند گروہوں کو ملنے والی مالی امداد کا ذکر گول کردیا جاتاہے۔حالانکہ سرکاری سروے بتاتے ہیں کہ انتہاپسندی کے فروغ میں ملوث زیادہ تر شخصیات اور مدارس کے مالی وسائل کا منبع قریبی ہمسایہ ممالک ہیں۔ان ممالک کے ساتھ اس موضوع پر کھل کر کبھی بھی تبادلہ خیال نہ کیا جاسکا۔وہاں کے حکمران پاکستان کے مخالف نہیں اور نہ ہی انتہاپسندوں کے حامی ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ ان ممالک سے پاکستان آنے والے افراد کو آزادانہ سرگرمیاں کرنے دی جاتی ہیں۔ترسیل زر پر بھی کوئی قدغن نہیں۔ہر روزہنڈی کے ذریعے کروڑوں روپے پاکستان بھیجے جاتے ہیں۔نگرانی کا کوئی موثر نظام نہیں کہ بیرونی ممالک سے آنے والا پیسہ کہاں اور کن مقاصد پر خرچ ہوتاہے؟ خلیجی ریاستوں میں ایسے بے شمار خیراتی ادارے ہیں جو بغیر کسی تحقیق کے پاکستان میں قائم مدارس اور شخصیات کو فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ رچرڈہالبروک امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے لیے نمائندے مقرر ہوئے تو انہوں نے کوشش کی کہ شدت پسندی کے مسائل کے حل کے لیے جامع علاقائی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ کویت، قطرا ور عرب امارات کا دورہ کرکے وہاں کے حکمرانوں کو قائل کیا کہ وہ ترسیل زر پر مزید پابندیاں لگائیں۔ ایسے عناصر کی نگرانی کریں جن کی سرگرمیاں مشکوک ہوں ۔بدقسمتی سے ہالبروک کے انتقال کے بعد علاقائی ممالک کو ایک صفحہ پر لانے کا سلسلہ دم توڑ گیا ۔ان کے جانشین اور پاکستانی حکام اس اہم پہلو پر توجہ مرکوز کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل ایک جامع حکمت عملی اختیار کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے فوج، خفیہ ادارے، وزارت داخلہ ،خارجہ اور اطلاعات سمیت حکومت کے ہر کل پرزے کو متحرک ہوناہوگا؛ تاہم ذہنی طور پر تیار بھی رہنا پڑے گا کہ شدت پسندی کے خلاف لمبی جنگ لڑنا ہوگی‘ جس کا اہم محاذ ابلاغیات ہے جہاں موجودہ بیانیے (Narrative) کو چیلنج کرنا ہوگا۔جوابی استدلال وضع کرنا ہوگا اور سب سے اہم بات یہ کہ نئی نسل کورجعت پسندانہ خیالات سے چھٹکارا پانے میں مدد دینا ہوگی۔ ہر سطح پر مکالمے کی حوصلہ فزائی کے ساتھ ساتھ طاقت کے استعمال کے خلاف قومی سطح پر محاذ بنایا جاناچاہیے تاکہ ایسے عناصر کو‘ جو معاشرے پر اپنے نظریات زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں‘ تنہا کیا جاسکے۔ پاک فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی کی طالبان کے ہاتھوں شہادت کے بعد یہ حقیقت مزید عیاں ہوگئی کہ انتہاپسندی کے خلاف جاری جنگ کا خاتمہ مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ریاستی سرپرستی میں نئے ڈھانچے کھڑے کرنے ہوں گے جو ان عناصر کے خلاف لڑسکیں۔ صورتحال کے سائنسی بنیادوں پر تجزیے اور مطالعہ کے لیے یونیورسٹیوں میں خصوصی شعبے بنانا ہوں گے۔ ماضی سے رشتہ کاٹے بغیر نئی نسل کو سکول ہی سے پُرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دینا ہوگی۔محض فوجی طاقت کے استعمال سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکے گی۔ پختون علاقوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔جو پختون پنجاب یا کراچی میں آباد ہیں‘ ان کے ساتھ غیر سرکاری اداروں اور مقامی آبادی کے ممتاز لوگوں کو کام کرنا ہوگا تاکہ وہ مل جل کررہنے کا ہنر سیکھ سکیں۔کے پی کے اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پڑے لکھے افراد کو جو پاکستا ن کے دوسرے شہروں یا بیرون ملک آباد ہیں انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ واپس اپنے علاقوں میں جاکر ایسا سماجی اور تعلیمی اسٹرکچر بنائیں جو معاشرتی ارتقا ء کے عمل کو تیز کرسکے۔ صوبے میں کم ازکم پانچ ہزار ایسے افراد تیار کیے جائیں جو امن کے پیامبر ہوں ۔یہ کام حکومتی سرپرستی کی مدد سے غیر سرکاری ادارے اپنے وسائل سے بھی کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو صوبے کو روایتی قدامت پرستانہ ماحول سے باہر نکالنا ہوگا۔حال ہی میں صوبائی حکومت نے جن تعلیمی اصلاحات کا اعلان کیا ہے وہ اس خطے میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں بشرطیکہ ان پر پوری طرح عمل کیا جاسکے۔خیبر پختون خوا کی خوشی قسمتی ہے کہ یہاں اعتدال پسند جماعت تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے‘ جس کے پاس ماہرین کی اعلیٰ پائے کی ٹیم ہے۔ جو ملائیت کا بتدریج خاتمہ کرکے اسے ایک متوازن خطہ بناسکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں