"IMC" (space) message & send to 7575

امید کی کرن

مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میںامید کی موہوم سی کرن بھی توقعات اور امکانات کے دیے روشن کردیتی ہے۔گزشتہ چند دنوں میں کچھ اچھی خبریں سننے کو ملیں تو جی خوش ہوگیا۔پہلی خبر یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام جید علماء کرام کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوا ۔جس میں مولانا سلیم اللہ خان، مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا مفتی مختار الدین شاہ، مولانا فضل محمد، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی سید عدنان کاکا خیل، مفتی ابولبابہ شاہ منصور اور مولانا محمد حسن نے شرکت کی اور مشترکہ طور پر حکومت اور طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کی ۔ بیان میں کہا گیا کہ جب تک مذاکرات کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں‘ فریقین ہر قسم کی مسلح کارروائیوں سے گریز کریں۔ حکومت اور طالبان سے علمائے کرام نے اپنے بیان میں کہا: طاقت کا بے محابہ استعمال اور خونریزی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ۔ جن علماء کرام نے جنگ بندی کی اپیل کی وہ دینی حلقوں میںبہت معتبر ہستیاں تصور کی جاتی ہیں۔بلامبالغہ ملک بھر کے ہزاروں علماء اور طلبہ نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے۔خودطالبان کے اندر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو ان علماء کے علم ،تقویٰ اور دیانت داری کی قسمیں کھاتے نہیں تھکتے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ پر کان دھرتے ہیں۔غالباًیہی وہ اسباب ہیں کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے علماء کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت جنگ بندی میں پہل کرتی ہے تو وہ بھی مثبت ردِ عمل ظاہر کریں گے۔ دوسری خبر عمران خان کے موقف میں آنے والی مثبت تبدیلی ہے۔وہ بتدریج اپنے پرانے موقف سے دستبردارہو رہے ہیں ۔موصوف نے اپنے تازہ ترین بیان میں فرمایا: طالبان کو آئین اور پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا ہوگا ورنہ ان کے خلاف آپریشن ہوگا۔معلوم نہیں کہ وہ اس بیان پر قائم بھی رہتے ہیں یا نہیں۔ کم ازکم یہ امرخوش آئندہے کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دائرہ کار طے کردیاہے۔ تیسری اچھی خبر یہ ہے کہ نوا زشریف جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے ،رفتہ رفتہ فوجی آپریشن کی طرف مائل نظرآتے ہیں۔انہیں حالیہ دورۂ امریکا میں عالمی برادری کے موڈ سے بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ کالعدم تنظیموں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنا یا ان کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرنے کی گنجائش بہت محدود ہے۔ان کے ساتھ سماجی اور رسمی روابط رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ پشاور کے گرجا گھر پر ہونے والے حملے نے حکومت کو ہلا کررکھ دیا ۔وزیراعظم جانتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن دہشت گردی کے عفریت کے خلاف متحرک ہونا پڑے گا ورنہ وہ کہیں بھی پہنچ سکتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ علماء کرام کی خاموشی ،نون لیگ اور تحریک انصاف کی دہشت گردی کے حوالے سے لاتعلقی کے طرزعمل نے پاکستان کی داخلی سلامتی کو زبردست نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ موقع پرستی کی اس سیاست کا نتیجہ یہ نکالا کہ لوگ اس دوغلے پن سے عاجز آنے لگے ۔علما،نون لیگ اور تحریک انصاف پرکھل کر نکتہ چینی کرنے لگے۔عوامی دبائو اور شدت پسندوں کی حد سے بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے خائف ہوکر علماء ،نون لیگ اور تحریک انصاف نے اپنے موقف میں بتدریج تبدیلی پیدا کرنا شروع کی جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔سردار عبدالقیوم خان کو اللہ عمرِ دراز اور صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔نوے کی دہائی میں کشمیری نوجوانوں نے مسلح جدوجہد شروع کی تو اس کی حدت نے پاکستان کے ایک بڑے طبقہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔افغان جہاد کی کامیابی کا خمار ابھی باقی تھا کہ کشمیریوں نے بندوق اٹھالی۔کابل لیا ہے اب سری نگر کی باری ہے۔مرحوم سلیم ناز بریلوی کے ترانے دلوں کو گرما تے ‘روح کو تڑپاتے۔سینئر صحافی فاروق عادل کے ہمراہ کراچی کے ایک ہوٹل میں ہم سردارعبدالقیوم خان سے ملنے گئے۔سردار صاحب متاثرکن گفتگو کرنے کے ماہر ہی نہیں بلکہ اچھے سامع بھی ہیں۔ ہم دونوں کے جو ش وخروش کو بھانپ کر ناصحانہ انداز میںفرمایا :بندوق اٹھانا بہت آسان ہوتاہے لیکن اسے واپس رکھتے رکھتے کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔اس دوران کئی نسلوں کا مستقبل تباہ ہوجاتاہے۔ پاکستان میں بقول سرکاری ذرائع کے پچیس کے لگ بھگ گروہوں نے ریاست کے خلاف بندوق تانی ہوئی ہے۔یہ سلسلہ عرصہ دراز تک چلتانظرآتاہے۔مذاکرات سے کچھ گروہ ہتھیار پھینک سکتے ہیں لیکن سب ہر گز نہیں۔کچھ علاقوں میں امن قائم ہوجائے گا لیکن تمام قبائلی علاقوں اورخیبر پختون خوا میں امن ہونا ممکن نہیں۔ان تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور سوسائٹی کو شدت پسندی سے نبردآزما ہونے کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ ایسے گروہوں کو سامنے لانا ہوگا جن کا براہ راست حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن وہ ان علاقوں کے سیاسی اور سماجی رجحانات کی تشکیل نو کرنے میں کردار ادا کرنے کی استعداد رکھتے ہوں۔ایسی شخصیات اور افراد تلاش کرنا ہوں گے جواچھی شہرت کے مالک ہوں۔ اس خطے میں نئے سماجی ادارے بنانے کی طرف راغب ہوں تاکہ معاشرہ خود انتہاپسندانہ نظریات کو مسترد کرے۔ دنیا کے جن علاقوں میں تصادم جاری ہے‘ وہاں مقامی لوگوں نے امن کے قیام کے لیے ناقابل فراموش کردارادا کیا ہے۔حتیٰ کہ عورتوں نے بھی امن کی بحالی میں کلیدی خدمات سرانجام دیں۔وہاں کی حکومتیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیتیں۔وہ ایسے مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کیے رکھتی ہیںجو غیر ریاستی گروہوں کے ساتھ رابطہ ہی نہیں بلکہ ان پر اثر ورسوخ بھی رکھتے ہوں ۔غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ساتھ مکالمہ اور انہیں قومی دھارے میں لانا ایک پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل ہے۔جو دنیا کے دیگر ممالک میں باقاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کرچکاہے۔اس موضوع پر بے تحاشہ ریسرچ کی جارہی ہے حتیٰ کہ لوگ پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ المختصر وفاق المدارس کے راہنمائوںکے حالیہ بیان نے امکانات کا ایک نیا دروازہ وا کیا ہے ۔ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تا کہ وہ محض ایک اجلاس اور ایک بیان جاری کرکے خاموش نہ ہوجائیں بلکہ طالبان کے ساتھ غیر سرکاری اور غیر رسمی انداز میں بات چیت کا عمل جاری رکھیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں