"IMC" (space) message & send to 7575

نادرا کا کمال

چودھری شجاعت حسین ایک دلچسپ شخصیت ہیں۔ بولتے کم ہیں لیکن جب بھی بولتے ہیں معنی خیز بات کرتے ہیں۔فرماتے ہیں:ملک میں جہاں بھی ووٹوں کی دوبارہ تصدیق ہوگی کراچی کے حلقہ این اے 256جیسا ہی نتیجہ آئے گا۔وہ نادرا کی جانب سے کراچی کے ایک انتخابی حلقے میں پڑنے والے جعلی ووٹوں کے انکشاف پر تبصرہ کررہے تھے۔ کراچی کے محض ایک حلقے کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے انہوں نے پورے انتخابی نظام کی ساکھ داغ دار کردی ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھنے کا ارادہ ہوتو گزشتہ انتخابات کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر اگلے انتخابات بالخصوص چند ماہ بعد متوقع بلدیاتی انتخابات کو دھاندلی سے پاک بنایاجاسکتاہے۔ایک ایسا انتخابی نظام وضع کیا جاسکتا ہے جو غلطیوں سے پاک ہو اور اس پر اسٹیک ہولڈرز اعتماد کرسکیں۔شفاف انتخابات کرانا راکٹ سائنس نہیں کہ پاکستان میں فول پروف نظام نہ بنایا جاسکتاہو۔دنیا کے درجنوں ممالک میں انتخابات ہوتے ہیں‘ وہاں کے تجربات سے فائدہ اٹھایاجاسکتاہے۔مسئلہ صرف نیت اور سیاسی عزم کا ہے۔ اگر حکومت طے کرلے اور انتظامیہ کو آزادی سے بروئے کار آنے کی اجازت ہوتو چند ماہ میں بڑے سے بڑا معرکہ سرانجام دیا جاسکتاہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ترقی پذیر ممالک میں ہوتاہے جن کے پاس شہریوں کا شاندار ریکارڈ موجود ہے۔ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کی شکل میں بننے والے ادارے نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جو شناختی کارڈ تیار کیا اسے دنیا میں مثالی قراردیا جاتاہے۔اس وقت سوائے چند فیصد شہریوں کے باقی تمام نادرا سے شناختی کارڈبنوا چکے ہیں۔گزشتہ عام انتخابات میں بھی یہی کارڈ بطور شناختی علامت کے استعمال ہوا تھا۔ چیئرمین نادرا طارق ملک کہتے ہیں: نادراالیکشن ٹریبونل کی معاونت کے لیے تیار کردہ نظام آٹو میٹڈفنگر پرنٹ آئیڈینٹی فیکیشن سسٹم (اے ایف آئی ایس) کے ذریعے انگلیوں کے نشانات کی تصدیق کا سسٹم تیار کرچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نادرا ایک ایسا نظام وضع کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جوروزانہ ایک لاکھ ووٹوں کی تصدیق کرسکتاہے۔ چند ماہ پہلے تک نادرا یومیہ صرف ایک سو فنگرپرنٹس کی تصدیق کرنے کے قابل تھا۔نادرا کی مہارت سے استفادہ کرکے دھاندلی کو روکا جاسکتاہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے شہریوں کو قواعدوضوابط کا پابند بنانے اور انہیں ایک نظام میں پرونے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ بنی نوع انسان کی فطرت ایک جیسی ہے۔اس کی جبلت میں ہے کہ وہ قانون توڑکر لطف اٹھاتاہے۔ من مانی سے تسکین پاتاہے ۔مادر پدرآزاد رہنا چاہتاہے ۔معاشرے کو منظم خطوط پر استوار کرنے کے لیے دنیا نے جدید ٹیکنالوجی کا خوب استعمال کیا۔اس کے برعکس پاکستان میں ٹیکنالوجی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا یاگیا۔نادرا کے چیئر مین طارق ملک کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی تین طرح سے مدد کرسکتے ہیں۔ نادرا پہلے ان ووٹوں کی تعداد کی نشاندہی کرے گا جو متعلقہ شناخت کے ساتھ ڈالے گئے ۔ پھر ان ووٹوں کی نشاندہی کرے گا جو اصل ووٹر کے بجائے کسی اور نے ڈالے۔اس کے بعد ان افراد کی نشاندہی کرے گا جو بوگس ووٹ ڈالنے کے مرتکب ہوئے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نادرا کی مدد سے غلطیوں سے پاک انتخابی نظام وضع کیا جاسکتاہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ سے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اگر ان کے مطالبے کی شنوائی نہ ہوئی تو وہ احتجاجی تحریک چلائیں گے۔جس طرح این اے 256 میں جعلی ووٹ پکڑے گئے مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک ٹی وی اینکر نے کراچی کے ایک حلقے میں ہونے والی دھاندلی کا پردہ چاک کیا تو ان کو نہ صرف پروگرام بند کرنا پڑا بلکہ بیرون ملک بھاگ کر جان بچانا پڑی۔ ڈاکٹر طاہر القادری مسلسل دہائی دیتے رہے کہ الیکشن کمیشن دھاندلی نہیں روک سکے گا‘ اس کے باوجود قوم نے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی شرافت اور دیانت پر اعتماد کیا لیکن وہ اپنے ادارے کی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر چپکے سے استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ان کی مایوس کن کارکردگی نے قوم کو بہت دکھی کیا۔ فیصل آباد میں تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں کامیابی نے عمران خا ن کے حکومت مخالف جذبات کو جلابخشی ہے۔کراچی میں دھاندلیوں کے انکشاف نے بھی تحریک انصاف کو مظلوم بناکر پیش کیا ۔دوسری جانب حکومت کی ایک سود ن کی کارکردگی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ الیکشن سے چند ماہ قبل میاں نوازشریف صاحب نے کئی ٹی وی چینلز پر انٹرویوز میں کہا کہ نون لیگ کی شیڈو کابینہ ہے جو ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت مستعد ہے۔ ان کے پاس قابل ‘محنتی اور دیانت دار افراد کی ایک ٹیم ہے جو چند ہفتوں میں ملک کی زمام کار سنبھال لے گی۔اب زمینی حقائق کچھ اور ہی ماجرا سناتے ہیں۔درجنوں محکموں کے سربراہ مقرر نہیں کیے جارہے کیونکہ نون لیگ کے پاس قابل افراد کی کوئی ٹیم تھی ہی نہیں۔ اگر یہی طرز حکومت جاری رہاتو فیصل آباد کے ووٹروں کی طرح باقی ملک کے ووٹرز بھی نون لیگ کے مخالفین کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں گے۔بلدیاتی انتخابات سرپر آن کھڑے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر عرصہ امتحان میں اترنا ہے۔اصل آزمائش نون لیگ کی ہے کیونکہ برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی اس کی مقبولیت کا گراف گرنا شروع ہوچکا ہے۔دوسری جانب اسے عمران خان جیسا سخت گیر حریف ملا ہے جس کے جوہر ہی حزب اختلاف میں کھلتے ہیں۔ بائونسر کرانے میں انہیں مزہ آتاہے۔چوکے چھکے لگانے کی عادت ہے۔میراگمان ہے کہ تحریک انصاف نون لیگ کی ناکامیوں کا اتنا ڈھنڈورا پیٹے گی کہ اس کے پیچھے اس کی اپنی کمزور کارکردگی چھپ جائے گی‘ کراچی میں ہونے والی دھاندلی کے انکشاف نے بھی عمران خان کو ایک ڈھول تھما دیا ہے جو وہ اگلے پانچ برس تک پیٹتے رہیں گے جبکہ حکومت اور الیکشن کمیشن صفائیاں پیش کرتے رہیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں