"IMC" (space) message & send to 7575

بے وقت کی راگنی

شہدائے کارساز کی چھٹی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سن کر ششدر رہ گیا۔بھٹو خاندان کا چشم وچراغ ‘سیاست جس کی گھٹی میں پڑی ہو اور زبان وبیان پر بلاکی قدرت ‘ اس کے باوجود اس قدر غیر معقول آغاز سیاست ؟انتخابات کے ہنگام موصوف بیرون ملک جابیٹھے۔ پارٹی کارکنوں اور رہنما ئوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ انتخابی مہم چلائی ہی نہیں گئی ‘حتیٰ کہ اندرون سندھ بھی جلسے جلوس کرنے سے گریز کیاگیا۔ بلاول اب دوبارہ لوٹ آئے ۔آتے ہی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور ’’مذہبی ٹھیکیداروں‘‘ سے محاذ آرائی شروع کردی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ انہوں نے جوکچھ کہا اسے پیپلزپارٹی کی سوچی سمجھی رائے سمجھا جاسکتاہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پانچ برس تک پی پی پی کی سندھ اور وفاق میں حلیف رہی۔نون لیگ جس کے ساتھ محبت اور ساتھ دینے کا عزم آصف زرداری ہر موقع پر دہرانا بھولتے نہیں۔تحریک انصاف جسے پیپلزپارٹی نے نون لیگ کا راستہ کاٹنے اور راہ روکنے کے لیے جگہ دی۔ہر ایک بلاول بھٹو کے نشانے پر تھا۔سوال پیدا ہوتاہے کہ اس قدر جارحانہ خطاب کا محرک کیا تھا؟ بلاول بھٹو نے مغربی تعلیمی اداروں کی آغوش میں پرورش پائی‘ جہاں ہر کام بڑے سائینٹیفک انداز میں کیا جاتاہے۔ برطانیہ کاشمار ان چند ملکوں میں ہوتاہے‘جو ذہین اور متحرک پاکستانیوں کا مسکن ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہاں خود انگریزوں میں ایسے ماہرین کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو پاکستان کی سیاست ‘صنعت وحرفت اور سماج پر گہری دسترس رکھتے ہیں۔بے شمار اداروں میں پاکستان پر باقاعدہ تدریس ہوتی ہے۔کتابیں لکھی جاتی ہیں۔تحقیق اور بحث ومباحثہ کا سلسلہ مسلسل چلتا رہتاہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن یا اس کے گردونواح میں پاکستانی اشرافیہ کی نئی نسل پروان پاتی ہے۔خود بلاول بھٹو کی اتالیق اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی گہری دوست وکٹوریہ اسکوفیلڈ‘ جنوبی ایشیائی امور کی ماہر ہیں اور لندن میں مقیم ہیں۔ بھٹو خاندان کے بچے آج بھی ان سے سیاسی مدد حاصل کرتے ہیں۔برطانیہ‘ بھٹو خاندان کا دوسرا گھر تصور کیا جاتاہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں تعلیم پائی۔ان کے نقش پا پرمحترمہ آکسفورڈ میں زیر تعلیم رہیں اور اب بلاول ۔ باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ برطانوی ماہرین سیاست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے والد آصف علی زرداری سے ذرا مختلف سیاستدان کے طور پر اپنا امیج ابھاریں۔ایک ایسے سیاستدان کا تاثر قائم کریں جو اپنے نانا اور والدہ کی طرح چیلنج کرتا ہو۔ مصالحت کی نہیں بلکہ مخالفین کے چھکے چھڑانے کی سیاست کرتاہو۔پاکستانی فطری طور پر بہادر شخصیات کے پرستار ہیں۔وہ ایسے سیاستدانوں کو پسند کرتے ہیں جو ڈٹ کر بات کرتے ہوں۔مخالفین کے لتے لیتے ہوں۔طوفان سے ٹکرا جاتے ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو نے لفظوں ہی نہیں بلکہ لوگوں کے جذبات سے کھیلااور کامیاب رہے۔عمران خان کی کامیابی کے پس منظر میں بھی ان کی جرأت اوربہادری کا بڑا عمل دخل ہے۔انہوں نے اس زمانے میں پشاور میں جلسے کیے جب لوگ پشاور کا سفر کرنے سے کتراتے تھے۔امریکیوں کو ڈرون حملوں پر آڑے ہاتھوں لیا۔قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا اور تیسری بڑی سیاسی قوت بننے کے قابل ہوگئے۔اب بلاول اسی تجربے کو دہرانا چاہتے ہیں۔ سندھ کی سیاست میں تیزی سے آنے والی تبدیلیاں بھی پیپلزپارٹی کو بے چین کیے ہوئے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی اندرون سندھ تک انتخابی مہم ہی نہیں چلاپائی۔ مخالفین کا ووٹ بینک بہت بڑھ چکاہے۔نون لیگ کی حمایت میں اضافہ ہورہاہے۔سندھ میں کئی ایک چھوٹے چھوٹے گروہ ایسے موجود ہیںجو پیپلزپارٹی کو چیلنج کرتے ہیں۔پیر صبغت اللہ پگاڑہ کی طرح کی موثر شخصیات مسلسل اپنے اثر ورسوخ میں اضافہ کیے جارہی ہیں۔ان حالات میں بلاول بھٹو کو مشورہ دیا گیا کہ وہ جارحانہ انداز سیاست اختیار کریں۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی کے اندر جاری ٹوٹ پھوٹ رک جائے گی۔حامیوں کو حوصلہ ملے گا اور پارٹی متحرک ہوجائے گی۔بلاول کی سیاست چمک جائے گی۔ پیپلزپارٹی کو نئی شناخت اور رہنما مل جائے گا۔ اس سیاسی حکمت عملی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بلاول کے برعکس آصف علی زرداری کی ترجیحات مختلف ہیں۔ان کے خیال میں وہ پانچ برس تک صدر رہ کر بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے۔پاکستان کی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کرچکے۔جمہوریت کی خدمت کرچکے۔ مصالحت اور مفاہمت کی سیاست کامیاب ہوئی۔اب نون لیگ کی حکومت سے ٹکرائو نہیں چاہتے۔اپنے مقدمات بھی کھلوانا نہیںچاہتے۔اسی لیے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔کراچی ہی کے جلسے میں زرداری صاحب کی تقریر اور لب ولہجہ نے مفاہمت کا پیغام دیا۔زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے مفاہمت کی سیاست چلتی رہی۔اس دوران وہ مفاہمت کا ماحول برقراررکھنا چاہیںگے۔ اسٹبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی کہ بڑی جماعتوں میں اس وقت تصادم ہو۔سلامتی سے متعلقہ اداروں کی کوشش ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالاجائے۔ وہ قبائلی علاقوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔خیبر پختون خوا ‘بلوچستان اور کراچی کے حالات نے انہیں جکڑرکھا ہے لہٰذاوہ نیا سیاسی دنگل نہیں چاہتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ کسی طرح اگلے چند برسوں تک ملک میں سیاست میں ٹھہرائو پیدا کیاجائے۔حید رعباس رضوی نے نائن زیرو میں جماعت کے مرکزی دفتر میں ہمارے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ ہو۔پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل نہ ہو نے کے باوجود وہ جیو او رجینے دو کی سیاست کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کا آغا ز مفاہمت کے پیغام سے ہوتا تو پیپلزپارٹی اور ملک کے لیے اچھا ہوتا۔اعلانِ جنگ کرکے انہوں نے سب کے کان کھڑے کردیے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں