روزنامہ ’’دنیا‘‘نے محض ایک سال کی مختصر مدت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔سنجیدہ قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کیا جو دلچسپی سے اخبار کا مطالعہ کرتاہے اور ادارے سے وابستہ افراد کو اپنی آراء سے آگاہ کرتاہے۔بعض قارئین کاخیال ہے کہ اخبار کی خبر یا کالم کے ذریعے جو مسائل اجاگر ہوتے ہیں‘ انتظامیہ ان کے حل پر مجبور ہوجاتی ہے۔ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا۔اخبار میں چھپنے والے مراسلے کو بھی بڑی سنجیدگی سے لیا جاتاتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو شب وروز سرکاری کاموں میں جتے رہتے۔کہتے ہیں کہ دارالحکومت سے باہر جاتے تو فائلوں کا انبار ان کے ساتھ جاتا۔کتابیں پڑھتے۔سماجی زندگی کا بھی لطف اٹھاتے۔جیل گئے تو وہاں بھی کتابیں لکھتے رہے۔ضیا ء الحق کے قہر سے بچ بچا کر مسودے باہر بھیجتے۔ جنرل ضیاء الحق بھی کوئی کم دلچسپ شخصیت نہ تھے۔نماز فجر کے بعد اخبارات کھنگالتے۔ بازار میں آنے والی نئی کتابیں خریدتے اور دوستوں کو تحفے میں دیتے۔ شب گئے باخبر لوگوں سے گپ شپ کے لیے فون کرتے۔قدیم کہاوت ہے کہ عوام خواص کے مذہب پر چلتے ہیں۔بیوروکریسی میں بھی ایسا ہی مزاج پیداہوا۔اس زمانے کے کئی سینئر افسروں نے بڑی اعلیٰ پائے کی کتابیں لکھیں۔شہاب نامہ کو حیرت انگیز شہرت ملی، الطاف گوہر کی کتاب :صدر ایوب کے دس سال،ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل کے ایم عارف نے Working With General ZIAکے عنوان سے شاندار کتاب لکھی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ صدیق سالک نے کئی کتابیں لکھیں۔ تمہید لمبی ہوگئی۔ راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک استاد ‘ محقق اور کئی کتابو ں کے مصنف ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے محکمہ تعلیم کی حالت زار کا دردناک منظر کھینچا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ الف اعلان نامی ایک غیر سرکاری ادارے نے حالیہ سروے میں بتایا کہ راولاکوٹ پاکستان میں زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ ہے بالخصوص یہاں عورتوں اور لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان اور تناسب پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اس مردم خیز خطے سے ایک درد مند استاد تعلیمی نظام کی خستہ حالی اور انتظامیہ کی بے حسی کی داستان سناتے ہیں: آزاد کشمیر میں ایک سو ستر انٹر، ڈگری اور پوسٹ گریجوایٹ کالج ہیں۔بظاہر‘ یہ بڑی ترقی ہے کیوں کہ آزادی کے وقت صرف میرپور میں ایک انٹر کالج تھا۔ 1990ء کی دہائی میں سیاسی ضرورتوں کے مطابق نئے تعلیمی ادارے بنانے کا رجحان شروع ہوا۔ عمومی طور پرنئے اداروں کے قیام کے وقت ان بنیادی لوازمات کا خیال نہیںرکھا گیا‘جن کے بغیر کسی معیاری تعلیمی ادارے کا قیام محال ہے۔ مثال کے طور پر آج بھی چار برس قبل قائم ہونے والے کئی انٹر کالجز میں لازمی مضامین انگریزی ، اُردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے اساتذہ دستیاب نہیں ۔ مڈل سکولوں کی عمارات میں کالج چلتے ہیں ۔بعض کالجوں میں اساتذہ اور طلبہ کی تعداد برابر ہے۔ ہائر سیکنڈری سکولوں کی حالت تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ محکمہ تعلیم نے کالجوں کے سروس سٹرکچر کے مطابق مختلف سکیلوں میں اساتذہ کی ترقیوں کے لیے فارمولہ بنایا‘ جس کے مطابق گریڈ17سے20تک محکمانہ کوٹے کے علاوہ باصلاحیت اور قابل افراد کو ملازمتوں میں لینے کے لیے براہ راست بھرتی کا کوٹہ بھی رکھا گیا۔ اصول وضع کیا گیا کہ جب بھی کسی سکیل میں پروموشن ہو، محکمانہ کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹ کوٹے کی اسامیاں مشتہر کر کے براہِ راست بھرتی بھی کی جائے۔گزشتہ 23برس میں صرف 19اسامیوں پر براہ راست تقرری کی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈائریکٹ کوٹے کی 159 آسامیاں خالی ہیں۔ حکومت نے ان اسامیوں کے خلاف اپنی مرضی کے ایڈہاک لیکچرر بھرتی کیے ۔ غیر مساویانہ سلوک کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں: وفاقی حکومت کے ملازمین کو ماہانہ 7500 روپے ‘پنجاب میں 5000 جبکہ آزاد کشمیر میں محض 2250روپے پی ایچ ڈی الائونس دیا جاتاہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد کے مطابق پوسٹ گریجوایٹ اور بی ایس (چار سالہ) کے لیے ایم فل، پی ایچ ڈی اساتذہ کا ہونا ضروری ہے ۔ میرپور، راولاکوٹ اور باغ کے پوسٹ گریجوایٹ کالجوں میں ایک بھی پی ایچ ڈی اُستاد نہیں۔ حالانکہ اُردو کے آٹھ پی ایچ ڈی اور دس ایم فل اساتذہ مختلف انٹر کالجوں میں تدریس پر مامور ہیں۔ دارالحکومت مظفرآباد میں تقرر و تنزّل کا واحد پیمانہ سیاسی وفاداری یا برادر ی ہے۔ دو سال قبل انٹرمیڈیٹ و ثانوی تعلیمی بورڈ میرپور کے چیئر مین کے لیے ایک ایسے شخص کا تقررکیا گیا‘ جو 2002ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں اور ریٹائرڈ پروفیسر ہیں ۔ علاوہ ازیں قواعد کے مطابق کوئی بھی ریٹائرڈشخص چیئر مین بورڈ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح سیکرٹری بورڈ کی تعیناتی میں بھی کئی سینئر افراد کو نظرانداز کیاگیا۔ امسال 11نومبر کو کنٹرولر امتحانات کا لجز کاآئندہ تین سال کے لیے تقرر ہونا ہے۔کنٹرولرامتحانات کالجز کے لیے پینل بناتے ہوئے سینئر اور تجربہ کار اساتذہ کو نظرانداز کردیا گیا۔اِس کے علاوہ بھی نظامت تعلیم کالجز اور ٹیچرز فاؤنڈیشن میںسینکڑوں سینئر اساتذہ کی حق تلفی کرتے ہوئے جونیئر افراد کا تقرر کیا گیا ۔ سنیارٹی لسٹوں میں ردّوبدل کیا جا تاہے۔ چنانچہ قابل اور ذہین اساتذہ بیرون ملک یا پاکستان کے بڑے شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں تاکہ آزادانہ ماحول میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں۔ آزادکشمیر باصلاحیت لوگوں سے خالی ہوتاجارہاہے ۔ پروفیسر صاحب کی داستان یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ ملک میں کہیں بھی قانون کی حکمرانی نہیں۔ چھوٹے صوبوں اور وفاق کے زیرانتظام علاقوں بالخصوص آزادکشمیر ،گلگت بلتستان اور بلوچستان میں اچھی حکمرانی کی فراہمی کا تصورہی عنقا ہوچکا ہے۔ محاسبے کا نظام کمزور اورمقامی میڈیا طاقت ور نہیں۔ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور ذاتی اغراض سے اوپر اٹھ کر خدمات سرانجام دینے والے سیاستدان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قومی میڈیا کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے علاوہ باقی ملک کو پاکستان ہی تصور نہیں کرتا۔مقامی عدالتیں سپریم کورٹ کی طرح متحرک نہیں۔ وفاقی حکومت کو اپنے ہی جھمیلوں سے فرصت نہیں کہ وہ ان علاقوں کی بہتری کی طرف توجہ دے۔ نہ ہی ایوب خان، بھٹو اور ضیاء الحق جیسے حکمران رہے ہیں جو اخبارات کا مطالعہ کرتے اور مفادعامہ کے کاموں میں دلچسپی لیتے تھے۔