تحریک انصاف نے دو صوبائی وزرا کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنا پر خیبر پختون خوا حکومت سے نکال کرقوم کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔عمران خان نے کہا: تحریکِ انصاف کے وزرا اور ارکان اسمبلی سن لیں جو بھی کرپشن میں ملوث پایا گیا اس کا یہی انجام ہوگا۔ ایسے ملک میں جہاں کرپشن کی گنگا بہتی ہو، ہر کوئی حصہ بہ قدرِ جثہ پاتاہو‘وہاں بدعنوانی سے پاک اور شفاف حکومت چلانے کی کوشش کرنا خطرات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کردیتی ہے۔ان کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔وہ اپناعلیحدہ گروپ بنالیتے ہیں حتیٰ کہ حکومت گرابھی دیتے ہیں۔کرپشن کے خلاف جس جہاد کا انہوں نے آغاز کیا ہے اس میں ان کی حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہوسکتاہے کیونکہ انہیں اسمبلی میں بڑی عددی برتری حاصل نہیں۔ان خطرات کے علی الرغم دووزراء کو حکومت سے نکالنا اور آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو ہری جھنڈی دکھاکرعمران خان اور تحریک انصاف نے بے مثال سیاسی جرأت کا مظاہر ہ کیا۔ پاکستا ن کی حکومتیں ‘سیاست اور سماج کرپشن کے دھندے میں لت پت ہے۔معتبر اداروں کی رپورٹوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو خاکم بدہن یہ گمان یقین میں بدلنے لگتاہے کہ ہمارے بچنے کی اب کوئی امید نہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے‘ جو بدعنوانی اور بری حکومت کا پیشہ ورانہ انداز میں جائزہ لیتی ہے انکشاف کیا ہے کہ یوسف رضاگیلانی کے دورحکومت میں پاکستان نے94ارب ڈالر کی رقم کرپشن‘ٹیکس چوری اور بُری حکومت کے باعث ضائع کردی۔ اسی ادارے نے پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی بدعنوان ترین سرکار قراردیا۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے‘ جنہیں خود آصف علی زرداری نے چیئرمین قومی احتساب بیورو مقرر کیا تھا‘ اعتراف کیا کہ ملک میں سالانہ چالیس ارب ڈالر کی بدعنوانی ہوتی ہے۔ بدعنوانی کا سرطان ہر معاشرے میں پایاجاتاہے‘حتیٰ کہ چین میں بھی ‘جہاں کرپشن میں پکڑے جانے والے ملزموں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں،برطانیہ جیسے ملک میں بھی ارکان پارلیمنٹ کرپشن میں پکڑے گئے‘ جہاں ادارے مضبوط اور نگرانی کا نظام موثر ہے ۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کرپشن کی سطح دوسرے ممالک سے ساٹھ فیصد زیادہ ہے ،حتیٰ کہ میڈیا‘مذہبی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں بھی کرپشن پائی جاتی ہے۔ چند ادارے ایسے بھی ہیں جن کی کرپشن عدالتوں میں ثابت ہو گئی ،اِس کے باوجود کوئی انہیں ہاتھ لگانے کی جرأت نہیں کرتا۔ قارئین !آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک عالمی مالیاتی ادارے کی ایک ذمہ دار شخصیت نے بتایا کہ اگر پاکستان کرپشن پر قابو پا لے اور اچھی حکومت کی فراہمی یقینی بنالے تو اسے غیر ملکی امداد کی چنداں ضرورت نہیں رہے گی۔کرپشن سے پورا ملک عاجز آچکاہے۔ لوگ نظام بدلنے کے لیے قربانی دینے اور سیاسی جدوجہد کرنے کو تیار ہیں مگر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں۔عمران خان کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ایک حالیہ سروے میں 54 فیصد پاکستانی شہریوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کرپشن کے خلاف سرگرم کسی بھی تنظیم یا تحریک کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔ 53 فیصدافراد تو بدعنوانی کے خلاف احتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے لیے بھی تیار ہیں بشرطیکہ وہ پرامن ہو۔اسی سروے میں 59فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ مہنگے داموں اشیائے صرف اور سروس خرید سکتے ہیں لیکن کرپشن نہیں چاہتے۔ عمران خان کو غالباً یہ احسا س ہوچکا ہے کہ محض امریکا مخالف نعروں سے لوگوں کاپیٹ بھرا جاسکتاہے‘ نہ ہی رائے عامہ کی ہمدریاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔انہیں تبدیلی کے عنوان پر ووٹ ملے اور ان کی سیاست کا مستقبل بھی تبدیلی کو حقیقت میں متشکل کرنے میں مضمرہے۔خیبر پختون خوا ایک ایسی نرسری ہے جہاں وہ اپنی مرضی کے تجربات کرسکتے ہیں۔لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیںبالخصوص ان کی دیانت داری شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ غالباً موجودہ قومی سیاسی قیادت میں وہ واحد سیاست دان ہیں جن کا دامن داغدار نہیں۔اگر وہ کے پی کے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں باقی ملک کی زمام کار سنبھالنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اسے دیوہیکل مسائل سے واسطہ پڑاہے‘ جو آسانی سے حل ہوتے نظر نہیں آتے۔خاص طور پر مہنگائی کا اٹھتا ہوا طوفان نہ رکا تو نون لیگ کی مقبولیت اور ساکھ کو بہا لے جائے گا۔عالم یہ ہے کہ قوت خرید رکھنے کے باوجود بنیادی سروسز دستیاب نہیں۔ بجلی یا گیس ہوگی تو خرید یں گے۔گزشتہ دو دن سے میرے اپنے گھر کا چولھا اس سے لیے بجھ چکا ہے کہ گیس دستیاب نہیں۔لوگوں کے دلوں میں غصے کا طوفان مچل رہاہے۔ناکام معاشی حکمت عملی نے حکومت کو چھ ماہ میں اس مقام پہ پہنچا دیا ‘جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت چار سال میں پہنچی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومتوں نے کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث افراد کی سرپرستی کی۔صوبے کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔ملکی اور عالمی سطح پر صوبائی انتظامیہ اور حکومت کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔چھ ماہ قبل تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عالمی ادارے دوبارہ صوبے کی جانب متوجہ ہوئے۔ انہیں اطمینان ہے کہ اب مالی امداد ہڑپ نہیں کی جائے گی۔حساب کتاب رکھاجائے گا اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ کرپشن کے خلاف حالیہ اقدام کا بھی مثبت اثر ہوگا ۔ سرمایہ کار ہی نہیں بلکہ عالمی امدادی ادارے بھی کے پی کے کی حکومت کو امداد فراہم کرنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جاتاہے کہ کیا عمران خان کو خیبر پختون خوا کے حکومتی معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے کہ نہیں؟حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے مینڈیٹ عمران خان اور تحریک انصاف کو دیا ہے نہ کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو۔اس لیے جوابدہ بھی عمران خان کو ہونا ہے اور نکتہ چینی بھی انہی کو برداشت کرنا ہوتی ہے۔خیبر پختون خوا حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا سہرا عمران خان کے ہی سر باندھا جائے گا۔ براہ راست صوبے کی انتظامیہ میں شریک نہیں لیکن بھارت کی حکمران جماعت کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کی طرح وہ ہی حکومتی کارکردگی کے آخری ذمہ دار ہیں۔ انہیں اپنی جماعت کے اندر ادارہ جاتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ تحریک انصاف موثر اور فعال جماعت بن سکے۔جمہوری انداز سے فیصلے ہوں اور تمام سٹیک ہولڈرز ذمہ داری قبول کریں۔ تحریک انصاف کے جماعتی انتخابات اور بعدازاں ٹکٹوں کی تقسیم پر خوب ہاہاکار مچی ۔اب عمران خان کے پاس وقت ہے کہ وہ جماعتی صفوں کو نئے خطوط پر منظم کریں۔ جماعت کے اندر نگرانی کا نظام قائم کریں تاکہ غلط کاموں میں ملوث افراد کامحاسبہ کیا جاسکے۔ نیٹو سپلائی بند کرنے جیسے بے معنی کاموں اور شہید یا ہلاک جیسے بے وقت کے مناظروں میں الجھنے کے بجائے وہ نوجوانوں کو مثبت کاموں پر متحرک کریں۔ جس طرح انہوں نے پشاور میں کرکٹ میچ کرایا اس نے خیبرپختونخوا کے نوجوانوں کو تفریح کا شاندار موقع فراہم کیا۔اس طرح کی سرگرمیوںکو منظم کریں۔ بلدیاتی انتخابات سرپر کھڑے ہیں۔ نوجوانوں کو آزمائیں۔اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا عملی مظاہرہ کرکے دیکھیں۔کرنے کے بہت سے کام ہیں ضرورت صرف ترجیحات کے تعین کی ہے۔