آج کے پاکستان کے حالات دیکھ کر شمالی آئر لینڈ کا ایک سفر یادآتاہے۔ دو برس پہلے ایک مطالعاتی گروپ کے ہمراہ شمالی آئر لینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ جانے کا موقع ملا۔ شہر کے بیچوںبیچ اٹھائی جانے والی دیواریں دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اپنی میزبان جولیا سے سبب پوچھاتو جولیا کے چہرے پر یک دم اداسی چھا گئی۔کہنے لگی یورپ کی طرح شمالی آئرلینڈ میں بھی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کے پیروکار آباد ہیں۔ دونوں عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں،رنگ اور نسل بھی سانجھی ہے،ا س کے باوجود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں؛چنانچہ برسوں سے جاری خون ریزی سے بچنے کی خاطر برطانوی حکومت نے شہرکو مختلف حصوں میں بانٹ دیا ۔صرف بلفاسٹ میں 98 دیواریں کھڑی دی گئیں۔حکومت اس امر کا اہتمام کرتی ہے کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل نہ ہوں اورایک دوسرے کے قریب نہ جاسکیں۔
آئر لینڈ کا تنازع گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے۔ سترکی دہائی میں کیتھولک عیسائیوں نے برطانیہ کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کیا۔مذہبی اختلافات اور خطے کے مستقبل کے تعین پر متضاد سیاسی فکراورجنگ نے شمالی آئر لینڈ کو برطانیہ اور آزادی نواز حلقوں میں تقسیم کردیا۔کیتھولک چاہتے تھے کہ وہ جنوبی آئرلینڈ کے اشتراک سے ایک آزاد ریاست تشکیل دیں۔اس کے برعکس پروٹسٹنٹ اپنا مستقبل برطانیہ کے ساتھ وابستہ کرچکے تھے۔دونوں فرقوں کے لوگوں نے اپنی اپنی مسلح تنظیمیں قائم کرلیں اور ایک دوسرے پرحملہ آور ہوگئے۔بتدریج ایک ہی بستی میں بسنے والے اجنبی بن گئے ۔پہلے بچوں کے سکول الگ کیے گئے ،پھر ہسپتال بھی جداجدا ہوگئے،چرچ تو پہلے ہی تقسیم ہوچکے تھے۔ آبادیاں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہوتی گئیں،حفاظت کے نام پرشہروں اورمحلوں میں صرف سکیورٹی فورسز کے لیے پختہ مورچے ہی تعمیر نہیںہوئے بلکہ دیواریں بھی چن دی گئیں۔بعض دیواروں کی اونچائی تیس فٹ سے زائد اور لمبائی کئی کلومیٹرہے۔جولیا نے ایسے کئی افراد سے ملاقات کرائی جو چند گزکے فاصلے پر ہونے کے باوجود زندگی بھر مخالف فرقے کے پیروکاروں سے راہ ورسم پیدا نہ کر سکے۔ایک تاجرنے بتایا: میں زندگی میں چالیس سال کی عمر میں پہلی بار ایک کیتھولک سے ملا اور وہ بھی امریکا میں۔یہ قصہ یہیں تمام نہیں ہوتا بلکہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے علاقوں سے دن کے وقت بھی گزر نہیں سکتے ۔اساطیری شہرت کے حامل افریقی لیڈر نیلسن منڈیلا نے دونوں فرقوں کے نمائندوں کو مذاکرات کے لیے جنوبی افریقہ بلایا۔اس وقت تک آزادی پسند شن فین اور برطانیہ نوازیونینسٹ کے ناموں سے سیاسی جماعتیں بھی قائم کر چکے تھے ۔دونوں جماعتوں نے منڈیلا کی دعوت قبول کرلی لیکن نفرت اور دشمنی اس قدر گہری تھی کہ وہ منڈیلا سے مشترکہ ملاقات کے لیے رضامند نہیں ہوئے۔
برطانیہ کی حکومت نے شن فین کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا،برطانیہ مخالف افراد کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا،انہیں جیلیں کاٹنا پڑیں۔شن فین اوراس کے عسکری بازو آئر لینڈ لبریشن آرمی نے برطانوی سیاسی نظام کو مسترد کردیا،انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا حتیٰ کہ برطانیہ کے ساتھ تعاون اور مکالمے کے سارے دروازے بند کردیے گئے۔دونوں جانب سے نوے کی دہائی تک تشدد جاری رہا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ناختم ہونے والے تنازع نے برطانیہ کے عالمی امیج کو بری طرح متاثر کیاجبکہ شن فین کی قیادت
کوبھی احساس ہوا کہ وہ طویل عرصہ تک جنگ تو جاری رکھ سکتے ہیں لیکن برطانیہ کو فوجی شکست سے نہیں دوچار کرسکتے ۔امریکا میں آباد آئرش کمیونٹی نے بھی اس تنازع میں شن فین کی ہر طرح کی مدد کی لیکن وہ امریکہ کی حمایت حاصل نہ کرسکے۔کچھ بن نہ پڑا تو آئرش سول سوسائٹی متحرک ہوئی ۔خواتین کی تنظیموں نے خطے میں امن قائم کرنے کی کوششیں شروع کیں۔یونیورسٹی کے پروفیسروں، وکلاء اور معاشرے کے دوسرے فعال طبقات نے تمام تر خطرات کے علی الرغم شن فین اور یونینسٹ کے طرزسیاست کو چیلنج کیااورانہیں آمادہ کیا کہ وہ امن کو ایک موقع دیں،تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں ورنہ رائے عامہ ان کے خلاف ہوجائے گی ۔ دھیرے دھیرے بلفاسٹ میں ماحول بدلنا شروع ہوگیا۔پہلے مختلف بات کرنے والے کو دشمن کا ایجنٹ گردانا گیا لیکن جلد ہی فضا بدل گئی۔سیاستدانوں کو ادراک ہوا کہ لوگ اسٹیٹس کو کے خلاف ہیں اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔نوے کی دہائی میں بیک چینل میں شن فین اور برطانوی حکومت کے مابین مذاکرات کا سلسلہ 1998ء میں مکمل ہوا اور ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا۔ برطانیہ نے شمالی آئر لینڈ میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ تسلیم کیا لیکن اس کے
لیے سازگار ماحول کی تیاری میں کچھ وقت لگ سکتاہے۔ جنوبی آئرلینڈ اور برطانیہ دونوں نے شمالی آئرلینڈ میں مشترکہ کوششوں سے امن بحال کیا،نئے سرے سے انتخابات کرائے گئے،مسلح مزاحمت کاروں کو سیاسی نظام میں نہ صرف جگہ دی گئی بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی واپس لیے گئے۔
یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ روایتی حریف شیروشکر ہوکر تعمیر وطن میں جت چکے ہیں۔شمالی آئرلینڈ کی سیاسی اور عسکری جماعتوں نے جس طرح اپنے سیاسی اختلافات پر قابو پایا ‘سیاست کو تشدد سے پاک کیا وہ دنیا کے دیگر تصادم زدہ خطوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ شمالی آئرلینڈ کی طرح پاکستان میں بھی مذہب اور سیاست نے معاشرے کو بری طرح تقسیم کیا اور یہ تقسیم روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے۔حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر جو ردعمل سامنے آیا اور محرم الحرام میں جو واقعات رونما ہوئے‘ ان سے عیاں ہوتاہے کہ آنے والے دنوں میں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر پائی جانے والی تقسیم اور منافرت نہ صرف مزید گہری ہوگی بلکہ پرتشدد واقعات میں اضافہ بھی ہوسکتاہے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان کے اہل مذہب اور سیاست سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسی راہیں تلاش کریں جو مشترکات کو فروغ دیتی ہوں،رواداری اور جذبہ اخوت کو ابھارتی ہوں ورنہ بعید نہیں کہ پاکستان میں بھی شمالی آئرلینڈ کی مانند مختلف فرقوں کے درمیان شہر،سکول اور ہسپتال تقسیم ہوجائیں۔