"IMC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورۂ مظفر آباد

وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ مظفر آباد کئی پہلوئوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اس موقع کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ حریّت کانفرنس کے راہنمائوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ یاد رہے کہ محض چند ہفتے قبل دہلی میں کشمیری راہنمائوں کے ساتھ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کشمیر کی آزادی اور خطّے کی فلاح و بہبود سے ذاتی لگائو کا ذکر کیا اور شرکا ء کو بتایا کہ اس علاقے کی تقدیر بدلنے کے لیے وہ میگا منصوبوں کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے آزاد کشمیر کی ترقی کے لیے کنٹرول لائن پر امن کو ضروری قراردیا‘ جبکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی کا برقرار رہنا مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے اور بھارت پر دبائو ڈالے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس وقت آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم چودھری مجید کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک محض اس وجہ سے کامیاب نہ ہوئی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چودھری مجید کو اپنا وزیر اعظم قراردیا اور تحریک عدم اعتماد کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔ نواز شریف پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں جو کشمیر کونسل کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے مظفر آباد گئے۔ مظفر آباد ایک ایسا دارالحکومت ہے جہاں اس کے اپنے صدر اور وزیر اعظم بھی بھول کر قدم نہیں رکھتے۔ وہ زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔ اکثر اعلیٰ سطحی اجلاس بھی اسلام آباد میں طلب کرتے ہیں۔ بسا اوقات وزرا ء اور مشیروں سے حلف بھی اسلام آباد ہی میں لے لیا جاتا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف کا مظفر آباد جانا اور پورا دن حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا مثبت پیش رفت ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے آزاد کشمیر کی ترقی کے لیے بڑے اہم اعلانات کیے‘ جن میں مظفر آباد کو ٹرین کے ذریعے راولپنڈی اسلام آباد سے ملانا‘ آزاد کشمیر کو گلگت بلتستان سے مربوط کرنا‘ مظفر آباد اور راولا کوٹ میں بین الاقوامی معیار کے ہوائی اڈے تعمیر کرنا اور مظفر آباد کو جدید شاہراہ کے ذریعے میرپور سے ملانے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ ملک کی اقتصادی صورتحال کے پیش نظر یہ منصوبے بظاہر دیوانے کی بڑ نظر آتے ہیں لیکن اگر وفاقی اور آزاد کشمیر کی حکومتیں نیک نیتی سے کام کریں تو یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتے ہیں۔
آزاد کشمیر کی 67 فیصد شرح خواندگی پاکستان کے چاروں صوبوں سے زیادہ ہے۔ یہاں کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ برطانیہ، امریکہ‘ کینیڈا اور خلیجی ریاستوں میں برسرِروزگار ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق کشمیری پاکستان کی کل آبادی کا محض دو فیصد ہیں لیکن زرمبادلہ میں ان کا حصہ 6.25 فیصد سے اوپر ہے۔ بیرون ملک آباد کشمیری سرمایہ کاروں کے پاس سرمائے کی کمی نہیں۔ ہنرمند اور تعلیم یافتہ کارکن بھی دستیاب ہیں۔ چھوٹے سے علاقے میں 25 ملکی اور غیرملکی بینکوں کی 441 سے زائد شاخیں قائم ہیں۔ ان بینکوں میں دو سو ارب سے زائد روپیہ بے مصرف پڑا ہے جو معاشی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ 
سیاحت کے لیے یہ علاقہ آئیڈیل ہے۔ اس سال چھ لاکھ سے زائد سیاحوں نے نیلم ویلی اور راولا کوٹ کا رخ کیا۔ غیرملکیوں کو ان علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں ورنہ وہ بھی اس علاقہ میں سیر کی غرض سے آتے‘ بالخصوص بیرون ملک آباد کشمیر ی غیرملکی دوست احباب کو یہاں کی سیاحت کے لیے مدعو کر سکتے ہیں۔ ٹریکنگ‘ ہائیکنگ اور پیراگلائیڈنگ جیسے تفریحی منصوبے شروع کرنے کے وسیع امکانات موجودہیں۔ سیاحوں کو رہائش‘ کھانا اور راہنمائی فراہم کرنے کے لیے اربوں روپے کے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں کے لیے یہ علاقہ بہترین ہے۔ بجلی پیدا کرنے اور اسے واپڈا کو فروخت کرنے پر غیرمعمولی طور پر کم لاگت آتی ہے۔
ان امکانات کے باوجود آزاد کشمیر ترقی نہیں کر رہا ۔ بزرگ سیاستدان سردار عبدالقیوم خان کہا کرتے ہیں کہ جو چار جماعتیں پڑھ جاتا ہے‘ وہ راولپنڈی‘ لاہور یا کراچی نقل مکانی کر جاتا ہے یا جس کے پاس چار پیسے آجاتے ہیں وہ یورپ کو اپنا بسیرا بنا لیتا ہے۔ نمل یونیورسٹی کے استاد وقاص علی کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ محض پانچ برسوں میں سوا لاکھ کے لگ بھگ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک سدھار چکے ہیں۔ مسلم کانفرنس کے نوجوان راہنما عثمان عتیق خان نے کسی موقع پر بڑی دلچسپ بات کہی: 'ہم کچرے کے ساتھ سیاست اور انتظامیہ چلاتے ہیں۔ لعل و گوہر تو یورپ چلے جاتے ہیں یا پھر پاکستان کے بڑے شہروں کی نذر ہو جاتے ہیں‘۔
آزاد کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اچھی اور فعال حکومت کی فراہمی کا تصور دم توڑ چکا ہے۔ سرکاری حکام کا ذکر ہی کیا‘ یہاں وزرا اور وزیر اعظم تک ہر منصوبے میں حصہ مانگتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق میرپور کے رہائشی منصوبے جناح ٹائون میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی۔ چند ماہ قبل میرپور میں کلک اینڈکلک سیکنڈل سامنے آیا جس میں شہریوں کے پانچ ارب روپے ڈوب گئے۔ نیلم ویلی روڈ اور مظفر آباد کی تعمیر نو پر اربوں روپے کی کرپشن کی اطلاعات ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ان الزامات کی شفاف تحقیقات کرا کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہے۔
مالی کرپشن کو چھوڑیئے؛ 35 لاکھ آباد ی کے اس چھوٹے سے خطّے کو چلانے کے لیے‘ جس کا رقبہ ضلع کوہستان سے بھی کم ہے 26 وزیر‘ 74 مشیر اور 150 کے لگ بھگ کوآرڈی نیٹر اور ضلعی کوآرڈی نیٹر تعینات ہیں۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ نوے ہزار کے قریب سرکاری ملازمین ہیں۔ 55 ارب کے سالانہ بجٹ میں محض دس ارب پچاس کروڑ روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوتا ہے باقی سارا بجٹ غیرترقیاتی اخراجات کی مد میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسے لچھن ہوں تو ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟
آزاد کشمیر کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں فعال میڈیا ہے اور نہ سول سوسائٹی۔ اپوزیشن جماعت نون لیگ اور اس کے سربراہ راجہ فاروق حیدر خان ان مسائل پر صدائے احتجاج بلند کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت نے توجہ نہ دی۔ اب مظفر آباد میں راجہ فاروق حیدر خان اور دیگر سیاسی اور سماجی جماعتوں نے وزیر اعظم کو ان مسائل کی طرف متوجہ کیا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ خطّہ بھی ان کی توجہ چاہتا ہے؛ چنانچہ حکومت آزاد کشمیر کے اختیارات محدود کیے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد نے چودھری مجید کو انیس نکاتی ہدایت نامہ بھیجا کہ وہ تمام ترقیاتی منصوبے اور انتظامی معاملات چیف سیکرٹری کی مشاورت سے سرانجام دیں۔ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر مسلسل آزاد کشمیر کے دورہ کرتے ہیں۔
اچھا ہوتا کہ چودھری مجید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔ پیپلز پارٹی کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا‘ لیکن 'مال مفت دلِ بے رحم‘ والا معاملہ رہا۔ اب بدعنوانی روکنے کے نام پر انتظامی اختیارات کم کیے جا رہے ہیں جو خطرناک رجحان ہے۔ ایک بار وزارت امور کشمیر طاقت ور ہو گئی تو اس جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل ہو جائے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں