"IMC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف: باعزت واپسی

خیبر پختون خوا کے راستے نیٹو سپلائی معطل کر کے امریکہ نے تحریک انصاف کے لیے موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک اور دھرنے کا سلسلہ روک کر معمول کی سیاسی سرگرمیوں کی جانب لوٹ جائے۔ ڈرون حملے رکوانے کے لیے‘ عمران خان اور پی ٹی آئی کے بس میں جو تھا‘ انہوں نے کر لیا۔ خارجہ پالیسی نون لیگ کی وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ وہ ڈرون حملے رکواتی ہے تو فبہا‘ نہیں تو نتائج بھگتے گی۔ دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت اور خود تحریک انصاف کی اپنی سیاست کے لیے مناسب نہیں۔
سیاست میں جذبات نہیں حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ امریکہ کے خلاف ضرور ہیں‘ لیکن اتنے نہیں کہ وہ ہجوم کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئیں۔ وہ پہلے کے مقابلے میں پاکستان کے بارے میں امریکی رویے میں آنے والی حالیہ تبدیلی کا ادراک رکھتے ہیں اور ایک عالمی طاقت کے ساتھ تصادم کے نتائج افغانستان‘ عراق‘ لیبیا اور شام میں دیکھ چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ امریکہ خطے سے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہا ہے۔ جب قابض قوت خود واپسی کی راہ لے رہی ہو تو اس کا راستہ روکا نہیں جاتا‘ بلکہ واپسی کی راہیں کشادہ کی جاتیں ہیں۔ سہولت پہنچائی جاتی ہے تاکہ انخلا کا عمل تیزی سے اور بخوشی مکمل ہو۔
علاوہ ازیں لوگوں کو ڈرون حملوں سے اس قدر تکلیف نہیں ہو رہی جس قدر تحریک انصاف کا خیال ہے۔ خطرناک اور سینئر القاعدہ اور طالبان راہنمائوں کی ہلاکتوں نے ڈرون کے بارے میں عوامی جذبات ٹھنڈے کر دیے ہیں۔ علاوہ ازیں خود وفاقی حکومت کے جوشیلے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں ایک بھی عام شہری ڈرون حملوں میں نہیں مارا گیا۔ واللہ اعلم۔ ڈرون حملوں کی وکالت کا تصور بھی محال ہے لیکن قبائلی علاقہ جات بالخصوص جنوبی وزیرستان کے داخلی حالات پر نظر رکھنے والوں اور وہاں مستقل آباد شہریوں کا نقطہ نظر عمومی اور مقبول آرا سے کافی مختلف ہے جو زیر بحث آتا ہی نہیں۔
اسلام آباد میں زیر تعلیم بہت سارے طلبہ نے تبادلہ خیال کے دوران بتایا کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے ان علاقوں میں کوئی فعال سرکاری اسٹرکچر نہیں جو عوام کو تحفط دے یا ان کی داد رسی کر سکے۔ دفاعی اداروں کی نقل و حرکت محدود ہوتی ہے اور وہ عمومی طور پر اپنے کیمپوں سے باہر نہیں نکلتے۔ روزمرہ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور نہ ہی ہر وقت شہریوں کی اعانت کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس طالبان اور ان کے حامی دندناتے پھرتے ہیں۔ انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ ایک نوجوان نے کہا کہ طالبان پر ڈرون ہی کا خوف ہے جو انہیں پناہ گاہوں تک محدود رکھتا ہے‘ ورنہ وہ ہماری زندگیاں مزید اجیرن بنا دیتے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کا اجتماعی مسئلہ اس ذہنیت کو چیلنج کرنا ہے‘ جو اسلام کے عالمگیر پیغام امن اور بقائے باہمی کے اصولوں کے علی الرغم نظریاتی مخالفین یا سیاسی حریفوں سے زندگی کا حق چھیننے کے درپے ہے‘ جو جمہوری اقدار اور عوام کے حق حکمرانی کے بنیادی اصول کو تسلیم نہیں کرتی‘ جو طاقت کے بل بوتے پر اپنا سیاسی اور سماجی نقطہ نظر معاشرے پر مسلط کرنا چاہتی ہے‘ عصر حاضر کی غالب طاقتوں سے مسلمانوں کو ٹکرا کر پاش پاش کرانا چاہتی ہے‘ جو حکمت اور دانائی سے ناآشنا اور جذبات سے مغلوب ہے۔
تحریک انصاف کی اٹھان ایک اعتدال پسند اور قوم پرست جماعت کی رہی ہے۔ اسی وجہ سے معاشرے کے فعال طبقات اور بالخصوص نوجوانوں نے اس کی طرف رجوع کیا۔ ملک میں ایک سنٹر رائٹ جماعت کی گنجائش تھی اور اب بھی ہے لیکن تحریک انصاف بتدریج پشتون قدامت پرستوں اور قبائلی خیالات اور سوچ کے علمبرداروں کی جانب جھکتی جا رہی ہے۔ یہ طرز عمل اس جماعت کو غیر موثر بنا سکتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی سنٹر رائٹ جماعت کے طور پر اپنا امیج برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے لیے سیاست کا میدان مزید کھل جائے گا۔ انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکائو کی صورت میں شہروں میں آباد اپر کلاس اور متوسط طبقہ‘ جو تحریک انصاف کی ریڑھ کی ہڈی ہے‘ نہ صرف پارٹی سے لاتعلق ہو جائے گا بلکہ ایک بار پھر غیر متحرک بھی ہو سکتا ہے۔ 
پاکستان کی سیاست امکانات سے اٹی پڑی ہے۔ سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم بند گلی میں پھنس چکی ہے۔ شہر کی سیاست میں زبردست خلا پیدا ہو رہا ہے‘ جہاں متبادل سیاسی قوت موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی کو مہاجر قبول کرنے کو تیار نہیں اور وہ اب محض اندرون سندھ کی جماعت بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی حیرت انگیز تیزی سے سمٹی ہے۔ سیّد منور حسن‘ جماعت اسلامی کے گورباچوف ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے 73 برس پر محیط سیاسی اور مذہبی خدمات رکھنے والی جماعت کے مستقبل کو حکیم اللہ محسود‘ جس کے ہاتھ ہزاروں پاکستانی شہریوں کے خون سے رنگین ہیں‘ کے ساتھ دفن کر دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قربانیوں کو ایزی لوڈ لے ڈوبا۔ رہی سہی کسر پیران سالی کے باوجود بیگم نسیم ولی خان پوری کر رہی ہیں۔
نون لیگ کی قیادت پنجاب اور بالخصوص لاہور سے اوپر اٹھ کر سوچنے کو تیار نہیں۔ محض چھ ماہ کی قلیل مدت میںحکومت کا گراف گرنا شروع ہو چکا ہے۔ مہنگائی کے ڈرون حملے ہر روز نون لیگ کے سفینہ میں ایک نیا سوراخ کر دیتے ہیں۔ پتن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نامی ایک سول سوسائٹی تنظیم نے پنجاب میں جو سروے کیا ہے وہ حیران کن ہے۔ 4,339 مردوں اور عورتوں سے حکومتی کارکردگی کے بارے میں رائے پوچھی گئی تو93 فیصد نے مایوسی کا اظہار کیا۔ سروے کے مطابق شہریوں کی اکثریت محکمہ تعلیم‘ صحت‘ واپڈا اور پولیس سے نالاں ہے۔ 60 فیصد رائے دہندگان وزیر اعظم نواز شریف جب کہ52 فیصد وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ سندھ‘ آزاد کشمیر اور گلگت‘ بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم ہیں‘ جن کا کام پارٹی کے مرکزی راہنمائوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے سوا کچھ نہیں۔ ان تینوں خطوں میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ آخری موقع سمجھ کرکرپشن کی جا رہی ہے۔ بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو رہا ہے۔
تحریک انصاف کو اعتدال پسند اور پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت سمجھ کر شہریوں نے گزشتہ الیکشن میں زبردست پذیرائی بخشی اور یہ رومانس ابھی تک قائم ہے۔ اسے خیبر پختون خوا میں کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ قومی اسمبلی کے اندر اس کے ارکان کو حکومت کو چیلنج کرنا چاہیے۔ اچھے سوال پوچھیں۔ نقطہ اعتراض اٹھائیں۔ کمیٹیوں میں شریک ہوں۔ نظام کو بہتر کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ متبادل حکومت کی طرح سرگرم رہیں۔ ہو سکے تو شیڈو کابینہ بنائیں تاکہ ایسی متبادل سیاسی جماعت اور قیادت تیار ہو جس کے پاس اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے مالامال مردان کار بھی دستیاب ہوں اور ملک چلانے کا وژن بھی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں