"IMC" (space) message & send to 7575

نواز شریف سے بھارتیوں کی توقعات

وزیراعظم نوا زشریف کے بارے میں بھارت میں غیر معمولی نرم گوشہ پایاجاتاہے۔بھارت میں یہ تاثرعام ہے کہ نوازشریف نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور مدعو کرکے پاک بھارت تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہا اور اسی'' جرم‘‘ کی پاداش میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا،انہیں اٹک کے قلعہ میں قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔جلاوطنی کے دوران اوراس کے بعدبھی بھارت کے بار ے میں ان کے طرزفکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پرامن طور پرمسائل کے حل کی کوششوںاور حالیہ بیانات نے بھارت میں نواز شریف کے لیے خیر سگالی کے جذبات کو جنم دیا ہے۔بھارتی میڈیا میں نوا زشریف کے حوالے سے کم ہی منفی ذکر ملتاہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے حالیہ دورہ بھارت کو میڈیا میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی کیونکہ ملک الیکشن کے موڈ میں داخل ہوچکاہے ۔اگران کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی یا ایل کے ایڈوانی سے ملاقات ہوجاتی تو بھارت میں پاکستان مثبت طور پر زیر بحث آسکتاتھا؛ تاہم اس دورے کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی جانب سے پیغام دیاگیا کہ وہ تمام معاملات میں پیش رفت چاہتا ہے۔علاوہ ازیں شہباز شریف نے پنجاب ـ پنجاب دوستی کا ٹریک بھی بحال کردیاہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے مثبت جذبات کے باوصف بھارت میں پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے خدشات اور تحفظات میں نمایاں کمی نظر نہیں آتی۔پاکستان کے حوالے سے اشتعال انگیزی اور لاتعلقی ہر ملاقات میں ظاہر ہوتی ہے۔کابل میں لوگ کھل کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے بے زاری کا بے دھڑک ذکر کرتے ہیں۔اس کے برعکس دہلی میں لوگ پاکستان کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کا ذکر آئے تو وہ موضوع بدل دیتے ہیں۔روایتی طور پر پاک بھارت دوستی کے علمبرداروں میں بھی بہت مایوسی پائی جاتی ہے۔
سیاستدانوں سے تعلقات کی بہتری کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ عوام نہیں مانتے۔عوام سے بات کریں تو وہ نفرت کا اظہار نہیں کرتے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ یہ ایک مشکل منصوبہ ہے۔ایک بھارتی پارلیمنٹیرین نے کہا:بھارت کے طول وعرض میں پاکستان کے بارے میں غصہ پایاجاتاہے۔یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ دہلی میں لوگ پاکستان سے زیادہ نفرت کرتے ہیں یا کابل میں، لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان کے مشرق اور مغرب میں آباد ممالک اس سے یکساں بیزار ہیں۔
ممبئی حملوں اور ان میں ملوث افراد کے خلاف پاکستان میں جاری سست مقدمے نے تعلقات کی بحالی کے امکانات بری طرح محدود کردیے ہیں۔بھارت کی اسٹیبلشمنٹ ، سیاسی قیادت اور رائے عامہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو جلد از جلد سزادلواناچاہتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جب تک پاکستان میںزیرحراست ملزموں کو سزانہیں دی جاتی اس وقت تک پاک بھارت تعلقات کا معمول پر آنا دہلی کے طاقت ور حلقوں کو گوارا نہیں ۔
یہ بھی کہا جاتاہے کہ اگرچہ وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن فوج اور اس کے خفیہ ادارے انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے، لہٰذا وقت ضائع کرنے کا فائدہ نہیں۔بھارتیوں کو یہ امید تھی کہ کارگل اور مابعد کے دلخراش واقعات کے زیر اثر وزیراعظم نواز شریف اور دفاعی اداروں کے مابین کشیدگی پیداہوگئی لیکن جس خوش اسلوبی سے فوجی قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ طے پایا وہ دہلی میں اکثر لوگوں کے لیے باعث حیرت ہے ۔
یہ ایک تعجب خیز بات ہے کہ پاک بھارت تعلقات بالخصوص کشمیر کے حوالے سے لوگ 2003ء اور2007ء میں ہونے والی مفاہمت کو دونوں ممالک کے مابین پیشرفت کی بنیاد تصور کرتے ہیں۔اکثر محفلوں میں کہا جاتاہے کہ جو کچھ جنرل (ر) پرویز مشرف اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے مابین طے پایاتھا اسی کے اردگرد معاملات کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔یہ سوال تسلسل سے پوچھا جاتاہے کہ کیا پاکستان اس مفاہمت کو اب بھی اہمیت دیتاہے ؟کشمیر کے اندر بھی لوگ ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تعلقات کار کو پروان چڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔بھارت میں بہت سے ادارے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے منتخب نمائندوں کے درمیان میل جول کے مواقع پیدا کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔
بھارتیوں کو یہ احساس ہے کہ وہ اپنے طور پر یعنی پاکستان کو علیحدہ رکھ کر کشمیریوں کے ساتھ مفاہمت یا پائیدار امن قائم نہیں کرسکتے ، اس لیے کئی باخبر اور بااثر شخصیات کہتی ہیں کہ کشمیرکے دونوں حصوں کے لوگ اپنی کہانی خود کیوں نہیں بیان کرتے۔اگر دونوں حصوں کی لیڈرشپ اور سول سوسائٹی مشترکہ طور پر تخلیقی آئیڈیاز پیش کریں تو دہلی اور اسلام آباد کے نقطہ نظر میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ایک دلچسپ بات جو مسلسل سننے کو ملی وہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بتاتی ہے کہ پاکستان کشمیر کا حل نہیں چاہتا۔ جب بھی موقع آتاہے وہ کنی کتراجاتاہے۔سابق سیکرٹری خارجہ ایم کے رسگوترا نے1980ء کی دہائی کا ایک واقعہ سناکر سب کو حیران کردیا۔رسگوتراکہتے ہیں: اسّی کی دہائی کے شروع میں وزیراعظم اندراگاندھی نے مجھے صدر ضیا الحق کے پاس بھیجا کہ دونوں ممالک مل کر مسئلہ کشمیر حل کرلیں اور دوستی کا معاہدہ کرلیں۔ ضیا الحق سے بات شروع کی تو انہوں نے کہا کہ کشمیر تو آپ کے پاس ہے اور کچھ حصہ ہمارے پاس ۔اب کیا حل کرنا ہے؟بعد ازاں امریکی ارکان کانگریس نے مجھے خط لکھا کہ پاکستان کو اپنے کام سے کام رکھنے دیں۔
پاکستان کی داخلی سیاسی کشمکش بھی بھارتیوں کو تذبذب کا شکار کرتی ہے اور وہ اسے ایک بہانے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کچھ لوگوں نے بتایا کہ عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ بھارت میں یہ تاثر دیا کہ پاکستان میں جلد ہی وسط مدتی انتخابات ہوجائیں گے، لہٰذا پاک بھارت ایشوز پر پیش رفت کے لیے عجلت کی ضرورت نہیں۔2007ء میں پرویز مشرف بھارت کے ساتھ مفاہمت کے بہت قریب تھے، اس وقت نوازشریف نے انڈین ایکسپریس کو انٹرویودیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ غیر منتخب حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کیاجائے۔لگ بھگ ایسا ہی پیغام محترمہ بے نظیربھٹو نے بھی بھارت کو دیاتھا۔ایسی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ایک صفحے پر لاکر بھارت کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کرنی چاہیے۔
بھارت ایک مشکل ہمسایہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے سامنے ڈٹنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کی خود اعتمادی یا انا کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کے ساتھ ایک سفارتی تنازع پر نہ صرف خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا بلکہ بہت کچھ دائو پرلگادیا۔بھارت کی خودمختاری یا علاقائی سا لمیت پر حرف آتاہو تو پاکستان کے برعکس سیاسی رنجشیںفراموش کرکے پوری قوم اور لیڈرشپ یک جان ہوجاتی ہے۔حالیہ معاشی ترقی ،پاکستان کی عالمی سطح پر کمزور پوزیشن اور داخلی خلفشار نے بھارت کی نخوت میں کئی گنااضافہ کردیاہے۔
اکثر کہاجاتا ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ صرف نبھا کرنا ہے بلکہ اس کے ساتھ تنازعات کو آبرومندانہ طریقے طے حل کرنا ہے تاکہ اگلی نسلیں امن اور سکون کے ساتھ اس خطے میں رہ سکیں۔ بھارت کو انگیج کرنے کے لیے پاکستان پہل قدمی کرچکاہے۔وزیراعظم نوازشریف نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ کمزوری کی نہیں بلکہ دوراندیشی کی دلالت کرتاہے۔پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کن آئیڈیاز پر کام کیا جاسکتاہے، اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں