پاکستان میں بھارت کو انگیج کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر وسیع البنیاد اتفاق رائے پایاجاتاہے۔دوسری طرف بھارت میں بھی کوئی ایک بھی حلقہ ایسا نہیں جو اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتاہو۔سیاست کار اور رائے عامہ پاکستان کو ایک حقیقت سمجھ کر قبول کرچکے ہیں اور تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ دونوں ممالک کے شہری جغرافیائی قربت اور تاریخی رشتوں کے باوصف ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملنے والی معلومات کا ماخذ سرکاری ادارے ،سابق سفارت کار اور ریٹائرڈ دفاعی ماہرین ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ایک دوسرے سے متحارب رہے اور اب امن کی فاختہ بن کر خطے میں امن کا درس دیتے ہیں۔
بھارت کے پاکستان کے بارے میںموجودہ رویہ کی تفہیم ضروری ہے تاکہ صحیح حکمت عملی مرتب کی جاسکے اور پھر طویل عرصہ تک اسی پر کاربند رہاجاسکے۔آسڑیلین نیشنل یونیورسٹی نے اس سال ایک سروے جاری کیا جس کے مطابق 78فیصد شہری پاکستان کو بھارت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے یہ رائے راتوں رات نہیں بنی بلکہ اس کا طویل پس منظر ہے۔ کارگل کی جنگ کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے پاکستان دشمنی اور نفرت کے جذبات کو بھارت کے طول وعرض تک پھیلایا۔ ممبئی حملوں میں اجمل قصاب کے زندہ پکڑے جانے نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ نئی نسل اور اُبھرتے ہوئے متوسط طبقہ میں پاکستان مخالف جذبات سرایت کر چکے ہیں ،جن کا اظہار الیکٹرانک میڈیا پہ ہونے والے مباحثوں سے ہوتاہے۔دہلی میں ایک صاحب نے خوب تبصرہ کیا: شکر کرو پاکستانی بھارتی چینلز نہیں دیکھتے ورنہ دشمنی کی فضا مزید گہری ہوجاتی۔
پاکستان مخالف فضا تحلیل کرنے کے لیے اسلام آباد کو تخلیقی سفارت کاری کا مظاہرہ کرناہوگا۔حال ہی میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیرنے ہائی کمیشن کے دروازے بھارتی شہریوں کے لیے کھول کر اس سمت ایک قدم اٹھایا تھا ۔ میوزک ، قوالی کے علاوہ ہائی کمیشن میں متعدد تقریبات منعقدکرائیں ۔ ایک عرصے بعد ہائی کمیشن نے متحرک کردار ادا کرنا شروع کیا تھا کہ سلمان بشیر کی جگہ نئے ہائی کمشنر عبدالباسط کا تقرر کردیاگیا۔ سلمان بشیر بڑ ی محنت سے بھارت میں پاکستان کی لابی بنارہے تھے ۔ امید ہے کہ عبدالباسط بھی اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
چھ عشرے گزرنے کے باوجود پاکستان بھارت کے اندر اپنی موثر لابی بنانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔ بعض ریٹائرڈ سفارت کار یا صحافی پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن وہ زیادہ موثر نہیں ۔ بھارتی مسلمان دانشور، علماء اور بالخصوص دارالعلوم دیوبند پاکستان کے بارے کلمہ خیر کہنے کے بجائے ہمیشہ نکتہ چینی کرتاہے۔اکثر تو اسٹیبلشمنٹ کی خوشنود ی کے لیے سخت گیر موقف اپنالیتے ہیں۔
پاکستان کو اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ سول سوسائٹی، علاقائی میڈیا،انسانی حقوق کے علمبرداروں اور Mid-Career دانشوروں اور سیاستدانوں کے ساتھ رابطے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں میں سے کئی سیاستدان، دانشور، بالخصوص علاقائی سیاسی جماعتیں اور این جی اوزسامنے آئی ہیں جو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی حامی اور کشمیر کا پُرامن حل چاہتی ہیں۔مثال کے طور پربہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کے بارے میں کچھ باخبر لوگوں نے بتایا کہ وہ اکثر اپنے دورۂ پاکستان کا ذکر کرتے ہیںکہ کس طرح انہوں نے پاکستانیوں کو بہار میں اچھی حکومت کی فراہمی کے تجربات سے آگاہ کیا۔ریاست بہار کے باغ وبہار سیاستدان لالوپرشاد کچھ برس پہلے پاکستان آئے ۔واپسی پر دھند کی بدولت موٹروے سے واہگہ تک سفر کیا۔ انہوں نے موٹر وے کو بھارت کی شاہراہوں سے بڑھیا سڑک قراردے کر لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔
حکومت ردعمل میں بھارتی صحافیوں اور دانشوروں کو ویزا نہ دینے یا پاکستان آنے کے خواہش مند افراد کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ بھارتی صحافیوں اور دانشوروں میں پاکستانیوں سے رابطہ بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اعتدال پسند صحافیوں اور شہریوں کی پاکستان آمد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کا منفی تاثر تبدیل ہو سکے۔
پاکستان نے بھارت میں رائے عامہ بالخصوص دلت، عیسائی، سکھ اور کمیونسٹوں میں حلقہ اثر بنانے پر بھرپور توجہ نہیں کی۔ اسی طرح صنعتکاروں اور تاجروں کا مفادامن سے وابستہ ہے۔آج کے بھارت میں اس طبقہ کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ مؤثر رابطے قائم کیے جانے چاہئیں ۔ علاقائی جماعتوں کا کردار تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ان جماعتوں کے سیاسی اثرات کا اندازہ اس مثال سے لگایا جاسکتاہے کہ تامل نائیڈو کی ریاستی حکومت اور رائے عامہ نے بھارت کی مرکزی کو مجبور کیا کہ وہ سری لنکا کے خلاف سخت موقف اختیار کرے اور اسے تاملوں کے فوجی آپریشن کے باعث دنیا میں تنہا کرے۔ ان علاقائی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ رابطہ رکھا جاناچاہیے۔
دونوں ممالک کی سیاسی جماعتوں کے مابین رابطوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔چند برس پہلے چودھری شجاعت حسین اور سید مشاہد حسین ایک وفد کے ہمراہ بھارت گئے تھے۔ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا۔مزار قائدپر حاضری دی اور قائد اعظم محمد علی جناح کو عظیم راہنما قراردیا،جس پر بھارت میں بڑی لے دے ہوئی۔ایک صحافی نے بتایا کہ جب یہ بیان نشر ہوا تو بی جے پی کے رہنما ارون جیٹلی نے ایڈوانی سے فون پر پوچھا: ایڈوانی جی کیا کراچی سے اگلا الیکشن لڑنے کا ارادہ ہے؟
عمرعبداللہ نے ،جو آج کل کشمیر کے وزیراعلیٰ ہیں،چند برس قبل ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے۔واپسی پر چندی گڑھ ٹریبیون میں اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں : پی آئی اے پر سوار ہوا تو بار بار یہ خیال ستاتاکہ پاکستان میں لوگ مجھے قبول نہیں کریں گے۔میرے دادا شیخ محمد عبداللہ نے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی ۔پتہ نہیں پاکستان والے کیا سلوک کریں گے؟ پاکستان میں انہیں توجہ کے ساتھ سنا گیا ۔عمرعبداللہ سے لاکھ اختلاف سہی وہ اپنے والد فاروق عبداللہ کے برعکس اپنا سیاسی وزن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل میں ڈالتے ہیں ۔یہ تک بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق حتمی نہیں تھا۔
کسی ملک سے دشمنی ہویا دوستی اسے جاننے کے لیے سکالروں اور دانشوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔امریکہ ہی کی مثال لے لیں وہاں سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین کے بارے میں زبردست کام ہورہاتھا۔اب امریکہ کی ہر بڑی یونیورسٹی میں انڈیا سنٹر قائم ہے۔پاکستان کی جامعات اور تحقیقی اداروں میں ''انڈیا سٹڈیز‘‘ کے شعبہ جات قائم کیے جائیں تاکہ بھارت کے معاشرے، حکومت اور مختلف پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے ،متبادل نقطہ نظراورپالیسی سازاداروں کو رہنمائی اور مشاورت فراہم کرنے والے افراد کی معقول تعداد دستیاب ہو سکے۔پاکستانی سکالروں کے بھارتی ہم عصروںکے ساتھ رابطوں میں پائی جانے والی غیر ضروری رکاوٹوں کو رفع کیا جائے۔نام نہاد بھارتی امور کے ماہرین کے بجائے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے افراد کی ہمت افزائی کی جائے تاکہ وہ بھارت جائیں، وہاں قیام کریں اور اعلیٰ پائے کی کتابیں لکھیں۔
پاکستان کو ردعمل کی روایتی نفسیات سے اوپراٹھنا ہوگاتاکہ وہ خطے میں قائدانہ کردار ادا کرسکے۔ اپنے منفرد محل وقوع اور قدرتی صلاحیتوں کے اعتبار سے پاکستان دبئی یا سنگاپور سے کم نہیں۔یہ علاقائی تجارت اور نیٹ ورک کا محور بن سکتاہے ۔ خطے کے ممالک کے ساتھ دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات استوار کرنے ہوں گے ۔تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کے پیچیدہ اور طویل المیعاد عمل کو دل سے قبول کرنا ہوگا کیونکہ مذاکرات کا کوئی متبادل دستیاب نہیں۔