"IMC" (space) message & send to 7575

فادر آف دی طالبان

نوے کی دہائی میں مولانا سمیع الحق کو مغربی میڈیا میں ہی نہیں بلکہ طالبان کے حلقوں میں بھی فادر آف دی طالبان کہاجاتاتھا۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نوا زشریف نے مولانا سمیع الحق سے درخواست کی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کی مدد کریں۔قبل ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی مولانا سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرانے میں تعاون کی استدعا کی تھی۔ 
مولانا سمیع الحق1988ء سے دارلعلوم اکوڑہ خٹک حقانیہ کے سربراہ ہیں۔ ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک کے علیل سربراہ جلال الدین حقانی اسی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں۔کچھ برس پہلے ان کے ساتھ ملاقات میں استفسار کیا کہ ملا عمر کیسے طالب علم تھے؟بے تکلفی سے جواب دیا کہ بھائی وہ بھی ہزاروں دوسرے طالب علموں کی طرح کے ایک طالب علم تھے۔ان میں کچھ خاص نہ تھا کہ مدرسہ کی شناخت بن پاتے ۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ ملاعمر کی قسمت چمک اٹھی۔طالبان کی حکومت کے دوران مرکزی وزراء کے علاوہ متعدد صوبوں کے گورنروں کا تعلق دارالعلوم حقانیہ سے تھا۔ 
افغان جہاد کے زمانے میں مولانا،جنرل ضیا الحق کے ہم رکاب ہوگئے۔مولانا فضل الرحمن ،نواب زادہ نصراللہ خان اور پیپلزپارٹی کی معیت میں جمہوریت کا علم اٹھائے تھے۔ضیا الحق سے قربت نے ان کے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جمعیت سے فاصلہ پیدا کیے۔وہ جنرل ضیا کی مہربانی سے سینیٹر تو بن گئے لیکن ان کے راستے مولانا فضل الرحمن سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔2002ء کے انتخابات میںمتحدہ مجلس عمل کو کامیابی ملی تو مولانا سمیع الحق کو قاضی حسین احمد کی فیاضی اور مولانا شاہ احمد نورانی کی وسعت قلبی نے ایک بار پھر سینیٹ کا رکن بنوادیا۔ وہ سینیٹ اور اس کے باہر طالبان کے مقدمہ کی وکالت کرتے رہے۔گزشتہ تیرہ برس سے وہ محض امریکہ مخالف سرگرمیوں کی قیادت کرتے ہیں۔ان دنوںدفاع پاکستان کونسل کے سربراہ ہیں۔جس میں جماعت اسلامی کے علاوہ ،حافظ محمد سعید اور جنرل (ر) حمید گل بھی شامل ہیں۔
2005ء میں مولانا کوبرسلز ایئر پورٹ پر امیگریشن حکام نے روک لیا۔بڑی مشکل سے پاکستانی سفارت خانے کی کوششوں سے رہائی ملی۔نائن الیون کے بعد انہوں نے اپنے مدرسے کے طلبہ کو جہاد میں شریک ہونے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ2003ء میں دارالعلوم سے فارغ ہونے والے چھ سوطلبہ سے کانووکیشن میں حلف لیا کہ وہ افغانستان کے جہاد میں حصہ لیں گے۔
وزیراعظم کی سطح پر جب بھی کوئی پہل قدمی کی جاتی ہے تو اس کے پس منظر میں بہت سا ہوم ورک کارفرما ہوتاہے۔کئی ایک ماہرین اور اداروں کی آراء لی جاتی ہیں،اس کے بعد وزیراعظم کسی منصوبہ کا حصہ بنتے ہیں۔امید ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم کے پیش نظر افغانستان میں ثالثی کے نام پر ہونے والے بڑے ڈرا مے بھی ہوںگئے ۔کئی وار لارڈ زنے امریکہ کو دھوکہ دیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک یا ملا عمر کے ساتھ ان کے مذاکرات کراسکتے ہیں۔حتیٰ کہ کچھ چالاک لوگ بیرون ملک جاکر طالبان کے نمائندے بن کر امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کا سورنگ رچاتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ محض روپیہ بٹور رہے تھے۔سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی شہادت بھی اسی طرح کے ایک ثالث کے ہاتھوں ہوئی۔یہ شخص ربانی کو باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ طالبان کا نمائندہ ہے اور ملاعمر کے ساتھ ان کا رابطہ کراسکتاہے ۔بعد میں اسی نے ربانی کو خودکش حملے میں شہیدکردیا۔پاکستان میں بھی تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرانے اور حکومت کی مدد کرنے کے کئی ایک علمبردار سامنے آئے لیکن یہ سلسلہ شروع نہ ہوسکا۔
یقینا حکومت نے مولانا کو ثالث بنانے سے پہلے یہ اطمینان کرلیا ہوگاکہ وہ خود پاکستان کے آئین اور جغرافیائی حدود کے جدید تصورات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کے پاس طالبان کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ علاوہ ازیں جنوبی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں سرگرم مسلح گروہ ان کی ثالثی کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے بارے میں سوفیصد درست معلومات دستیاب نہیں ۔آزاد ذرائع کو معلومات تک براہ راست رسائی نہیں۔ پاکستانی میڈیا ایسے نمائندوںپر خرچ کرنے پر تیار نہیں جو خبر اور تجزیہ فراہم کرسکتے ہیں۔بسااوقات ایسا لگتاہے کہ میڈیا کا پاکستان صرف کراچی ، لاہور اور اسلام آباد ہے۔اس کے باوجود کچھ اخبار نویس خطرہ مول کر ان علاقوں میں سرگرم گروہوں اور فعال افراد کے ساتھ روابط استوار کیے ہوئے ہیں جو معلومات اور تجزیے کا واحد ذریعہ ہیں۔پشاور میں مقیم سینئر صحافی اسماعیل خان نے گزشتہ دنوںایک انگریزی روزنامہ میں بڑاچشم کشا تجزیہ لکھا۔ سرکاری ذرائع نے انہیں بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت 43شدت پسند گروہ سرگرم ہیں۔ان کے علاوہ وہاں القاعدہ سمیت بارہ غیر ملکی تنظیمیں بھی فعال ہیں۔ان تمام گروہوں کے پاس لگ بھگ گیارہ ہزار مسلح اور تربیت یافتہ لڑاکے ہیں۔اسماعیل خان کے مطابق فورسز اور سول انتظامیہ میران شاہ میں قلعہ بند ہے۔وہ حسب ضرورت ہی باہر نکلتے ہیں۔زبردست حفاظتی حصار کے باوجود فوج کے کاروان پر حملے ہوتے ہیں۔ راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی جاتی ہیں۔بسااوقات براہ راست حملے بھی کیے جاتے ہیں۔یہاں حکومتی رٹ نام کی کسی شئے کا وجود نہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مولانا سمیع الحق شدت پسند گروہوں سے مذاکرات میں کیا سودا بازی کر سکتے ہیں؟ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ کیامولانا ان گروہوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرسکتے ہیں اور کیا حکومت طالبان کو مولانا کی فرمائش پر رعایتیں دے سکتی ہے؟ابھی تک تو طالبان کا مطالبہ رہاہے کہ فوج ان علاقوں سے نکل جائے ۔باالفاظ دیگر جنوبی وزیرستان کو جنگجووں کے حوالے کردیاجائے تاکہ وہ وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرسکیں۔
غالب امکان ہے کہ مولانا کی کوشش ہوگی کہ وہ حکومت کو پسپائی پر آمادہ کریں۔شدت پسندوں کے لیے مزید سہولتیں حاصل کریں تاکہ وہ بے خوف وخطر ان علاقوں پر راج کرتے رہیں۔ باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ جنوبی وزیرستان میں سرگرم گروہوں پر مولانا سمیع الحق کا اثر ورسوخ نہ ہونے کے برابرہے۔ ان کے مدرسے کے طلبہ یا تو اس جنگ میں مارے جاچکے ہیں یا پھر زیر زمین چلے گئے۔کچھ پاکستان اور اکثر خلیجی ریاستوں میں کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ طالبان کے ساتھ ثالثی یا مذاکرات کے حالیہ ناکام تجربات بھی پیش نظر رکھے جانے ضروری ہیں۔ حکیم اللہ محسود جو پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے والا تھا ، ایک ڈرون حملے میں لقمہ اجل بن گیاکیونکہ خطے میں موجود امریکی اور دوسری طاقتوں کو پاکستان اور تحریک طالبان کے مابین ہونے والی مفاہمت قبول نہیں ۔وہ ایسی مفاہمت چاہتے ہیں جس میں افغانستان میں جاری عسکریت کا خاتمہ بھی شامل ہو ۔دوسری صور ت میں مفاہمت کی ہر کوشش کو آسانی سے سبوتاژ کردیا جاتاہے۔ ٹی ٹی پی سے مفاہمت کی کاوشیں اگرکسی بڑے علاقائی پیکیج کا حصہ نہیں بنتیں تو مولانا کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں