اقتدار کاخاتمہ ہوا چاہتاہے ۔ اس کے باوجود بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے عزم ظاہر کیاہے کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔پاکستان کے ساتھ من موہن سنگھ کا رشتہ بہت گہرا اورآٹھ عشروں پہ محیط ہے۔ ان کا بچپن چکوال کی سرسوںکی خوشبو اور چاہتوں میں گندھا ہواہے۔اس زمانے کے کچھ دوست اب بھی حیات ہیں ۔جن کے مرجھائے ہوئے چہرے من موہن سنگھ کے ذکر پر کھل اٹھتے ہیں۔آنکھوں میں عجیب چمک آجاتی ہے۔ وزیراعظم بننے کے باوجود من موہن سنگھ نے اپنے گائوں کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کے ساتھ تعلق بھی استوار کیا۔گاہے یہ خیال آتاہے کہ اس خطے کی مٹی میں ایسی کوئی کشش ضرور ہے جولوگ کوعشروں بعد بھی اپنے اصل کی جانب پلٹنے پر مجبور کرتی ہے۔
گزشتہ ماہ شہباز شریف بھارت تشریف لے گئے تو جاتی امراء کی یاتر ا بھی کی۔شریف خاندان کے بزرگ اسی گائوںمیںپیوندِ خاک ہیں۔ عقیدت سے خاک کوہاتھوں میں اٹھایا اور آنکھوں کو لگایا۔ محروم والد میاں محمد شریف یاد آئے تو آنسو چھلک پڑے،جنہوں نے آخری عمر میں اپنے پُرکھوں کی یاد میں لاہور کے نواح میں جاتی امرا کے نام سے ایک بستی آباد کی تھی،جسے رائیونڈکہاجاتاہے۔ کچھ عرصہ پہلے چکوال کے نواح میں واقع من موہن سنگھ کے آبائی گائوں گاہ میں ایک دن گزارنے کا موقع ملا‘ جو میرے یادگار سفروں میں سے ایک بن گیا۔ اسلام آباد سے سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ گائوںمن موہن سنگھ کے پہلی بار وزیراعظم بننے پر اچانک عالمی توجہ کا مرکز بنا ۔دوہزار نفوس پر مشتمل گائوں کے لوگوں نے من موہن کے وزیراعظم بننے کی خبر سنی تو خوشی سے جھُوم اٹھے۔ مٹھائی تقسیم ہوئی اور دیہاتی مائیوں نے پیار سے کہا:ساڈا منڈا وزیراعظم بن گیا۔
لاکھوں دوسرے خاندانوں کی طرح تقسیمِ ہند کے ہنگام من موہن سنگھ کو بھی نو عمری میں نقل مکانی کے مصائب برداشت کرنا پڑے۔دوستوں سے ایسے بچھڑے کہ عشروں تک ایک دوسرے کی کوئی خیر خبر نہ ملی ۔ من موہن بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو حیرت انگیز طور پر گائوں والوں نے ان کے ساتھ براہ راست رابطہ استوار کرلیا ۔علاقے کے نائب ناظم عاشق حسین کو ایک وفد کے ہمراہ بھارت کے پنچائتی نظام کے مطالعے کی غرض سے دہلی جانے کا موقع ملا۔انہوں نے دہلی پریس کلب میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ من موہن سنگھ کے گائوں سے آئے ہیں اور ان کے لیے بزرگوں کے کچھ تحائف لائے ہیں۔اخبار ات میں خبر چھپی تو وزیراعظم ہائوس سے انہیں ملاقات کا سندیسہ آگیا۔ گاہ والوں کی جانب سے روایتی کھسہ اور چادر پیش کی گئی۔ اظہارِ عقیدت کے اس غیر متوقع مظاہرے نے انہیں بے حد جذباتی کیا ۔ تادیر گاہ میں بیتے شب و روز کو یاد کرتے رہے۔وزیراعظم نے گاہ میں اپنے دوست راجہ علی محمد کو نستعلیق اردو میں شکریے کا خط لکھا اور انہیں بھارت آنے کی دعوت دی۔علی محمد دہلی تشریف لے گئے جہاں وہ وزیراعظم کے سرکاری مہمان تھے ۔دونوں دوستوں نے بچپن کی بھولی بسری یادوں کو تازہ کیا۔وزیراعظم کی بیگم اور اسٹاف نے ان تاریخی لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلیا۔گائوں والے یہ تصویریں دیکھتے تو علی محمد کی قسمت پرنازکرتے۔
من موہن سنگھ کی ایک ہم جماعت بخت بانو انتقال کرگئی تو انہوں نے راجہ عاشق حسین کو خط لکھا کہ وہ ان کی طرف سے بخت بانوکے صاحبزادے سے اظہارِ تعزیت کریں۔اس خط نے گاہ والوں کو حیرت زدہ کردیا۔ مشہور ہوگیا کہ من موہن سنگھ دورۂ پاکستان کے دوران گاہ بھی تشریف لائیں گے۔ انہی دنوں پرویز مشرف پرانی دہلی میں اپنی حویلی دیکھنے گئے تھے۔
من موہن سنگھ کے دوست جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی The Energy and Resources Institute of India (TERI) میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں‘ گاہ تشریف لائے اوربتایا کہ وزیراعظم سفارتی نزاکتوں کے باعث براہ راست اپنے گائوں کی سیوا کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کی مشاورت سے گائوں کی فلاح وبہود کا کوئی منصوبہ شروع کروں۔چنانچہ اس کمپنی نے گائوں میں سولرانرجی پر چلنے والی اسٹریٹ لائٹس نصب کیں۔مسجد کو سولر گیزر فراہم کیاگیا اور گاہ کے ستر مکانوں کو سولر بجلی مہیا گی گئی۔
اس وقت پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے بھی گاہ میں عوامی بہبود کے کئی ایک منصوبے شروع کیے۔ 20فٹ چوڑی سڑک بنائی گئی۔ جس سکول میں من موہن سنگھ زیرتعلیم رہے اس کی ازسر نو تزئین وآرائش کی گئی۔ گلیاں پختہ کردی گئیں۔ہائی سکول اور کمیونٹی سنٹر کی عمارتیں تعمیر ہوئیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاہ کی قسمت بدلنا شروع ہوگئی۔پڑوسی گائوں والے رشک اور حسد کے ملے جلے جذبات سے گاہ کی طرف دیکھتے ہیں۔
گائوں میں من موہن سنگھ کے صرف ایک ہم جماعت حیات ہیں جن کی یادداشت دن بدن کمزو رہوتی جارہی ہے۔ 80سالہ غلام محمد ایک دلچسپ بزرگ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ گائوں میں لوگ من موہن سنگھ کو موہنا کے نام سے پکارتے تھے۔وہ کتابی سا بچہ تھا ۔ چوتھی جماعت میں مانیٹر بن گیا تھا۔میں علی محمد کے ہمراہ دوایک مرتبہ اس کے گھر گیا۔ ماں جی بڑے پیار سے پیش آئی۔ ان کے ابا کو کم ہی دیکھا کیونکہ وہ گاہ سے باہر کئی کاروبار کرتے تھے۔
گاہ کے ادھیڑ عمر لوگ ہی نہیں بلکہ نوجوان بھی من موہن سنگھ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔من موہن سنگھ سے پیار کا مطلب آج کے زمینی حقائق کو جھٹلانانہیں بلکہ ٹوٹے رشتوں کو نئے معنی پہنانا ہے۔اگر من موہن سنگھ گاہ آتے ہیں تو تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی بزرگوںکی نسل کو سکون ملے گا۔ممکن ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک بزرگ شہریوں کے لیے آزادی سے سرحد آرپار آمد ورفت کی سہولتوں کا بھی اعلان کردیں۔
گزشتہ کئی برس سے من موہن سنگھ پاکستان آنے کا پروگرام بناتے رہے لیکن ان کی شرط یا خواہش ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی آنی چاہیے۔یہ ایک آئیڈیل خواہش ہے لیکن کبھی کبھی علامتی سفارت کاری بھی معجز ے برپا کردیتی ہے۔روایتی سفارت کاری سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔من موہن سنگھ کو ضرور پاکستان آنا چاہیے۔ انہیں اپنے گاہ جانا ہے جہاں لوگ ان کے منتظر ہیں۔