سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل چھ برس بعد پاکستان تشریف لائے۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میںپاکستان اورسعودی عرب کے تعلقات میں روایتی گرم جوشی سست پڑگئی تھی۔صدر زرداری کا جھکائو خلیجی ریاستوں اور ہمسایہ ممالک کی جانب زیادہ تھا؛چنانچہ پاک سعودی تعلقات میں کافی سردمہری رہی۔اب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ہے جو سعودی عرب میں جلاوطن رہے اور حکمران خاندان سے دوستانہ مراسم رکھتے ہیں ، لہٰذاتوقع ہے کہ بتدریج پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں گہرائی اور گیرائی آئے گی۔
سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے معاملات میں گہری دلچسپی لی ہے۔مشکل کی ہرگھڑی میں مالی اور سفارتی تعاون فراہم کیا۔بسااوقات داخلی سیاسی تنازعات کو سلجھانے میں بھی شامل رہا، یہ سلسلہ 1977ء سے چل رہاہے جب پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب تھے۔انہوں نے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مابین مذاکرات کی راہ ہموارکی۔پاکستان قومی اتحاد(پی این اے)کی جانب سے حکومت پر عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا جارہا تھا اور بھٹو مخالف احتجاجی تحریک چلارہا تھا۔ بعدازاں سعودی عرب نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جاری جہاد میں بھی سرگرم حصہ لیا۔اس زمانے میں پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان تزویراتی تعلقات میں گہرائی آئی اور اعتماد کا رشتہ قائم ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتاگیا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پہلی بار عالمی نظام میں سعودی عرب تنہائی کا شکار ہواہے بالخصوص شام کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے فوجی ایکشن نہ کرنے پر سعودی عرب خوش نہیں ہے۔ وہ چاہتاتھا کہ عالمی طاقتیں شام پر حملہ کریںلیکن ایسا نہ ہوسکا۔سعودی سفارت کاری کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب ایران اور مغربی ممالک کے مابین ایران کے ایٹمی پروگرام پر مفاہمت کا سلسلہ کامیاب ہونا شروع ہوگیا۔سعودی عرب نہیں چاہتا کہ اس خطے میں کسی ملک کے پاس جوہری ہتھیار ہوں ۔اسے یہ علم ہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں بہتری سے خطے کی سیاست کی جہت ہی بدل جائے گی۔ پاکستان کی اسٹریٹجک حیثیت کو شدید دھچکا لگنے کابھی خدشہ ہے۔سعودی عرب کے مقابلے میں ایرانی تیل مارکیٹ میں آنے سے اس کی اقتصادی حیثیت متاثر ہوگی۔علاوہ ازیںمغربی ممالک کو توقع ہے کہ ایران کے عالمی دھارے میں ازسر نو شمولیت سے مسلم دنیا میں غیر متشدد عناصر کو تقویت مل سکتی ہے۔
اس خطے میں ترکی بھی عالم اسلام کے ایک لیڈر کے طور پر تیزی سے ابھر رہاہے ۔ وہ مسلم دنیا کے جمہوریت نوازوں ،معتدل اسلام پسندوں اور مغربی دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتاہے۔فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور اسرائیل کی زیادیتوں کی مذمت نے اسے عرب ممالک اور رائے عامہ میں بے پناہ مقبولیت عطا کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی نے مصر میں فوجی جنرلوں کے اقتدار پر قبضے کی مذمت کی ، صد محمد مرسی کی معزولی کو ناقابل قبول قراردیا جو ووٹ کی پرچی کے ذریعے منتخب ہوئے۔ جنرلوں کی بے چینی اور لبرل سیاستدانوں کی بے صبری کی بدولت فوجی جنتا کے ہاتھوں قصر صدارت کے بجائے قفس میں ہیں۔افسوسنا ک امر یہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کی ہمنوائی کے بجائے فوجی آمریت کی نہ صرف ہمنوائی کی بلکہ اس کی پشت پناہی کرکے مسلم دنیا میں جاری جمہوری عمل کو زبردست دھچکا لگایا۔اس دوغلے طرز عمل نے مسلم دنیا میں مغرب کی جمہوریت پرستی کی قلعی کھول دی۔
ترکی نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ وزیراعظم طیب اردوان کی اہلیہ محترمہ اور وزیرخارجہ ریلیف
لے کر دارالحکومت رنگون گئے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لیڈر عبدالقادرملا کو ایک متنازع مقدمہ میں پھانسی دی گئی تو یہ صرف ترکی ہی تھا جس نے انہیں بچانے کی کوشش کی۔ ان اقدامات نے ترکی کو مسلم دنیا میں ایک منفرد مقام دلوایا اور وہ بتدریخ خلافت عثمانیہ کی بحالی کی جانب بڑھتا ہوا نظرآنے لگا۔ مسلم رائے عامہ میں ترکی کو زبردست قبولیت حاصل ہورہی ہے ، حتیٰ کہ ترکی کے ڈرامے نہ صرف اردو بلکہ کئی دوسری زبانوں میں ترجمہ کر کے دکھائے جاتے ہیں۔ ترک کلچر اور ثقافت گھر گھر پہنچ چکی ہے۔ اس طرح ترکی دنیا میں اپنا سافٹ امیج پیدا کرنے میںکامیاب ہوتاجارہاہے۔
مشرق وسطیٰ کے اندر بھی سعودی عرب کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔قطر خطے میں امریکہ کا کلیدی حلیف بن کر سامنا آیا ہے۔اس کی سمندری حدود میں امریکہ کا بحری بیڑا موجودہے جس میں 3500کے لگ بھگ امریکی فوجی تعینات ہیں۔ قطراور سعودی عرب کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں ، قطری حکمران سعودی عرب کی خلیجی ریاستوں کے معاملات میں ویٹو قبول نہیں کرتے بلکہ وہ قطر کو ایک متبادل قیادت کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔قطر میں جہاں الجزیرہ جیسا بے باک ٹیلی وژن اسٹیشن قائم
ہے جسے عرب دنیا کے ہر گھر میں شوق سے دیکھاجاتاہے ، وہاں تیزی سے جدید امریکی تعلیمی ادارے قائم ہورہے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ قطر بھی امریکہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتاہے ۔اس کے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔
سعودی عرب عالم اسلام میں قائدانہ کردار چاہتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات اسے علاقائی سیاست اور عالمی نظام میں موثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ لیکن یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ ایک کمزور اور متحارب پاکستان خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہے ، وہ سعودی عر ب کی کیا مدد کرسکتاہے ، اس لیے سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو شدت پسندی کے مسائل سے باہر نکالنے میں مدد کرے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب سمیت تمام حلیفوں کے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ پاکستانی رائے عامہ داخلی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے غیرمعمولی طور پر حساس ہوچکی ہے ، وہ بیرونی مداخلت گوارا نہیں کرتی۔اچھا ہوا کہ سعود الفیصل نے خود ہی کہہ دیا کہ پرویز مشرف کا مسئلہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے ورنہ ایک طوفان اٹھتااور لوگوں کو سعودی عرب پر نکتہ چینی کرنے کا موقع ملتا۔پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ملک کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لیے شب وروز ایک کردیں۔کب تک مہنگے غیر ملکی سوٹ زیب تن کیے وہ ہاتھوں میں کشکول اٹھائے بھیک مانگنے کی ذلت برداشت کرتے رہیںگے؟