حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور ملافضل اللہ کے تحریک طالبان پاکستان کا امیر بننے کے ساتھ ہی تنظیم کے کلیدی عہدوں اور مالی وسائل کے نیٹ ورک پر قبضہ کی جو جنگ شروع ہوئی تھی اب وہ اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے۔ کراچی میںایس ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کا قتل ٹی ٹی پی میں جاری داخلی کشمکش کا شاخسانہ بتایا جاتاہے۔ٹی ٹی پی ابھی تک کراچی میں تخریبی سرگرمیوں میں شدت لانے سے محض اس لیے احتراز کرتی رہی کہ شہر پر ایم کیوایم کی مضبوط گرفت ہے اور وہ اس کے ساتھ براہ راست ٹکرائو نہیں چاہتی تھی۔ اس پالیسی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت محسود قبیلے کے پاس تھی جو نہ صرف کراچی کی تجارتی سرگرمیوں کا ایک بڑاشراکت دار ہے بلکہ شہر کے امن سے اس کے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں۔علاوہ ازیںشہر کی گنجان پشتون آبادیاں ٹی ٹی پی کے لیے محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرتی ہیں جہاں اس کے لوگ کچھ وقت کے لیے سستاتے ہیں اور واپس قبائلی علاقوں کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔کراچی ٹی ٹی پی کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بھی ہے ۔تنظیم کو ملنے والے مالی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ اسی شہر سے آتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کی پشتون آبادی پشاوراورکوئٹہ ہی نہیں بلکہ قندھار سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے زمانے میں کراچی پاکستان کے اقتصادی مرکز کے طور پر اُبھرا۔ اردو بولنے والی آبادی معمولی نوعیت کی ملازمتوں میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ سخت جان پشتونوں نے صنعتوں، ٹرانسپورٹ اور بندرگاہ میں خدمات سرانجام دیناشروع کیں ۔بتدریج ان کے خاندان بھی کراچی منتقل ہونا شروع ہوگئے اور وہ لگ بھگ بندرگاہ اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار پہ اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔نائن الیون کے بعد قبائلی علاقوں سے کراچی نقل مکانی کرنے والوں کی ایک نئی لہر اٹھی۔خاص کرمالا کنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلاء ہوا۔کراچی میں پہلے سے پشتون آبادیوں خاص کر سہراب گوٹھ، منگوپیر، بلدیہ ٹائون اور قصبہ کالونی میں نئے' مہاجرین‘ آباد ہوتے گئے۔ ان کے سکول ، شفاخانہ حتیٰ کہ قبرستان بھی مہاجروں سے الگ ہیں۔دومختلف تہذیبوں کے لوگ ایک ہی شہر میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔
ماضی میں کراچی کی پشتون آبادی جماعت اسلامی یا جمعیت علما ء اسلام کی سیاسی حمایت کرتی تھی ۔ گزشتہ کچھ عرصہ میںعوامی نیشنل پارٹی کراچی میں ایک بڑی جماعت بن کر اُبھری لیکن تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان نے جس جرأت کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیوایم کو مختلف مواقع پہ آڑے ہاتھوں لیا‘اس نے عمران خان کو مقبول راہنما بنادیااور اے این پی پس منظر میں چلی گئی۔ تحریک انصاف کراچی کی پشتون آباد ی کے حجم اور مالی وسائل سے ابھی تک بھرپور استفادہ نہیں کرسکی۔ اس آبادی کی دشواری یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
2007ء کے آخر میں راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو سندھ میں کہرام مچ گیا۔کراچی بندرگاہ سے ملک کے دیگر حصوں کو جو سامان سپلائی ہوتاہے وہ سندھ کے سینے کے اوپرسے گزرکرجاتاہے۔ پیپلزپارٹی کے حامیوں نے ردعمل میں جگہ جگہ بڑے بڑے ٹرالوں اور ٹرکوں کو کراچی سے لے کر اندرون سندھ تک آگ لگادی۔جیسے کہ عرض کیا کہ اس کاروبار پر قبائلی علاقوں کے لوگوں کی اجارہ داری ہے۔ چونکہ محترمہ کی شہادت کا الزام بیت اللہ محسود پر عائدکیا گیا تھا لہٰذا فطری طور پر پشتونوں کے کاروبار کو زیادہ نقصان پہنچایاگیا۔چنانچہ عام پشتونوں ہی نے نہیں بلکہ سرمایہ داروں اور تاجروں نے بھی تحریکِ طالبان کی قیادت کو اپنے نقصان کا ذمہ دارقراردیااور اس کی درپردہ حمایت میں کمی کردی۔
میاں آصف، جو قبائلی علاقوں میں آنے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ایک عشرے سے مطالعہ کررہے ہیں‘ نے بتایا کہ یہ وہ مرحلہ تھا جب بیت اللہ محسود نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جس کے ردعمل میں کراچی میں قبائلی علاقوں بالخصوص محسود قبائل کے کاروبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔حکیم اللہ محسود نے بھی یہی پالیسی جاری رکھی۔حکیم اللہ کی ہلاکت سے پہلے تک ٹی ٹی پی کی قیادت محسود قبیلے کے پاس تھی۔ تنظیم کے جنگجو ئوں کی اکثریت کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ محسود قبائل کی وزیرستان سے باہر بھاری تعداد کراچی میں رہتی ہے۔حتیٰ کہ یہ صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں پر ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
کراچی میں محسودوں کا نیٹ ورک بہت مضبوط اور موثر ہے جس کا فائدہ بیت اللہ اور حکیم اللہ کو ملتارہا۔شہر میں محسود وںکے علاوہ سوات اور مہمندایجنسی کے طالبان بھی اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ خود محسود قبیلہ کے اندر بھی ٹی ٹی پی کی قیادت حاصل کرنے کے لیے حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان کے درمیان باقاعدہ لڑائی ولی الرحمان کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر منتج ہوئی۔ باہمی لڑائیوں ، مالی نقصانات اور حکومتی دبائو نے محسود قبیلہ کے سرکردہ افراد کو مجبور کیا کہ وہ حکیم اللہ کو حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کریں۔ کاروباری محسودوں کا یہ عمل ٹی ٹی پی کے سخت عناصر کے لیے ناقابل قبول تھا۔
حکیم اللہ کی ہلاکت اورملافضل اللہ کے ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے سے نہ صرف حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی بلکہ کراچی میں محسودوںکی ٹی ٹی پی پر تنظیمی بالادستی کو بھی چیلنج کیاگیا۔ملافضل اللہ کے افغان حکام کے ساتھ تعلقات کوئی راز نہیں ۔وہ گزشتہ چار برس سے کنٹر میں مقیم ہیں اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوںکو کنٹرول کرتے ہیں۔ چودھری اسلم پر خودکش حملے اور اسلام آباد میں حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ راہنما نصیرالدین حقانی کی ہلاکت کے پس منظر میں این ڈی ایس کا ہاتھ تلاش کیاجاتاہے۔یہ اندیشہ بھی ہے کہ این ڈی ایس پاکستان میں براہ راست اپنے مخالفین کو ہلاک کرانے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔گزشتہ برس ا کتوبر میں افغانستان سے ٹی ٹی پی کے سینئر راہنما لطیف محسود کو امریکیوں نے افغان خفیہ ایجنسی سے زبردستی چھینا۔ چوری اورسینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان اجمل فیضی نے ایک انٹرویو میںکہا : این ڈی ایس دنیا کی دوسری خفیہ ایجنسیوں کی طرح لطیف محسود کے ساتھ رابطے میں تھی۔
چودھری اسلم کو خودکش حملے میں ہلاک کرنے کی ذمہ داری تحریک طالبان کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی۔یاد رہے کہ احسان للہ کا تعلق ٹی ٹی پی کے مہمند گروپ سے ہے۔ انہوں نے اس کارروائی کو مہمند طالبان کی برا ہ راست کامیاب کارروائی قرار دیا۔ پاکستانی طالبان کا یہ گروپ مذاکرات کا مخالف اور فضل اللہ کا حمایتی ہے۔ چودھری اسلم کو ہلاک کرکے ملا فضل اللہ نے حکومت پاکستان کو پیغام دیا کہ وہ جنگ کا دائرہ کراچی تک پھیلا رہا ہے اور اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔وہ مضبوط سے مضبوط حصار میں رہنے والی شخصیت کو بھی نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔کراچی میں محسود قبیلے کو باور کرایا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی کی نئی قیادت کے سامنے نہ صرف سرِتسلیم خم کرے بلکہ راہ راست پر آجائے۔دوسری صورت میں اسے چودھری اسلم کے انجام سے دوچار ہونا پڑ سکتاہے۔ قبائلی علاقوں پر گہر ی نظر رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ اگلے چند ماہ میں کراچی میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں میں تنظیم کے نیٹ ورک پر قبضہ کی کشمکش خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے جس میں کئی جانوں کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔