مشرق وسطیٰ میں شام کے مسئلہ پر پائی جانے والی کشیدگی، امریکہ اور ایران کے مابین جوہری مسائل پر تیزی سے فروغ پذیر مفاہمت اور افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے تناظر میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز اگلے چند دنوں میں پاکستان کے تین روزہ دورہ پر تشریف لانے والے ہیں۔چونکہ شاہ عبداللہ پیرانہ سالی اور خرابی صحت کے باعث فعال نہیں لہٰذا عملاً امور مملکت ولی عہد سلمان ہی نے سنبھال رکھے ہیں۔ اس پس منظر میںجنرل راحیل کے دورہ سعودی عرب کے فوری بعد ولی عہد سلمان کا دورہ پاکستان غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد اپنے دورے میں پرویز مشرف کی رہائی پر اصرارکریں گے اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے ان کی فرمائش مستردکرنا ممکن نہ ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے پاس مشرف کے علاوہ بھی مشاورت کا ایک وسیع ایجنڈا ہے،جس پر پاکستان میں کم ہی بحث ومباحثہ ہوتاہے۔سعودی عرب ایران اور امریکہ کے مابین مفاہمت اور مابعد ابھرتی ہوئی علاقائی صورت حال سے سخت نالاں ہے۔ایران میں حکومت کی تبدیلی یا رجیم چینج کا امریکی نعرہ دم توڑچکا ہے۔اب دونوں ممالک مفاہمت اور دوستانہ تعلقات کے قیام کی راہ پر چل نکلے ہیں۔امریکہ ایران مفاہمت نے خطے میں سعودی عرب کی اسٹرٹیجک حیثیت کو متاثر کیا ہے۔جس کی بحالی کے لیے وہ سرتوڑ کوششیں کررہاہے۔
سعودی عرب کے اسٹرٹیجک ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی پابندیوں کی عدم موجودگی میں ایران نہ صرف سبک رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل ہوجائے گا بلکہ اپنے بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے خطے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔امریکہ کے تزویراتی حکمت کاروں کا منصوبہ یہ ہے کہ اگلے کئی عشروں تک ان کی توجہ ایشیا پر مرکوز رہے گی۔وہ چین اور ایشیا میں اپنے شہریوں کے روزگار کے مواقع تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں۔یوں مشرق وسطیٰ کے معاملات امریکہ کے سفارتی ریڈار سے پس منظر میں جاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ولی نصر کے پائے کے ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ مشرق وسطیٰ سے انخلاء کی جانب راغب ہوگا۔
مشرق وسطیٰ کے حکمران ابھی عرب بہار کے جھٹکے سے پوری طرح نہیں سنبھلے تھے کہ شام میں جاری شورش نے پورے خطے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہی نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ دوسری جانب یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض عرب ممالک لبنان ، شام، عراق اور یمن میں اپنے اپنے حامیوں کو ہر طرح کی معاونت فراہم کرتے ہیں۔القاعدہ شام میں ازسر نو منظم ہورہی ہے اور بہت سارے علاقائی ممالک اس کی سرکوبی کے بجائے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں کیونکہ شام میں القاعدہ ان کے مفادات کو آگے بڑھارہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری تنائو کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں۔پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ مسائل اور پُرتشدد واقعات کے ڈانڈے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں پیوست ہیں۔ہر ملک چاہتا ہے کہ اس کشمکش میں پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہو۔اس کی طاقت بنے۔ پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ ایران اس کا ہمسایہ ہی نہیں بلکہ اس کے شہریو ں کی ایک معقول تعداد کے دل ایران کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔وہ ایران کی آنکھ سے پاکستان کو دیکھتے ہیں۔یہی حال عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کا ہے۔سعودی حکمران خاندان پاکستا ن کو اپنا دوسرا گھر قراردیتاہے۔ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کی ان کے ساتھ گہری قربت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے منظرنامہ میں پاکستان کو کیا کرنا
چاہیے؟پاکستان کی بہت ساری اقتصادی مجبوریاں بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اسے ماضی کی طرح سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک پل کا کردار اداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔خیر خواہی کا یہی تقاضہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے مابین خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔علاوہ ازیں خود پاکستان کے اندر جاری عدم استحکام میں بھی اسی وقت بہتری آسکتی ہے جب ایران اور عرب ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات استوار ہوں۔
اگر سعودی عرب اور ایران خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کے جائز مفادات کا احترام کریں تو مسلم دنیا میں قرار آسکتاہے۔دوسری صور ت میں مشرق وسطیٰ میں تصادم اور کشیدگی کی فضا نہ صرف برقراررہے گی بلکہ یہ ابھرتاہوا طوفان تھمتانظرنہیں آتا۔امریکہ کے مفادات بھی اس خطے میں امن واستحکام سے وابستہ ہیں۔وہ یہاں سے تیل ہی نہیں بلکہ اس کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں ڈالر کشید کرتی ہیں۔اس لیے واشنگٹن کو سعودی عرب کی بے چینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تشکیل دینی چاہیے کہ یہ خطہ عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔
سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ شدت پسندوں کے خلاف کافی موثر تعاون کیا ہے۔کئی ایک مطلوب شدت پسندوںکو بھارت کے حوالے کیاگیا۔ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز جلد ہی بھارت کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔امکان ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے حوالے سے کچھ کردار اداکریں گے۔افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد یہ خدشہ ہے کہ یہ ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتاہے اور پڑوسی ممالک اس جنگ میں کود پڑیں گے۔سعودی عرب کی داخلی سلامتی کا گہرا تعلق افغانستان میں امن وامان کے قیام سے ہے ۔ وہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت چاہتاہے جو عرب شدت پسندوں کو پناہ نہ دے ۔پاکستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ افغانستان کسی بیرونی طاقت کا آلہ کار بنے اور نہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو۔
پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی اداروں کے درمیان ستر کی دہائی سے پیشہ وارانہ تعلقات قائم ہیں۔ نشیب وفراز کے باوجود یہ تعلقات مسلسل گہرے ہوتے گئے ۔دونوں ممالک علاقائی صورت حال بالخصوص افغانستان کے حوالے سے عمومی طور پر ایک صفحے پر رہے ہیں۔نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا۔ پاکستان کی فراہم کردہ اطلاعات کے نتیجے میں کئی ایک خطرناک مجرم حراست میں لیے گئے اور سعودی شہری محفوظ رہے۔پاکستان چاہتاہے کہ یہ تعاون مزید آگے بڑھے اور اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہو۔خاص طور پر پاکستان میں جن افراد اور اداروں کو وسائل فراہم کیے جاتے ہیں انہیں آسانی سے آمادہ کیا جاسکتاہے کہ وہ شدت پسندی کے خلاف کھڑے ہوں۔انہوںنے جنگجوئوں کے خلاف نظریاتی سطح پربھرپور معرکہ آرائی کرکے اپنی ریاست کو خانہ جنگی کا شکار ہونے سے بچایا۔اس کے برعکس پاکستانی علماء کی اکثریت نے جنگجوئوں کو جوازیت فراہم کرکے پاکستان ناقابل یقین نقصان پہنچایا۔