"IMC" (space) message & send to 7575

مسلم دنیا کا ’’سلطان‘‘

تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کے خالق اور شہرۂ آفاق مصنف سیموئل فلپس ہنٹگٹن نے پیش گوئی کی تھی کہ ایسا وقت بھی آسکتاہے کہ ترکی یورپی یونین کی رکنیت کی بھیک مانگنے کے بجائے اپنی طاقت عہد رفتہ کی شان وشوکت میں تلاش کرے۔ٹیلی ویژن پر ترک وزیراعظم طیب اردوان کے دائیں جانب وزیراعظم نوازشریف اوربائیں افغان صدر حامد کرزئی کو کھڑا دیکھ کر چشم تصور میں وہ سارے مناظر گھوم گئے جو اب محض ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ اپریل 1992ء میں وزیراعظم نواز شریف کے فراہم کردہ طیارے میںپروفیسر صبغت اللہ مجددی پشاور سے کابل کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی قصہ صدارت تشریف لے گئے۔وزیراعظم نواز شریف ان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔دوماہ بعد پروفیسربرہان الدین ربانی نے افغانستان کی صدارت کا منصب سنبھالا۔ انہیں بھی وزیراعظم نواز شریف کی آشیر باد حاصل تھی۔اس وقت پاکستان کی منشا کے بغیر کابل میں پتہ بھی نہیں ہلتاتھا۔اب عالم یہ ہے کہ کابل میں پاکستان محض اجنبی نہیں بلکہ دشمن ملک تصور کیا جاتاہے۔افغان فوجوں اور خفیہ اداروں کو باورکرایاجاتا ہے کہ ان کی سلامتی کو پاکستان سے خطرہ ہے۔پاکستان کے خلاء کو کسی حد تک ترکی نے پُر کیا ۔وہ بتدریج افغانستان کے معاملات میں غیر جانبدار مگر موثر ثالث کے طور پر ابھرا۔اس نے نیٹو کا ممبر ہونے کا فائدہ اٹھایا اور افغانستان میں اتحادی فوجوں کے ہمراہ داخل ہوگیا۔ترک فوجی دستوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ واحد غیر ملکی فوج ہے جس کی موجودگی پر تمام افغان دھڑوں کو اتفاق ہے۔
فروری 2007ء میں ترکی نے پاکستان اور افغانستان کے مابین مصالحت کرانے اور تنائو کم کرانے کی خاطر سہ فریقی سربراہی کانفرنس کا سلسلہ شروع کیا۔ پرویز مشرف اسلام آباد میں تخت نشین تھے اور وہ حامد کرزئی کو اس وقت بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے معمولی ایجنٹ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہ تھے۔دوسری جانب صدر حامد کرزئی کو ئی موقع جانے نہ دیتے جب مشرف پر دوغلے پن اور منافقت کا الزام نہ دھرتے۔بپھرے ہوئے مشرف نے انقرہ سربراہی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ بعدازاں امریکیوں اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے اصرار پر کانفرنس میں شریک ہوئے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان ،افغانستان اور ترکی کی آٹھویں سہ فریقی سربراہی کانفرنس کو خطے سے نیٹو افواج کے انخلا اور اپریل میں ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت حاصل رہی۔ترک حکومت کی تجویز پر تینوں ممالک کے فوجی اور خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔وزیراعظم نواز شریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد کوشش کی کہ ہر اہم معاملہ میں سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلیں تاکہ پالیسی سازی یا اس پر عمل میں کوئی جھول یا دہرامعیار نظر نہ آئے۔ وزیراعظم کے ہمراہ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کا انقرہ کانفرنس میںہونے والے فیصلوں میں شریک رہنا اسی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے۔
سٹرٹیجک ماہرین کا خیال ہے کہ اگر خطے کے ممالک نے اتفاق رائے سے افغانستان میں امن وامان کے قیام کی راہ ہموار نہ کی تو یہ ملک نہ صرف خانہ جنگی کا شکار ہوسکتاہے بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی عدم استحکام کا شکار کردے گا۔اس پس منظر میں ترکی افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد عالمی طاقتوں کی شہ پر اس خطے میں اہم کردار ادا کرنے جارہاہے۔ افغانستان کے شمال میں آباد ازبک اور تاجک جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ، ترکی کے گہرے تاریخی تعلقات ہیں۔جنہیں افغانستان کی تعمیر نوکے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پشتون اکائیوں کے ساتھ تاریخی سماجی رشتوں میں بندھا ہواہے۔ترک چاہتے ہیں کہ پاکستان نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد ترکی کی مدد کرے تاکہ وہ اس خطے میں امن کا پیامبر بن کرابھرے اور عالمی سطح پر اس کا امیج بلند ہو۔ترک وزیرخارجہ نے اشارتاًکہاہے کہ پاکستانی ،افغانی اور ایرانی بھائی بھائی ہیں اور اخوت کے جذبے کے تحت تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
ترک نہ صرف خطے بلکہ پوری مسلم دنیا کی قیادت سنبھالنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔خود طیب اردوان نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ان کے ملک کو پوری دنیا مسلم دنیا کے لیے ماڈل قراردیتی ہے۔ترکی مسلم دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو صنعتی طور پرترقی یافتہ ہے۔وہ آج دنیا کی 17ویں بڑی اقتصادی طاقت ہے۔یہ غالباًدنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو حالیہ کساد بازاری کے جھٹکوں کو نہ صرف برداشت کرگیا بلکہ اپنی شرح نمو کو بھی برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔وزیراعظم طیب اردوان، ترکی کو دنیا کے پہلے دس ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
ترکی کو مسلم دنیا میں ماڈل کے طور پر دیکھاجاتاہے جو نہ صرف تیزی سے ترقی کررہاہے بلکہ وہاں جمہوری نظام بھی مضبوطی سے جڑیں پکڑچکا ہے۔فوج پر مضبوط سویلین کنٹرول قائم ہے۔اسلام یا مذہب کو ریاستی معاملات میں بالادستی حاصل نہیں لیکن حکمران جماعت کی قیادت کے نزدیک مذہب زندگی کا بنیادی ماخذ ہے۔اس کے باوجود ترکی نے مغربی دنیا سے لاتعلقی اختیار کرنے کے بجائے یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوششوں کو جاری رکھا۔عالمی نظام کو غیر مستحکم کرنے کے بجائے شراکت دار بن کر اپنی حیثیت منوائی ۔امریکی صدربارک اوباما نے بھی ترک پارلیمنٹ کو خطاب کے لیے منتخب کیا تاکہ وہاں سے مسلم دنیا کو امریکہ کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام دے سکیں۔ ترکی نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی طرزعمل پر کڑی تنقید کرکے عرب دنیا میں بھی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
پاکستان کی خوش قسمتی کہ حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا اس کی جانب نمایاں جھکائو ہے۔تر ک حکومت کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ گہرے سیاسی اور ذاتی مراسم استوارہوچکے ہیں۔وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے متعدد منصوبوں میں سرگرمی سے حصہ لے رہاہے۔دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے درمیان سٹرٹیجک سطح پرتعاون میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔خاص طور پر دفاعی صنعت میں اشتراک کیاجارہاہے تاکہ مشترکہ طور پر ایسے ہتھیار اور جدید آلات تیار کیے جاسکیں جن کی مسلم دنیا میں مانگ ہے اور مغرب انہیں فروخت کرنے پر آمادہ نہیں۔
ستّر کی دہائی میں پاکستان سقوط ڈھاکہ کے زخم چاٹ رہاتھا، اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم دنیا کے نقشے پر وہ متحرک اور قائدانہ کردار ادا کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتاتھا۔آج عالم یہ ہے کہ افغانستان اسے دھمکاتاہے اور بنگلہ دیش معافی کا مطالبہ کرتاہے۔سری لنکا جیسا دیرینہ دوست بھی اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے پر آمادہ نہیں۔ترکی جو کل تک پاکستان کی مشاورت سے اپنی خارجہ پالیسی کے خطوط طے کرتاتھا آج مسلم دنیا کا ''سلطانــ‘‘ بننے کے خواب دیکھ رہاہے۔ اس کے برعکس پاکستان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جھولی میں بٹھا کر امن کی بھیک مانگ رہاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں