ان دنوں مظفرآباد اور اسلام آباد کے مابین زبردست سیاسی کشمکش چل رہی ہے۔وزیراعظم چودھری عبدالمجید اور وفاقی وزیرِامورِکشمیر چودھری برجیس طاہر کے درمیان خوب ٹھنی ہوئی ہے۔ آزادکشمیر اسمبلی کے رکن اختر حسین ربانی کے انتقال کے بعد ضلع سندھنوتی کے حلقے بلوچ میں ضمنی الیکشن میں نون لیگ نے میدان مارلیا ہے‘ جس سے تلخی کے موجودہ باب کا آغاز ہوا۔ چودھری مجید نے اپنی ناکامی کا ملبہ وزیرامور کشمیر پر ڈال دیا۔ انہوں نے حیرت انگیز طورپر وفاق کے نمائندوں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی خدمات واپس کردیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے وزیراعظم کی اجازت کے بغیر رینجرز کے دستے طلب کیے۔ ان کی وجہ سے دھاندلی ہوئی۔الیکشن کمشنر کہتے ہیں کہ انہوں نے امن وامان برقرار رکھنے کی خاطر رینجرز منگوائے ہیں۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے راہنمائوںبالخصوص چودھری مجید اور نون لیگ کے صدر راجہ فاروق حیدر نے یہ نشست حاصل کرنے کے لیے ہر دائو پیچ استعمال کیا۔شدید سردی اور برف باری کے باوجود گھر گھر انتخابی مہم چلائی۔آزادکشمیر حکومت نے سرکاری وسائل کا بھی بے تحاشہ استعمال کیا۔فاروق حید ر کئی ہفتے تک اس حلقے میں مقیم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت بالخصوص وفاقی وزیرچودھری برجیس طاہر نے بھی سیاسی کمک فراہم کی ۔
سیاسی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب برجیس طاہر نے چودھری مجید کی حکومت کی بدعنوانیوں اور کرپشن پر اعتراضات کیے۔انہوں نے سوال کیا کہ آخر پوری کی پوری پارلیمانی پارٹی کو وزیراور مشیر بنانے کی کیاتک ہے؟انہوں نے ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ زکوٰۃ کے محکمے کے سربراہ کی ماہانہ تنخواہ دس لاکھ ہے جب کہ نادار اور مستحق افراد کو پانچ ہزارروپے کی امداد حاصل کرنے کے لیے کئی کئی ماہ دھکے کھانا پڑتے ہیں۔چودھری مجید نے جوابی حملے کیے۔ معرکہ برپاہو توراجہ فاروق حیدر بھی کہاں پیچھے رہتے ہیں‘ انہوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ایک دوسرے کو گلیوں اور بازاروں میںگھسیٹنے اور پٹہ ڈالنے کی دھمکیاں اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں۔ فضا بتدریج مکدر ہوتی گئی۔ایک بے گناہ نوجوان پولیس کی فائرنگ سے جان بحق ہوگیا اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ وفاقی حکومت کے خلاف ایک ایشو آ گیا۔
چودھری مجید اپنی گفتگو کا آغاز وزیراعظم نوازشریف کی تعریف سے کرتے اور اختتام پر افواج پاکستان زندہ باد کا نعرہ مستانہ بلند کرتے رہے ہیں۔کیوں نہ کرتے آخر وزیراعظم نواز شریف نے چند ماہ قبل ان کی حکومت بچائی۔اپنی جماعت کے لوگوں کو ناراض کیا۔چودھری مجید کو اپنا وزیراعظم تک کہا ۔مظفرآباد تشریف لے گئے۔ علاقے کی ترقی کے لیے میگا منصوبوں کا اعلان کیا۔توقع تھی کہ چودھری مجید اس عزت افزائی کا مثبت جواب دیں گے لیکن صورتحال کچھ اور نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ اب وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو واپس کرنے اوراسلام آباد سے ٹکر لینے کے لیے جس سیاسی عزم اور جرأت کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں پایاجاتا۔اس طرح کے فیصلوں کے بعد ان پر قائم رہنا پڑتاہے۔اقتدار کی قربانی دینا پڑتی ہے۔بسااوقات قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں جن کا شاید وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
آزادکشمیر میں رائے عامہ کا جائزہ مرتب کیا جائے تو ناپسندیدہ ترین شخصیات میں کشمیری امور کے وزراء کا درجہ سب سے اونچاہوسکتاہے۔لوگ انہیں پسند نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے منتخب نمائندوں کوہانکتاہے۔موقع بے موقع وہ کشمیر یوں کی عزتِ نفس مجروح کرتاہے۔فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی حکومت کی شنوائی نہیں ہونے دیتا اور اسلام آباد اور مظفرآباد کے مابین پل کاکردار ادا کرنے کے بجائے وہ ''وائسرائے‘‘ بن جاتاہے۔
دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں اورحکمرانوں کو وزارت امور کشمیر صرف اسی وقت بری لگتی ہے جب ان کے مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ آج پی پی پی چیخ رہی ہے اور نون لیگ والے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔کل نون والے رو تے تھے۔ راجہ فاروق حیدر منظور وٹو کے سرعام لتے لیتے اور انہیں بدعنوان قراردیتے ۔آج نون لیگ والوں کی باری ہے۔ وہ تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ ناٹک چھ عشروں سے جاری ہے۔ ماضی قریب میںسردارعتیق احمد خان نے سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح نون لیگ سے صلح ہوجائے۔بات نہ بنی تو وہ نون لیگ کو کشمیر کا سودا کرنے کا طعنہ دے رہے ہیں حالانکہ کل تک وہ نوازشریف کو قائد اعظم ثانی قراردیتے تھے۔
سیاستدانوں کی ان قلابازیوں کے سبب نوجوان نسل میں سخت بیزاری پائی جاتی ہے۔وہ کسی نئی پارٹی اور شخصیت کی آمد کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہے‘ جو وفاقی حکومت اور آزادکشمیر کے مابین برابری ہی نہیں بلکہ باوقار تعلقاتِ کار استوار کرسکے۔آزادکشمیر کے معاشی اور سیاسی حقوق کی جنگ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر لڑسکے۔اسلام آباد کے ایوانوں میں بلاجھجک اور کھل کر دیگراکائیوںکے مساوی حقوق اور مراعات کے حصول کا مقدمہ پیش کرسکے۔کشمیریوں کی مظلومیت کا پتہ کھیلنے کے بجائے ان کی طاقت کو اجاگر کرے۔اسلام آباد کے ناپسندیدہ اقدامات پر نکتہ چینی کرے۔اسے جھنجھوڑے۔ مثال کے طور پر کشمیر کونسل کا بجٹ جو جون میں پاس ہونا چاہیے تھا۔ ابھی تک وزیراعظم نوا ز شریف کے دستخطوں کا منتظر ہے۔اگلے چند ماہ میںنئے سال کا میزانیہ پیش ہونے کوہے۔وزیراعظم نواز شریف جب اس فائل پر دستخط کریں گے تو چندماہ میں سارا بجٹ خرچ کرنا ہوگا۔ اربوں روپے مالِ مفت دلِ بے رحم کی مانند چند ہفتوں میں شرفا کی ذاتی تجوریوں میں چلے جائیں گے۔ان مسائل کو اٹھانے والا کوئی نہیں۔
حالیہ ضمنی الیکشن میں سب سے کائیاں سیاست جمعیت علمائے اسلام نے کی۔ آزادکشمیر شاخ کے امیرمولانا محمدسعید یوسف چودھری مجید کے ہمرکاب رہے۔انہوں نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو جتوانے کی خاطر تحریکِ انصاف کے امیدوار کو الیکشن سے دستبردار کرایا۔ اسلام آباد میں مولانافضل الرحمن نون لیگ کی حکومت کا حصہ ہیں۔جماعت اسلامی نے بھی نون لیگ کی حمایت کی۔ شنید ہے کہ اگلا الیکشن جماعت اسلامی نون لیگ کے اشتراک سے لڑے گی۔ مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد تمام تر محنت اور نیٹ ورک کے باوجود اپنا رنگ نہیں جماسکے۔حالیہ ضمنی انتخابات میں ناکامی کے بعدان کی جماعت مزید کمزور ہوتی نظر آرہی ہے۔
آزادکشمیر میں اس وقت عوامی رجحان نون لیگ کی طرف نظر آرہاہے۔عمومی طور پر یہاں ووٹرز اسلام آباد میں حکمران جماعت کی تائید کرتے ہیں۔علاوہ ازیں موجودہ حکومت اچھی حکومت فراہم کرنے میں بھی بُری طرح ناکام رہی۔ اب تحریکِ عدم اعتماد کا غلغلہ بھی ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی چودھری مجید کی جگہ کسی دوسرے کو وزیراعظم منتخب کرالے ۔
نون لیگ کو چاہیے کہ وہ تحمل سے کام لے۔الیکشن کا انتظار کرے نہ کہ اپنی توانائیاں مجید حکومت گرانے پرصرف کرے۔ سیاسی اکھاڑے میں کسی کو نہ اتارے۔فاروق حیدر اور ان کے ساتھی خود معرکہ آرائی کریں۔ انتخابی دنگل مظفرآباد بمقابلہ اسلام آباد نہیں بلکہ پیپلزپارٹی بمقابلہ نون لیگ ہونا چاہیے۔ برجیس طاہر کو‘ جس قدر ممکن ہو پس منظر میں رکھاجائے۔ آزادکشمیر کے شہری بالخصوص نوجوا ن ووٹرزپسند نہیں کرتے کہ اسلام آباد سے وزرا آکر ان کے داخلی معاملات کا فیصلہ کریں۔