"IMC" (space) message & send to 7575

تباہی پھیلانے والا سب سے بڑا ہتھیار

ہفتۂ رفتہ میں پاکستان کے شمال بالخصوص گلگت بلتستان، سری نگر، مری اور راولاکوٹ میں برف باری کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے '' پاکستان اے ہارڈ کنٹری‘‘ کے مصنف اناٹول لیون یاد آئے۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا: پاکستان کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے تین امکانات ہیں۔اوّل: امریکہ پاکستان پر حملہ آور ہو۔دوم :بھارت امریکہ کی مدد سے پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دے ا ور سوم یہ کہ موسمیاتی تبدیلیاں اس ملک کا نام کرئہ ارض سے معدوم کردیں۔لیون کا کہنا ہے کہ مجھے امریکہ اور بھارت کا پاکستان کے خلاف مہم جوئی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ البتہ جس طرح موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں‘ وہ پاکستان کی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ اگر پاکستانیوں نے بروقت اپنے بچائو کی تدابیر اختیار نہ کیں تو ان کا کوئی نام لیوا بھی نہ ہوگا۔
آج کی دنیا میں موسمی تبدیلیوں کو تباہی پھیلانے والا سب سے بڑا ہتھیار قراردیاجاتاہے۔آب وہوا میں تبدیلی جسے کلائمیٹ چینج کا نام دیا جاتاہے ‘کل تک یہ موضوع محض علمی اداروں میں برپا ہونے والی محفلوں اورتحقیقاتی اداروں میں جاری بحث ومباحثہ تک محدود تھا مگر اب اس نے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔حالیہ چند ماہ میں لاہور اور راولپنڈی میں دھند نے معمول کی زندگی مفلوج کیے رکھی ۔ایئرپورٹ بند ہوگئے حتیٰ کہ موٹروے پر رات کو سفر کرنے پر پابندی لگ گئی۔ ملک نہ صرف باقی دنیا سے کٹ گیا بلکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر بھی محال ہوگیا۔موسمیاتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے سائنسدان ڈاکٹر قمرالزماں چودھری نے بتایا کہ پاکستان میں موسم سرما میں جو دھند پڑتی ہے اس کا سبب بھارت اور چین میں پائی جانے والی آلودگی ہے۔
کہاجاتاہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان آٹھ ممالک میں ہوتاہے جو عالمی موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہیں۔ خاص طور پر خیبر پختون خوا، جنوبی پنجاب اور سندھ پر ان تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کا ایک ٹریلر آج کل تھر میں قحط کی صورت میں چل رہا ہے۔اصل تباہی تو اگلے چند برسوں میں آشکار ہوگی جس کاآج تصور بھی نہیں جاسکتا۔ ماہرین اگلے تیس چالیس سال تک تباہ کن سیلابوں کے خدشات بھی ظاہر کرتے ہیں۔جن سے ملک کی تئیس فیصد آبادی متاثر ہوگی۔یعنی لگ بھگ سات کروڑ پاکستانی شہری سیلاب میں غرق یا بے گھر ہوسکتے ہیںیا غذائی قلت کا شکار ہوکر ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہوں گے۔یہ منظر نامہ مستقبل بعید کا نہیں بلکہ محض اگلے چند برسوں میں متشکل ہونے والا ہے۔
آب وہوا میں تبدیلی کا مسئلہ عالمگیر شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی مسلسل بارش،سیلاب اور تھر میں پڑنے والے قحط نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیاہے۔قدرتی آفات کوئی نئی بات نہیں لیکن پاکستان میں اس کا مزاج اور شدت تیزی سے بدلی ہے۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے ۔چونکہ پاکستان میں نئی صنعتیں نہ صرف لگ نہیں رہیں بلکہ پرانی بھی بند ہو رہی ہیں ‘اس کے باوجود آب وہوا کی تبدیلی نے ملک کی پہلے سے دگرگوں اقتصادی حالت کو مزید کمزور کردیاہے۔
ابھی موسمی تبدیلیوں کے اثرات پوری طرح آشکار بھی نہیں ہوئے کہ حکومت گھٹنے ٹیکتی نظرآتی ہے۔سینیٹ کی موسمیات پر قائمہ کمیٹی کو حکومت نے بتایا کہ موسمی تبدیلیوں اور آلودگی کے باعث پاکستان کو سالانہ 365 ارب روپے کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔ایک سرکاری اہلکار راجہ حسن عباس کے مطابق ملک کو پندرہ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 2010ء کے سیلاب کے نتیجے میں دوکروڑ شہریوں کو بے گھر ہونا پڑا ۔تمام تر ملکی اور عالمی امدا د کے باوجود ابھی تک لاکھوں خاندانوں کو سرچھپانے کے لیے سائبان دستیاب نہیں۔ 
دوسری جانب پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں حتیٰ کہ ہزاروںسال سے قائم، گلیشیئرتیزی سے پگھل رہے ہیں۔ سیاچن گلیشیئر کی لمبائی میں پانچ اعشاریہ نو کلو میٹر کی کمی آ چکی ہے۔ موسمی تبدیلیوں اور خاص کر اس علاقے میں جنگی کارروائیوں کو نہ روکا گیا تو گلیشیئر کی تہہ سترہ فیصد تک باریک 
ہوجائے گی ۔یہ اندیشہ بھی ظاہر کیاجاتاہے کہ 2035 ء تک سیاچن گلیشیئر نام کی کوئی شے دنیا کے نقشے پر نہیں پائی جائے گی۔اس طرح محض بلتستان ہی نہیں بلکہ دریائے سندھ کے قرب وجوار میں آباد حیاتِ انسانی بری طرح متاثر ہوں گی۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے ملک غذائی بحران کا شکار ہو گا۔پانی کا یہ لازوال منبع پگھلے گا تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر بھی لے جائے گا۔ہزاروں لوگ اور گائوں غرق آب کر دے گا۔ ا س پس منظر میں کہا جاتاہے کہ سیاچن سے دونوں ممالک فوجی انخلا کریں اور اس خطے کو غیر فوجی علاقہ قراردیں ۔ کچھ عناصر اس تجویز پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ نہ جانے ہر مسئلہ کو فتح اور شکست کے پیمانے پہ کیوں پرکھاجاتاہے؟
عالمی موسمی تبدیلیوں کے بنیادی ذمہ دارصنعتی ممالک ہیں جوماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں احتیاط نہیں کرتے ۔گلوبل وارمنگ جسے اردو میں عالمی تپش کہاجاتاہے‘ کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔لیکن وہ اس کے منفی اثرات کا شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ 
حکومت گزشتہ دوبرسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔وفاق کی سطح پر ایک وزارت بھی قائم کی گئی ہے تاکہ وہ ملک کو درپیش چیلنجوں کے مقابلے کی تیاری کرے۔ حکومت نے ایک موسمیاتی پالیسی بھی منظور کی ہے جس کے خدوخال اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ قوم مفاد عامہ کے کاموں میں حکومتی لگن اور اعلیٰ کارکردگی کے مظاہرے بارہا دیکھ چکی ہے۔ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں نے سندھ حکومت کا پول کھول دیا ہے۔لگ بھگ ایسا ہی حال باقی صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔اس لیے ساری ذمہ داری حکومت پر ڈالی جاسکتی ہے نہ اس پر بھروسہ کیا جاسکتاہے۔
اس سلسلے میں غیر سرکاری اداروں کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔شہر ی تنظیمیں موسمی تبدیلیوں کو نہیں روک سکتیں لیکن وہ عوام کو ان کے خطرناک اثرات کم کرنے کے طریقے سکھا سکتی ہیں۔ یہ تلخ حقیقت پیش نظر رہے کہ ایک مرتبہ موسمی تبدیلیاں رونما ہوجائیں تو پھر صدیوں بعد جاکر موسم بدلتا ہے۔ لوگوں کو نئے ماحول اور حالات کے مطابق اپنا طرزحیات بدلنا پڑتاہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو رائے عامہ کو بیدار کرنا ہوگا۔یہ باور کرانا ہوگا کہ جنگل نہ کاٹے جائیں۔ایک درخت کاٹا جائے تو بدلے میں دو ضرور لگائے جائیں۔ملک گیر سطح پرشہریوں اورنجی اداروں کو متحرک کیا جائے کہ خطرے کی صورت میں متاثرین کی مدد کریں۔پاکستان کی بقا کو جو سب سے بڑے خطرات لاحق ہیں‘ ان میں دہشت گردی کے بعد پانی کی کمی ہے۔ جس بے دریغ طریقے سے پانی ضائع کیا جاتاہے ‘اسے دیکھ کر خوف آتاہے۔ پانی کے استعمال کے طریقے سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔
افسوس!ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک ڈوب رہا ہے۔ اس ملک کی تئیس فیصد آبادی سیلاب میں غرق ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ہماری کیفیت ''روم جل رہاتھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ کی سی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں