23مارچ آیا اور گزرگیا۔سرکاری تقاریب برپا ہوئیں، اعزازات عطا کیے گئے اور قصہ تمام۔ایک مذہبی تنظیم نے دارالحکومت اسلام آباد سمیت پورے ملک میں تحفظ نظریہ پاکستان کے عنوان سے تقاریب منعقد کیں۔گزشتہ جمعہ کو علما ئے کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین نے وطن عزیز کے خلاف جاری بیرونی سازشوں کوبے نقاب کیا۔23مارچ کو پورے ملک میں نظریہ پاکستان مارچ کیاگیاجس میں نئی نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی اورانہیں بتایاگیاکہ سامراجی طاقتیں ان کے عقائدتباہ کرنے کی ٹھان چکی ہیں۔نہ جانے کیوںسرکاری اور نجی ٹیلی وژن چینلزنے ناظرین کو باورکرانے کی سرتوڑکوشش کی کہ قبائلی علاقہ جات میں بھی یوم پاکستان پوری شان وشوکت سے منایا گیا۔ یہ بھی بتایاگیا کہ قبائلی پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور وہ وطن کی سلامتی اور حرمت کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کو تیارہیں۔
فطری طور پر ان تقاریب میں تقسیم ہند کے خون آشام لمحات کا ذکر باربار آتاہے۔ ہندومسلم فسادات اور دس لاکھ سے زائدبے گناہ شہریوں کے قتل کے واقعات دہرائے جاتے ہیں ،کروڑوں انسانوں کے بے سروسامانی کے عالم میں نقل مکانی کا تذکرہ کیاجاتاہے ، ایسے مواقع پر نفرت کے دبے ہوئے جذبات ایک بار پھر عود کر سامنے آجاتے ہیں۔ ماضی کی بے رحمیا ں اور نا انصافیاں ایک ایک کرکے یاد آتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتاہے۔ بیتے ہوئے لمحات چشم تصور میں گھوم جاتے ہیں۔ تقسیم ہند تاریخِ انسانی کا غیر معمولی واقعہ ہے ،دوقوموں نے محض ایک خطہ زمین کی علیحدگی پر اکتفا نہیں کی بلکہ وہ ایک دوسرے کے وجود کو مٹانے کے درپے ہوگئیں۔ جنگیں، پراکسی وار اور ہر عالمی فورم پر ایک دوسرے کی تضحیک اور تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ۔
ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچاجاتا کہ تقسیم ہندکے دوران جوفسادات ہوئے وہ کسی مربوط منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھے۔اس سانحہ کے ذمہ دار مہاتما گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح یا لیاقت علی خان نہ تھے۔انہوں نے ہجوم کونہیں اکسایا کہ وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں۔کانگریس اور مسلم لیگ کی صف اوّل کی قیادت فسادیوں کی پیٹھ نہیں ٹھونک رہی تھی بلکہ انہیں روکتی رہی لیکن مشتعل عوام نے کسی کی ایک نہ سنی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کراچی پہنچنے والے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کی حالت زار دیکھی تو آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ شخص جس کی زندگی میں کوئی کمزور لمحہ نہیں آیاتھا ، غم سے نڈھال گورنرجنرل ہائوس واپس پہنچا۔
دہلی میں مہاتما گاندھی سر پکڑکر بیٹھ گئے۔دکھے دل کے ساتھ انہوں نے دہشت زدہ مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا ، بلوائیوں کا ہاتھ روکا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں انہوں نے ہندومسلم فسادات کی نہ صرف مذمت کی بلکہ مہاجرین کو واپس اپنے آبائی علاقوں میں آباد کرانے کے عزم کا اظہار کیا۔ بھارت نے برطانوی حکومت کے چھوڑے ہوئے وسائل سے پاکستان کی رقم واگزارکرنے میں لیت ولعل سے کام لیا توگاندھی نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔اپنی ہی حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال کو ئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ الزام لگا کہ گاندھی مسلمانوں کا غمگسار ہے اور پاکستان کا ہمدرد ۔چنانچہ ہندو قوم پرست اور انتہاپسند تنظیم مہاسبھا سے وابستہ قاتل ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
قیام پاکستان کو سات عشرے ہونے کو ہیں لیکن ہم دائر وں کے سفر سے باہر نہیں نکل پارہے ۔ 1947ء کی نفسیاتی کیفیت سے اوپر اٹھا نہیں جارہا۔ ہر چوبارے پر ایک ناتھورام گوڈسے بیٹھا ہے جو ہمیں ماضی کی قیدسے آزاد نہیں ہونے دیتا ، دل ودماغ پر پڑے تالے کھولنے نہیں دیتا۔ جو اس دائرے سے نکلنا چاہتا ہے ناتھورام اسے ملک دشمن کا خطاب دیتاہے۔واعظ ضعیف العقیدہ ہونے کا طعنہ مارتاہے اور یارلوگ بکائو مال قراردیتے ہیں۔اس ماحول میںکون اورکیونکراسٹیٹس کو،کو چیلنج کرے؟تلخیوں کے ڈھیر سے روشن پہلو تلاش کرے اور نئے امکانات سے استفادے کا پرچار کرے؟
اعترازاحسن نے پاکستان کے وجود کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ انہوں نے اپنی کتاب انڈس ساگا میں لکھا کہ پاکستان سندھ ویلی کی تہذیب کا حصہ ہے ، یہ گنگا جمنا تہذیب سے بالکل مختلف ہے۔احمد حسن دانی نے بھی ایک کتاب میں لکھا کہ موجودہ پاکستان میں آباد قوموں کی ایک بڑی تعداد وسطی ایشیائی یاعرب النسل ہے ، اس لیے بھارت سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔کچھ دانشور کہتے ہیں کہ ہمیں جنوبی ایشیا بالخصوص بھارتی تہذیب سے جڑے رہنا چاہیے۔ پاکستان کو عربوں اور وسط ایشیائی ممالک کی طرف نہیں بلکہ گنگا جمنا کی جانب دیکھنا چاہیے ۔ اس کے برعکس دوسرا نقطہ نظر تجویزکرتاہے کہ پاکستان کا وجود بھارت کے ساتھ دشمنی برقرار رکھنے میں مضمر ہے۔ان کا خیال ہے کہ کشیدگی کی فضا تحلیل ہوگئی تو پاکستان کے وجود اور قیام کی منطق پر سوالات اٹھنے لگیں گے۔تحفظ نظریہ پاکستان مارچ اسی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے بیانیے کو بدلے ، نئے زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے۔ پاکستان دنیا کا ایک منفرد ملک ہے جو دنیا کی بڑی تہذیبوںاورطاقتوں کے سنگم پرآباد ہے۔ وہ محض ایک ملک یا تہذیب کا حصہ نہیں بلکہ ان کا ملغوبہ ہے۔ عربوں، وسط ایشیائی ممالک اور بھارت کے اثرات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔کثیر الجہت ہونے کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بنایا جانا چاہیے۔ محض تقسیم کے زخم باربار ہرے کرنے اور نوجوان نسل کو زہر میں بجھی ہوئی کہانیاں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
مجھے جاپان اور جرمنی کا سفرکرنے کا موقع ملا ہے۔ دونوں ملکوں کے شہریوں سے ایک سوال ضرور پوچھتاتھا کہ انہوں نے امریکہ سے اپنی نفرت کوکیسے ختم کیا؟ لگ بھگ ہر جاپانی اورجرمن ایک ہی داستان سناتاہے ،کہتے ہیں کہ وہ بحیثیت قوم ایک مخصوص ماحول کا شکارہوکرجنگ میں الجھ گئے تھے۔غلطیاں دونوں ملکوں کی قیادت سے سرزدہوئیں۔ایک جاپانی نے کہاکہ اس لاحاصل بحث کا کیا فائدہ کہ پہلا پتھرکس نے مارا؟میں نے پوچھا کہ تاریخ کا یہ تلخ باب چھپایا نہیں جاسکتا کہ جنگیں ہوئیں ، جاپان پرایٹم بم گرایا گیا، جرمنوںکو جبری طور پر تقسیم کردیا گیا۔ وہ کہتے ہیںکہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں یہ سب کچھ موجودہے ، نئی نسل بھی اس سے بخوبی واقف ہے لیکن ہم ان واقعات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بچے ان سے آشنا ضرورہوں لیکن وہ ان کے اسیر نہ ہوجائیں۔ ہم ماضی کو بھولنے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو معاف کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ جاپانیوں نے امریکیوںکو معاف کردیااوروہ شیر وشکر ہوگئے۔جرمنوں نے فرانس کو معاف کردیا اور دونوں یورپی یونین کا حصہ ہیں۔آج بھی سرحدیں اپنی جگہ قائم ہیں ، ان کے قومی پرچم سربلند ہیں ۔کیا 23 مارچ کے مبارک دن ہم بھی ماضی کو فراموش کیے بنا ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا سوچ سکتے ہیں ؟