"IMC" (space) message & send to 7575

شاباش افغانستان

افغان شہری مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے صدارتی الیکشن میں بھرپور شرکت کرکے زبردست سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔لمبی لمبی قطاریں حتیٰ کہ عورتیں بچوں کو کندھوں سے لٹکائے گھنٹوں اپنی باری کی منتظر رہیں۔یہ وو ٹ محض طالبان نہیں ‘ جہالت ،قدامت پرستی اور قبائلیت کے خلاف تھا ۔ دھمکیوں اور خراب موسم کے باوجود 58فیصد شہریوں نے اگلے صدر کے لیے حق رائے دہی استعمال کرکے افغانستان کی شناخت ہی بدل دی۔اب اس ملک کی سیاست اور مباحثوں کے موضوعات ہی بدل گئے ہیں۔طالبان کے غیر سیاسی رویوں کی بدولت وہ قومی دھارے میںشامل ہونے اور مفاہمت کے ذریعے تعمیرِ وطن کا سنہری موقع کھوچکے ہیں۔
لاکھوں شہریوں کو کرائے پر ووٹ ڈالنے کے لیے لایا جاسکتاہے او ر نہ زبردستی ہانکا جاسکتاہے۔جن لوگوں نے ووٹ ڈالا وہ تبدیلی کے آرزو مند ہیں۔ جنگ وجدل سے تنگ آچکے ہیں ۔ پرامن زندگی کے متلاشی ہیں۔ الیکشن اور سیاست میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوتا۔اس کا عملی مظاہرہ افغانستان کے حالیہ الیکشن میں بھی نظر آیا۔ روایتی حریف، حلیف بن کر ابھر ے۔جمعیت اسلامی کے عبداللہ عبداللہ ،حزب اسلامی کے انجینئرمحمد خان اورہزارہ کمیونٹی کے راہنما محمد محقق نے افغان قومی اتحاد کے جھنڈے تلے الیکشن لڑا۔پشتون ،تاجک ،ازبک اور ہزارہ گروہوں کے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے پرجوش اشتراک کے ساتھ الیکشن لڑا۔
عبدالرشید دوستم نے ٹیلی وژن پر آکر قوم سے اپنے جرائم کی معافی مانگی۔رشید دوستم ایک خطرناک سیاسی رہنما تصورکیے جاتے ہیں لیکن اشرف غنی نے انہیں آمادہ کیا کہ وہ عوام کے سامنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ حکمت یار نے اپنے لوگوں کو سیاسی عمل کا حصہ بناکر فراست کا مظاہرہ کیا ۔اب اکیلے طالبان سیاسی عمل سے باہر ہوگئے ۔حزب اسلامی افغانستان تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔سب سے بڑا حصہ عبدالہادی ارغندی وال کی قیادت میں ایک رجسٹر ڈ اور منظم سیاسی جماعت ہے۔جس کے افغانستان کے 34صوبو ں میں دفاتر ہیں۔اس جماعت کے لگ بھگ ارکان پارلیمنٹ الیکشن جیتے تھے۔اس کی پانچ صوبوں میں حکومت ہے اور تین مرکزی وزارتیں بھی ہیں۔
حزب وحدت ، ہزارہ کمیونٹی کی جماعت ہے ۔جنبش ملی اسلامی کے رشید دوستم سربراہ ہیں۔اس جماعت کا تہاڑ ،بدخشان ،قندوز وغیر ہ کے ازبک علاقوں میں بڑا غلبہ ہے۔اس مرتبہ اشرف غنی کو ان علاقوں میں برتری حاصل رہی۔ حزب افغان ملت نے ڈاکٹر غنی کو امیدوار بنایا۔اس جماعت کے لوگ سخت پشتون قوم پرست تھے لیکن اب ڈاکٹر غنی نے اسے ایک وسیع البنیاد سیاسی نظریات پر منظم کیا ہے۔انہوں نے اپنے جلسوں میں کہا کہ وہ پشتون ہیں نہ تاجک بلکہ وہ ا وّل وآخر افغان ہیں۔ملک گیر سیاسی شناخت اور سرگرمیوں نے اشرف غنی کو قومی راہنما بنا کر پیش کیا۔انہیں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں میں بھی زبردست پذیرائی ملی۔اسی طرح عبداللہ عبداللہ نے پشتونوں کے مرکز قندھار سے پچاس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ایسا لگتاہے کہ افغان نسلی ،لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
حالیہ صدارتی انتخابات نے افغانستان میں بھرپور سیاسی عمل شروع کرادیا ہے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق 35 فیصد سے زائد عورتوں نے بھی ووٹ ڈالا۔حتیٰ کہ زلمے رسول نے اپنے پینل میں بامیان صوبے کی خاتون گورنر حبیبہ سروبی کو نائب صدر کا الیکشن لڑایا۔صوبائی کونسلوں میں بھی عورتوں کا کوٹہ ہے۔اشرف غنی نے افغان عورتوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متعدد پروگرام شروع کرنے کے اعلانات کیے۔الیکشن سے قبل ہی کئی ایک انتخابی اتحاد بھی بن چکے تھے ۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے پاس پچاس سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔سیاسی نظام اور سرگرمیوں کا بہت وسیع ا اور موثر انفراسٹرکچر جنم لے چکاہے۔مثال کے طور پر صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ 458ارکان صوبائی کونسل کا انتخاب ہوا۔ جن میں 2713امیدواروں نے حصہ لیا۔اگرچہ ان کونسلوں کے پاس قانون سازی یا انتظامی اختیار ات بہت محدود ہیں لیکن یہ ایوان بالا کے ایک سو دو ارکان کا انتخاب کرتی ہیں ۔اس طرح ارکان کونسل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اگلے سال پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے ہیں ۔الیکشن میں کوئی ایک شخصیت فیصلہ کن کامیابی نہیں حاصل کرسکی، اس لیے بھی دوبارہ انتخابات ہونے ہیں۔اس طرح ایک بار پھر ملک میں بھرپور سیاسی سرگرمیاں ہوں گی۔ 
ابھی تک کے نتائج کے مطابق اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اگلے ماہ دوبارہ معرکہ ہوگا۔دونوں راہنمائو ں میں ٹکر کا مقابلہ ہے۔ صدر حامد کرزئی کا حمایت یافتہ زلمے رسول بری طرح پٹ گیا۔ اب وہ جس امیدوار کی بھی حمایت کریں گے اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ پاکستان میں اس صورت حال کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جارہاہے۔پاکستان نے اچھا کیا کہ کسی گروپ یا شخصیت کی حمایت نہیں کی۔افغان خوش ہیں کہ پاکستان غیر جانبدار رہااور غیر ضروری طور پر افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔امید ہے کہ پاکستان آخری مرحلے میں بھی اسی طرح غیر جانبدار رہے گا۔
افغانستان میں جو بھی شخصیت صدارت کے منصب پر فائز ہوگی۔اس کے سامنے کئی ایک چیلنجز ہوں گے۔اگلے چند ماہ میں اسے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہد ہ پر دستخط کرنے ہوں گے۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو بحال کرنا ہوگا۔داخلی طور پر امریکیوں کے انخلاء کے بعد بہت بڑا خلاء پیدا ہوگا۔ بالخصوص مالی طور پر افغانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی سے بڑے تاجر اور کاروباری افراد کابل سے بھاگنا شروع ہوگئے ہیں۔سکیورٹی کے خطرات کے باعث بھی لوگ ملک سے نکل رہے ہیں۔امریکیوں کے نکلنے کے بعد یہ خدشات بھی ہیں کہ پاکستان ،ایران اور بھارت کے مابین مسابقت نہ شروع ہوجائے۔اگر ان ممالک نے باہمی تعاون نہ کیا تو افغانستان عدم استحکام کا شکار ہوسکتاہے۔
طالبان کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ قومی دھار ے میں شامل ہوں ۔غیرملکی افواج کا انخلاء ہورہاہے۔اس عمل کو آسان بنائیں تاکہ غیر ملکی جلدازجلد فوجی انخلاء مکمل کرسکیں۔اگلے سال پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے ہیں۔وہ اس میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں غیر ملکی افواج بھی نہیں ہوں گی اور الیکشن کے سارے عمل کو افغان احکام خود کنٹرول کررہے ہوں گے۔جو سیاسی عمل شروع ہوا ہے اس کو پھلنے پھولنے دیں۔پرتشدد کارروائیوں سے گریز کریں تاکہ نئی حکومت اپنے تمام وسائل ملکی تعمیر نو پر صرف کرسکیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں