سینئر صحافی جناب حامد میر پر ہونے والے حملے کے ردعمل میں جو فضا پیدا ہوئی اس کا غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ان عوامل کا کھوج لگانے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ آخر میڈیا کا ایک موثر طبقہ، معاشرے کے فعال طبقات اور سیاستدان اسٹبلشمنٹ کے اس قدر خلاف کیوں ہیں؟ وہ کسی بھی حادثے کو بنیاد بنا کر طوفان اٹھا لیتے ہیں۔ایسا طوفان جس میں عقل وخرد کی بات کرنے والے احمق اورقومی اداروں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑاکرنے والے ''بہادراور جری‘‘ نظرآنے لگتے ہیں۔موجودہ فضا راتوں رات پیدا نہیںہوئی بلکہ یہ لاو ا کافی وقت سے پک رہاتھا۔دنیا بھر میں بائیں بازو کے دانشور اور انصاف پسندطبقات اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔اس کی بے اعتدالیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ملک کے اندر اور باہر خفیہ اداروں کے غلط اقدامات کو بے نقاب کرکے داد پاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو قومی سلامتی کے نام پر سرکاری اداروں کو مزید اختیارات دینے کی وکالت کرتے ہیں۔تاہم جس طرح پاکستان میں رائے عامہ کا ایک موثر طبقہ ریاستی اداروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
پاکستان کی سیاست میں فوج اور خفیہ اداروں کی مداخلت کا ایک طویل پس منظر ہے۔ان کی کوکھ سے کئی ایک سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں نے جنم لیا۔مقتدر قوتوں نے ان کی آبیاری کی اور چاہتی تھیں کہ یہ ادارے اورشخصیات ان کی نظریاتی اورسیاسی حلیف ہوں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست کی ہیئت ہی بدل گئی۔ سرکاری سرپرستی میں کھڑے کیے گئے ڈھانچے اور شخصیات اپنی کشش کھونے لگیں۔بہت سارے افراد اور جماعتیں ازکار رفتہ ہوگئیں اور کچھ تیزی سے اپنی طبعی عمر پوری کررہی ہیں۔
آزاد میڈیا، سول سوسائٹی اور عالمی اداروں کے تال میل نے ریاست کی گرفت کمزور کی۔اسی اثنا میں رائے عامہ کے نقطہ نظر یا مفادات کو پالیسی سازی کے عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پرشریک کرنے پر اصرار بڑھنے لگا۔عوامی مفاد اور دلچسپی کے امور کو زیادہ سے زیادہ زیر بحث لایاجانے لگا۔سیاستدانوں کی اکثریت نے بدلتے ہوئے رجحانات کا ادراک کیا اور وہ نوجوان نسل کو متاثر کرنے والے خیالات کو زبان دینے لگے۔اس کے برعکس ہمارے بعض اداروں کی روش نہیں بدلی۔ اب بھی ان کی زنبیل کے کارگر نسخے وہی گھسے پٹے حربے ہیںبلکہ حقیقت یہ ہے کہ مقتدر قوتیں ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ گھری ہوئی ذہنیت (Siege Mentality) کا شکار ہوچکی ہیں۔انہیں اپنے چار اطراف دشمن ہی دشمن نظرآتے ہیں۔ وہ مخصوص نظریات اور خیالات سے انحراف کرنے والوں کو دشمن کا آلہ کار قراردیتی ہیں۔ پاکستان کو جیوپالیٹکس کی عینک سے دیکھتی ہیں۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت تک امریکہ کے ساتھ پاکستانی اداروں کی سخت کشمکش رہی۔ افغانستان کے خفیہ اداروں اور فوج کی تعلیم اور تربیت کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ اسے پاکستان سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔
بھارت کے ساتھ بظاہر تصادم تھم چکا لیکن بھارت میں اٹھنے والی قوم پرستی کی لہر بنیادی طور پر پاکستان مخالف ہے اور اس کی پشت پر فوج کی طاقت بھی ہے۔نریندر مودی کے برسراقتدار آنے سے مقتدرقوتوں کے نقطہ نظر کو مزید تقویت ملے گی کہ پاکستان کو چاروں اطراف سے خطرات لاحق ہیں۔عالم یہ ہے کہ بعض ممالک جو اپنے ملکوںمیں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ‘پاکستان میں فرقہ پرستوں کے مدارس اور تنظیموں کی دل کھول کر مالی معاونت کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 2009ء میں ایک ملک کی حکومت کو مطلع کیا گیا کہ ان کے سفیر اسلام آباد میںایک فرقہ پرست جماعت کے لیڈر کو کروڑوں روپے فراہم کرتے ہوئے پکڑے گئے لہٰذا انہیں واپس بلالیں بصورت دیگر انہیں ناپسندیدہ شخصیت قراردے کر ملک سے نکال دیاجائے گا۔
اس کشمکش میں سیاستدان اور جمہوری طور پر منتخب حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی نہیں۔اس کے مظاہرے اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ حامد میر پر حملے کے بعد حکومت نے جس طرح خاموشی اختیار کیے رکھی‘ اس نے حکومت کی بے بسی کو طشت ازبام کیا۔علاوہ ازیں داخلی طور پر جو نظریاتی سرحدیں کھڑی کی گئی تھیں وہ بھی بکھر رہی ہیں۔دائیں بازو کی سیاست نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے نکل چکی ہے بلکہ وہ اس کے مخالف دھڑوں کی پشت پر کھڑی نظرآتی ہے۔
عالمگیریت نے بھی ریاستی ڈھانچوں کی چولیں ہلکا کر رکھ دی ہیں۔اب کوئی بھی مسئلہ مقامی نہیں رہا بلکہ ہر معاملہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ریاستوں کا اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت کے روایتی تصورات درہم برہم ہوچکے ہیں۔پاکستان بھی ایسی ہی تکلیف دہ تبدیلیوں کے عمل سے گزررہاہے لیکن مقتدر طبقات نئے رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہوپارہے۔ انہیں ریاست ٹوٹی اور بکھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ روایتی فکر کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ا س مسئلہ کا علاج پابندیوں میں تلاش کیا جاتاہے ۔روایتی نقطہ نظر سے انحراف کرنے والوں کی ساکھ مجروح کی جاتی ہے ۔ انہیں دشمن کا ایجنٹ قراردے کر بے وقعت کردیا جاتاہے۔غیر سرکاری اداروں بالخصوص این جی اوز کو گالی دی جاتی ہے۔ان کے کاموں کی تحسین کے بجائے ان پر پابندیوں کی منادی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں جاری موجودہ کشمکش فطری ہے اور اسے ایک نہ ایک دن برپا ہونا ہی تھا۔ اس کی مزاحمت کرنے کے بجائے نئے خیالات اور سیاسی سوچ کو راستہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو بدلنے اور نئے رواج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سویلین اور دفاعی اداروں کے مابین مکالمے کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر پابندی یا ان کو ملنے والے عطیات پر روک لگانے سے ملک کی مشکلات کم نہیں بلکہ انتشار میں اضافہ ہو گا۔یہ ادارے بھی حکومت کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے اور پہلے سے کمزور ریاست کے خلاف کئی نئے محاذ کھل جائیں گے۔ان مسائل کا حل قانون کی بلاتخصیص حکمرانی میں مضمر ہے۔ہر ادارے کو قانون کا پابند بنایاجائے۔جو ادارہ یا شخصیت قانون پامال کرے‘ قانون خودبخود اس کے خلاف حرکت میں آجانا چاہیے۔
دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کی سافٹ پاور بھی ہوتی ہے۔وہ اپنی ہیبت قائم کرنے کے بجائے مکالمے اور بحث مباحثے کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی سافٹ پاور میں اضافہ کرنا چاہیے۔ طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ الجھ جاتے ہیں۔شہری اور فعال طبقات خلاف ہوجاتے ہیں اور سیاستدان لاتعلق۔ ملک میں جاری بحث کا ایک ہی سبق ہے کہ جو لوگ یا ادارے اپنے بارے میں پائے جانے والے تصورات کو بدلوانا چاہتے ہیں وہ پہلے اپنا طرزفکر بدلیں۔