"JDC" (space) message & send to 7575

زبانِ یارِ من ترکی

لگتا ہے کہ طیب اردوان کے ترکی کو کسی کی نظرلگ گئی ہے۔ ترکی نے گزشتہ عشرے میں بہت ترقی کی۔ وزیراعظم اردوان نے اپنے ہمسایہ ممالک شام اور یونان سے پرانی عداوتیں ختم کرکے دوستانہ تعلقات استوار کیے۔ کرد مسئلے کو بڑی حدتک حل کردیا۔ اسرائیلی قیادت سے دو ٹوک الفاظ میں بات کی اور فلسطینی عوام کی واضح حمایت کی۔ عرب بہار کے دنوں میں اکثر عرب نوجوانوں کے لیے ترکی ایک مثال تھا۔ اس لیے کہ ترکی میں جمہوریت قائم ودائم ہے جبکہ اکثروبیشتر عرب ممالک میں فردی یا خاندانی حکومتیں ہیں۔ ترکی کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور پچھلے دس سال میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹی میں زیرتعلیم طالب علموں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ترکی ان معدودے چند ممالک میں سے ہے جہاں آپ فخر سے اپنے آپ کو پاکستانی کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہی آپ اپنے پاکستانی ہونے کا بتائیں گے ترک فوراً بولیں گے ’’کاردیش‘‘ یعنی آپ ہمارے بھائی ہیں۔ ترکی اور برصغیر کے مسلمانوں کی محبت پاکستان سے بھی پہلے کی ہے۔ محبت کی یہ داستان تحریک خلافت سے شروع ہوتی ہے۔ پھر جب خلافت کا عہد ختم ہوا اور مصطفی کمال اتاترک نے ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی تو پنجاب کے مسلمانوں نے نعرہ لگایا: ’’غازی مصطفی کمال وے تینوں رب دیاں رکھا‘‘ اور سچ پوچھیے تو ترکی اور پاکستان میں ثقافت اور سیاست دونوں میں بے حد مشابہت پائی جاتی ہے۔ اردو لفظ بھی ترکی سے آیا ہے اور اردو زبان میں ترکی کے الفاظ بھی بہت ہیں۔ ترکی میں بھی پچھلے عشروں میں تین دفعہ فوج اقتدار پر مسلّط ہوئی اور پاکستان میں بھی۔ ترکی میں سویلین لیڈر عدنان مندریس کو پھانسی دی گئی تو پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو۔ ترکی میں تان سو جلرخاتون وزیر اعظم بنیں اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو۔ ترکی میں بھی سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ رہا ہے اور پاکستان میں بھی۔ ترکی کے سابق صدر جنرل کنعان ایوران کو کئی لوگ جنرل ضیاء الحق سے تشبیہہ دیتے تھے۔ میں تین مرتبہ ترکی گیا ہوں اور مزید جانے کی خواہش ہے۔ بہت ہی خوبصورت ملک ہے۔ استنبول کی آب وہوا معتدل ہے البتہ انقرہ میں موسم سرما میں برف باری ہوتی ہے اور اپنا وہ سفر مجھے کبھی نہیں بھولے گا جو میں نے یونان سے انقرہ تک بذریعہ موٹروے کیا۔ استنبول سے انقرہ سڑک شاندار ہے اور Black sea یعنی بحیرئہ اسود کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ترکی میں جنگلات کی بہتات ہے لہٰذا اس سڑک کے دونوں طرف درخت ہی درخت ہیں۔ استنبول کا ایک حصہ یورپ میں ہے اور دوسرا ایشیا میں۔ اس عظیم تاریخی شہر کو ایک عیسائی اور ایک مسلمان سلطنت کا دار الخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے یعنی Bazan Time Empireاور سلطنت عثمانیہ۔ استنبول میں آپ کئی دن تک گھومیں پھریں لیکن اس کے تاریخی مقام اور سحرانگیز مناظر آپ کو کبھی بورنہیں ہونے دیں گے۔ شہر کے درمیان میں سے گزرتی آبنائے باسفورس اس کے حسن کو چارچاند لگاتی ہے اور اگر شہر کی بھیڑ اور ٹریفک سے دل بھر جائے تو خوبصورت جزیرے بھی پاس ہی ہیں۔ ترکی میں ہرسال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ معاف کیجیے میں موضوع سے ہٹ گیا۔ اردگان کے ترکی کو واقعی نظر لگ گئی ہے۔ کئی دنوں سے استنبول کے معروف میدان تقسیم میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ طیب اردوان کا منصوبہ ہے کہ اس وسیع عریض چوک پر عثمانی زمانے کی طرز پر عمارتیں بنائی جائیں۔ پورے کاپورا ٹریفک زیرزمین سرنگوں سے گزرے اور میدان تقسیم صرف پیدل چلنے والوں کے تصرف میں رہے۔ اب ہوا یہ کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے چند درختوں کو کاٹنا ضروری تھا۔ ماحول کے تحفظ کے بہانے اردگان کے مخالف عناصر تقسیم چوک میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور پھر یہ آگ بھڑکتی ہی گئی اور کئی شہروں قصبوں تک پھیل گئی ہے۔ اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وزیراعظم اردوان کے مخالف کیا چاہتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اتاترک کے زمانے سے ترکی فوج اور حکومت سختی سے سیکولر رہے ہیں۔ مثلاً چند سال پہلے طیب اردوان کی صاحبزادیاں یونیورسٹی میں اس لیے داخل نہ ہوسکیں کیونکہ ان کی فیملی کی خواتین سرپر سکارف باندھتی ہیں جبکہ ترکی یونیورسٹیوں میں حجاب پر پابندی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کے وزیراعظم کو اپنی صاحبزادیوں کو امریکہ بھیجنا پڑا کیونکہ وہاں سکارف پر کوئی پابندی نہیں ۔ طیب اردوان تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اور ہردفعہ ان کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خبر یہ ہے کہ وہ ملک میں صدارتی نظام لاکر اگلے سال صدارتی انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے مخالفوں کو پتہ ہے کہ جس لیڈر نے قومی ترقی میں اتنا بڑا کردار ادا کیا ہے وہ صدر بھی منتخب ہوجائے گا۔ لہٰذا اقتدار کی کرسی پر نظر لگائے تمام لوگ ان کے خلاف ہیں۔ وزیراعظم اردوان کی مقبولیت کی میری نظر میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ان پر کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہیں لگاسکتا۔ اس لیڈر کا دامن صاف شفاف ہے۔ میدان تقسیم آبنائے باسفورس کے اس مقام سے قریب ہی ہے‘ جہاں ایشیا اور یورپ تقسیم ہوتے ہیں۔ ترکی کئی سال سے یورپین یونین کا ممبر بننا چاہتا ہے۔ لیکن سیکولر حکومت ہونے کے باوجود اسے یورپی یونین کا ممبر ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ ترکی میں اسلامی اور مغربی افکار کا تنائو عرصے سے ہے۔ ابھی پچھلے دنوں حکومت نے قانون بنایا کہ شراب کی دکانیں رات کو بندرہیں گی۔ اردوان مخالف عناصر نے کہا کہ یہ ہماری آزادی پر قدغن ہے۔ ہزاروں ترک شراب کی بوتلیں پکڑے میدان تقسیم میں جمع ہوگئے۔ مظاہرہ کرنے کا یہ انوکھا انداز تھا۔ میدان تقسیم میں جمع لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہم ترکی کو ایران نہیں بننے دیں گے یعنی ملائیت نہیں آنے دیں گے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہم ترکی کو دبی نہیں بننے دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دبی میں بلندو بالا عمارتیں تو ہیں لیکن نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی درخت۔ دبی کے درختوں کی جگہ چمک دار بلند عمارتوں نے لے لی ہے۔ ترک یہ کہہ رہے ہیں کہ میدان تقسیم کے درخت بھی نہ کاٹے جائیں اور ساحل سمندر پر بے تحاشا ہوٹل بھی نہ بنائے جائیں ۔ لیکن کواکب وہ نہیں جونظر آرہے ہیں۔ تمام اردوان مخالف لوگ ایک جگہ جمع تو ہوگئے ہیں لیکن ان کا لیڈر کوئی نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اردوان ڈکٹیٹر بن گئے ہیں‘ کوئی استعفیٰ کا مطالبہ کررہا۔ اردوان کے مخالفوں میں سابقہ فوجی بھی ہیں اور سیکولرازم کے حامی بھی۔ طیب اردوان اسلام پسند ضرور ہیں لیکن کوئی بھی انہیں ملا نہیں کہہ سکتا ۔ چند ماہ پہلے اردوان نے کہا تھا کہ میں ایک سیکولر ملک کا غیرسیکولر لیڈر ہوں۔ ترکی میں انفرادی طورپر عبادات کی آزادی ہے۔ میرے جو دوست ترکی میں کام کرچکے ہیں‘ اکثر بتاتے ہیں کہ جوعزت پاکستانی سفیر کو ترکی میں ملتی ہے وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکتی۔ ترکی پاکستان کا عظیم دوست ہے۔ اللہ ترکی کو نظر بد سے بچائے۔ ایک زمانے کے یورپ کا مردبیمار آج ترقی یافتہ ملک ہے۔ اللہ اسے مزید ترقی سے ہمکنار کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں