"JDC" (space) message & send to 7575

مصر کی صورتحال ا ور عالم اسلام

مصر میں سیاسی اسلام اور جمہوریت دونوں ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئے ہیں۔ مختلف اسلامی ممالک میں ردعمل بھی ملاجلا ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات نے فوجی مداخلت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ترکی نے شدید تنقید کی ہے بلکہ وزیراعظم ایردوان نے مغربی ممالک کے مصلحت آمیز دوغلے معیار کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ حکومت پاکستان نے انتہائی محتاط رویّہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مصر کا اندرونی معاملہ ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد بے حد خوش ہیں اور فرمایا ہے کہ سیاسی اسلام کا تجربہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ دین اور ریاست ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور تو اور صدیوں پرانی اسلامی یونیورسٹی جو کہ قاہرہ ہی میں واقع ہے اس نے بھی فوجی مداخلت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ الازہر جیسی دانش گاہ کو بھی اسلامی حکومت اچھی نہیں لگی۔ کیا اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ یہ ایک پرانی بحث ہے۔ عہد جدید میں احیائے اسلام کی تحریکیں اس وقت منظم ہوئیں جب پہلی جنگ عظیم کے بعد عرب دنیا کی استعماری تقسیم کی گئی۔ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کا عمل شروع ہوا۔ مصر میں اخوان المسلمین کی داغ بیل 1926ء میں حسن البنا کی قیادت میں ڈالی گئی۔ عشروں تک یہ تنظیم پابندیوں کا شکار رہی۔ اس کے لیڈر سید قطب 1966ء میں تختۂ دار پر لٹک گئے۔ یہ تنظیم بے حد سخت جان ثابت ہوئی۔ 2012ء میں اسی تنظیم سے متعلق ڈاکٹر محمد مرسی صاف شفاف انتخاب کے ذریعے عہدۂ صدارت پر فائز ہوگئے۔ آپ کو علم ہوگا کہ القاعدہ کے لیڈر ڈاکٹر ایمن الظواہری کا تعلق بھی مصر سے ہے۔ ا پنی ابتدائی سیاسی زندگی میں وہ اخوان کا حصہ تھے۔ پھر اخوان کے دو دھڑے بنے۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری اور ان کے رفقا کا خیال تھا کہ اسلامی انقلاب پرامن جدوجہد سے نہیں آسکتا جبکہ اخوان کی اکثریت کا موقف تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ عالم اسلام میں اخوان اور جماعت اسلامی جیسی جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوتوں کا ظہور میرے نزدیک ایک مثبت پیش رفت تھی۔ اس لیے کہ اسلامی سیاسی قوتیں سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہورہی تھیں۔ علامہ اقبال بھی جمہوریت کے داعی تھے اور اپنے لیکچرز میں علامہ نے وضاحت اور صراحت سے اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کی منتخب کردہ پارلیمان کو اقتدار اعلیٰ کا مظہر قرار دیا ہے۔ مثلاً برادر ملک ایران میں جمہوریت ہے لیکن روحانی پیشوا کو پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔ علامہ اقبال مسلم علما کو مشورے کا حق ضرور دیتے ہیں لیکن ویٹو کا اختیار نہیں دیتے۔ وہ سلطانی جمہور پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی سلطانیٔ جمہور پر مصری فوج نے پچھلے دنوں بہت بڑا حملہ کیا ہے۔ ترکی، مصر اور پاکستان میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ تینوں ممالک میں افواج عددی لحاظ سے بڑی ہیں اور قومی مفاد کے بارے میں مخصوص نقطۂ نظر بھی رکھتی ہیں۔ تینوں ممالک میں فوج کی حکومت بھی رہی ہے۔ اس طرح افواج کی ایک سیاسی سوچ بھی بن گئی ہے۔ جب سیاسی قوتیں اس سیاسی سوچ سے انحراف کرنے کی جسارت کرتی تھیں تو مارشل لاء لگ جاتا تھا۔ تینوں ممالک میں سیاسی قیادت کمزور تھی۔ اب کافی عرصے کے بعد ترکی میں مضبوط سیاسی قیادت ابھر رہی ہے۔ سول ملٹری تعلقات تینوں ممالک میں حساس نوعیت کے ہیں۔ ابھی چند سال سے پاکستان میں ملٹری بجٹ پر پارلیمانی کمیٹی میں کچھ بحث ہونے لگی ہے۔ مصر میں فوج بہت طاقت ور ہے۔ صدر مرسی کو فوج کی یہ بات ماننا پڑی کہ فوجی اخراجات اور مراعات پر برلمان میں بحث نہیں ہوگی۔ پچھلے دو تین عشروں میں اسلام کی دو صورتیں واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔ ایک ہے عسکری اسلام اور دوسرا سیاسی اسلام۔ ایک تیسری قسم جو کافی عرصے پہلے وجود میں آئی تھی وہ ہے غیر سیاسی اسلام جس پر تبلیغی جماعت عمل پیرا ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کونسا اسلام بہتر ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سیاسی اسلام کا راستہ غیر جمہوری طریقے سے روکا جائے تو نتائج منفی نکلتے ہیں جیسا کہ الجزائر میں ہوا۔ سیاسی اسلام کو جبر سے ختم کیا جائے تو وہ یا انڈر گرائونڈ چلا جاتا ہے جیسا کہ مصر میں ساٹھ ستر سال اخوان کی صورت حال رہی یا پھر وہ ایمن الظواہری والا اسلام بن جاتا ہے۔ صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر مصر کو تصادم کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے اور یہ غیر یقینی صورتحال کچھ عرصہ قائم رہے گی۔ میرے خیال میں سیاسی پختگی کے لحاظ سے پاکستان اب مصر سے کافی آگے ہے۔ ہمارے ہاں پیپلزپارٹی حکومت کو پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع دیا گیا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ بہت سارے ادارے اور لوگ اس حکومت کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے۔ ووٹ کے ذریعہ حکومت بدلنے کی روایت جو پاکستان میں حال ہی میں قائم ہوئی ہے وہ شاندار روایت ہے۔ دراصل برصغیر میں 1937ء سے انتخابات ہونے شروع ہوگئے تھے جبکہ مصر فرعونی عہد سے لے کر 2012ء تک یا بادشاہوں کے تسلط میں رہا یا فوجی آمروں کے۔ وہاں جمہوریت کی جڑیں خاصی کمزور ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں مختلف مسالک کے لوگ رہتے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ بھائی کافی بڑی تعداد میں ہیں۔ ایران میں سنی موجود ہیں۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبہ میں دمام اور قطیف کے علاقے میں اثنا عشری آبادی ہے۔ لبنان میں اہل تشیع، اہل سنت سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ یہی صورت حال بحرین میں بھی ہے۔ مصر میں دس فیصد عیسائی ہیں۔ لبنان میں تقریباً آدھی آبادی عیسائی ہے۔ لہذا اسلامی قانون سازی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تمام مسالک اور مذاہب کی رضا مندی سے قانون سازی ہو اور بحث اور شوریٰ کا بہترین فورم پارلیمان ہی ہے۔ طاقت کے زور پر کسی خاص مسلک کے اعتقادات کو ساری آبادی پر مسلط کرنا دانش مندی نہیں۔ مصر میں یہ بات بھی واضح ہے کہ افواج اور عدلیہ میں پرانی سوچ کے لوگ موجود ہیں۔ انہیں صدر مرسی کا صدر منتخب ہونا اچھا نہیں لگا اور ایک ہی سال میں انہیں چلتا کیا۔ لیکن یہ سارے کا سارا عمل مصر اور عالم اسلام کے لیے امید افزا نہیں۔ عرب بادشاہتیں خوش ہیں کہ عرب سپرنگ یعنی بہار کا شور ختم ہوا۔ اس لحاظ سے مصر میں جو کچھ ہوا ہے وہ عرب عوام کی شکست ہے۔ جمہوری اقدار کی پسپائی ہے۔ جب فیصلے بندوق کے زور پر کیے جائیں تو قانون کی بالادستی ختم ہوجاتی ہے۔ افریقی یونین (A.U) نے مصر کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے لیکن میرے خیال میں اسلامی تنظیم او آئی سی میں ایسی صورتحال نہیں ہوگی۔ اسلامی ممالک کے حکمران اکیسویں صدی میں داخل ہی نہیں ہونا چاہتے لیکن انہیں اس بات کا بھی ادراک کرلینا چاہیے کہ عوام اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے مشتاق ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے صورت حال یکسر تبدیل کر دی ہے اور مصر اسلامی دنیا میں مسلمہ اہمیت رکھتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ مصر میں تین جولائی کو آنے والی تبدیلی آخری تبدیلی نہیں ع ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں