"JDC" (space) message & send to 7575

سول ملٹری تعلقات

حال ہی میں ترکی کے ایک سابق آرمی چیف کو منتخب حکومت کے خلاف سازش کے جرم میں عمر قید کی سزاسنائی گئی۔ جی ہاں یہ وہی ترکی ہے جہاں 1960ء سے لے کر 1997ء تک چار مرتبہ مارشل لالگا۔ یعنی اس معاملے میں ترکی پاکستان کو بھی مات دے گیا۔ ایک اور اہم اسلامی ملک مصر ہے جہاں جمہوریت کو صرف ایک سال کے لیے ہی برداشت کیا گیا اور وہ بھی بڑی مشکل سے۔ وہاں جنرل عبدالفتاح السیسی بادشاہ گر ہیں۔ تیسرا اہم اسلامی ملک پاکستان ہے۔ جہاں جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلنے کا امکان ہے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی کے فلور پر اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں۔ لیکن پھر بھی بہت سارے لوگوں کو نواز شریف کی بات کا یقین نہیں آرہا۔ نہ جانے کیوں؟ تو چلیں پہلے ترکی کی بات ہوجائے۔ وہاں 2002ء سے منتخب حکومت قائم ہے۔ اس عرصہ میں اقتصادی ترقی کی شرح خاصی اچھی رہی۔ دوسرے یہ کہ وزیر اعظم طیب اردوان کی ایمانداری کا ہرکوئی معترف ہے چونکہ سویلین حکومت کی اخلاقی ، قانونی اور عوامی پوزیشن مضبوط ہے اس لیے وہ اس پوزیشن میں ہے کہ جرنیلوں کو عدالت میں لاسکے۔ ابھی اگلے ماہ جنرل ایورن کے بارے میں عدالتی فیصلہ متوقع ہے۔ یادش بخیر جنرل کنعان ایورن آنجہانی جنرل ضیاء الحق کے ہم عصر تھے اور دونوں جرنیلوں میں گاڑھی چھنتی تھی باوجود اس بات کے کہ سیاست میں مذہب کے عمل دخل کے بارے میں ان کے خیالات متضاد تھے۔ ان تینوں ممالک کی افواج کی سوچ میں ایک مماثلت نظر آتی ہے اور وہ ہے اندرونی حالات کے بارے میں ایک مخصوص سوچ۔ تینوں ممالک کی افواج کا یہ عقیدہ تھا کہ اندرونی حالات کی اصلاح بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ لیکن اب ترکی میں تو سوچ کافی حدتک بدل چکی ہے اور پاکستان میں بھی بدل رہی ہے۔ پاکستان کی سول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں زیادہ ترتنائو کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں جنرل گل حسن اور ایئرمارشل رحیم خان کو یہ کہہ کر نکالا کہ سیاسی مقاصد رکھتے تھے گو کہ یہ بات پوری طرح شواہد سے ثابت نہیں ہوسکی لیکن جلد ہی دونوں کو سفیر بنادیا گیا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے 1998ء میں نیشنل سکیورٹی کونسل کی تجویز پیش کی تو نواز شریف نے انہیں فوج چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ حالانکہ جنرل کرامت کی تجویز بری نہیں تھی۔ لیکن شاید وزیراعظم کو یہ بات پسند نہ آئی کہ یہ تجویز ایک کھلے فورم میں ان کی پیشگی اطلاع کے بغیر دی گئی تھی۔ پھر نواز شریف نے جنرل مشرف کو تبدیل کرنا چاہا لیکن اس دفعہ فوج ایک اور سبکی برداشت کرنے کو تیارنہ تھی۔ بعد میں جوکچھ ہوا وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ فوجی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر سویلین کنٹرول ضروری ہے لیکن اس مقصد کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنا چاہیے۔ پاکستان میں آج کل وزیر دفاع کا قلمدان بھی وزیراعظم کے پاس ہے۔ ہمیں ہمہ وقت وزیردفاع کی اشد ضرورت ہے جو دفاعی امور پر عبوررکھتا ہو۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ جناب علی احمد تالپور سے لے کر چودھری احمد مختار تک سب وزیر دفاع اس اہم وزارت کے امور سے اچھی طرح واقف نہ تھے ایسی صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیکرٹری دفاع جو کہ عام طورپر ریٹائر جنرل ہوتا ہے زیادہ اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ سیکرٹری دفاع فوج سے ہی ہو۔ یہ کام سلیم عباس جیلانی اور کامران رسول بڑے احسن طریقے سے کرچکے ہیں۔ آپ سول ملٹری تعلقات کو پیپلزپارٹی کے آخری دور میں دیکھیں تو عدم اعتماد کی فضا کئی موقعوں پر نظر آئی خواہ وہ ریمنڈڈیوس کا معاملہ ہو یا میمو گیٹ کا۔ کیری لوگر بل کی شرائط پر بحث ہویا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے تعاقب میں امریکی جارحیت۔ یوں لگتا تھا کہ سول اور ملٹری ادارے مختلف سمتوں میں سفر کررہے تھے اور یہ سب اس دور میں ہوا جب فوجی قیادت خاصی حدتک سویلین حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار تھی۔ بہرحال اسامہ بن لادن کس طرح سات سال ہمارے ملک میں رہا اس کا تسلی بخش جواب شاید ہمیں ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں بھی نہ ملے۔ اب تک جو ڈرافٹ رپورٹ ہمیں الجزیرہ کے توسط سے ملی ہے اس میں گول مول باتیں ہیں۔ البتہ سابق سفیر اشرف جہانگیر کے اختلافی نوٹ کا مجھے انتظار ہے۔ سول اور ملٹری قیادت میں قومی سلامتی کے امور پر ہم آہنگی ضروری ہے اور جمہوریت میں اس موسیقی کا بینڈ ماسٹرصرف وزیراعظم ہوتا ہے۔ کئی دفعہ مسلح افواج اور معلومات اکٹھا کرنے والی ایجنسیاں یہ دلیل پیش کرتی ہیں کہ ان کا بجٹ اور سرگرمیاں حساس نوعیت کی ہیں لہٰذا پارلیمنٹ میں بحث قومی سلامتی کے خلاف ہے۔ برطانیہ نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی انتہائی سینئر ممبران پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی نامزدگی وزیراعظم کرتا ہے۔ اس کمیٹی کا دفتر پارلیمنٹ سے باہر ہوتا ہے ہر ممبر سے قومی رازوں کو افشا نہ کرنے کا حلف لیا جاتا ہے یہ کمیٹی پارلیمنٹ کی بجائے اپنی رپورٹیں براہ راست وزیراعظم کو بھیجتی ہے۔ جنرل مشرف کا آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بڑی حدتک پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کا تعین کرے گا۔ عام رائے یہ ہے کہ یہ مقدمہ چلنا چاہیے مگر جنرل صاحب کو اپنے دفاع کا مکمل حق ہونا چاہیے۔ فیصلے میں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر چند سال بھی لگ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمیں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی کمیٹیاں جو دفاع اور قومی سلامتی کے بارے میں ترتیب پائیں وہ محنت کرکے دفاعی امور پر عبور حاصل کریں۔ ریسرچ کرنے کے لیے ان کے پاس پڑھے لکھے نوجوانوں کا سٹاف ہونا چاہیے ۔ جب سویلین ادارے فعال ہوں گے تو وہ جرنیلوں سے اعتماد سے بات کرسکیں گے اور جب ہماری افواج کافوکس صرف اور صرف بیرونی خطرات پر ہوگا تو افواج کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ ایسی مضبوط فوج ناگزیر حالات میں اندرونی شورش اور جارحیت کا بھی ڈٹ کر مقابل کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں