"JDC" (space) message & send to 7575

شام اور کیمیائی ہتھیار

لیجئے‘ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار رکھنے کا تو اعتراف کرلیا لیکن وہ اس بات سے اب بھی انکاری ہے کہ غُوطہ کی آبادی پر 21اگست کو ان ہتھیاروں کی بارش حکومتی فوج نے کی۔ شامی ارباب اختیار کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار باغی فوج نے استعمال کیے ہیں تاکہ بیرونی مداخلت کا جواز پیدا ہوسکے۔ شامی حکومت کا یہ استدلال خاصہ کمزور ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ روس اس بودی منطق کی حمایت کررہا ہے۔ پچھلے ہفتے صدر اوباما نے شام کے مسئلے پر خصوصی تقریر کی اور لگ رہا تھا کہ امریکہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے شام پر حملہ کرنے ہی والا ہے۔ امریکی دھمکی کا اتنا فائدہ تو ہوا کہ روس نے شامی لیڈروں سے ان مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کا اعتراف کرالیا اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا کہ شامی حکومت ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس صورت حال میں امریکی حملے کا جواز تقریباً ختم ہوگیا۔ ویسے اس مرتبہ امریکہ خود شام پر حملے کے بارے میں خاصہ متذبذب تھا۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں کے بعد اب امریکی عوام بیرونی مداخلت اور مہم جوئی کے خلاف ہیں۔ وہ اپنی اقتصادی حالت ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ صدر اوباما کو پہلا جھٹکاتو اس وقت لگا جب برطانوی پارلیمنٹ نے شام پر حملے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔ ادھر اقوام متحدہ میں روس اور چین بھی حملے کے خلاف تھے۔ انہیں لبیا کا تلخ تجربہ یاد تھا۔ امریکی اور مغربی ایجنسیاں جو شامی باغیوں سے رابطے میں رہتی ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ القاعدہ شام میں سرگرم عمل ہے اور بشارالاسد کی حکومت کے جانے کے بعد شدت پسند اسلامی عناصر دمشق میں اقتدار سنبھال سکتے ہیں۔ امریکہ کی اپنی رائے عامہ بہت ہی منقسم تھی چنانچہ صدر اوباما پر کانگریس نے یہ پابندی لگائی کہ اگر حملہ کرنا بھی ہے تو وہ بہت مختصر ہوگا اور نوے دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یہ کہ امریکی فوج شامی سرزمین پر پائوں نہیں رکھے گی۔ امریکی غبارے سے رہی سہی ہوا روس نے کمال مہارت سے نکال دی۔ ا س سلسلے کی تازہ ترین ڈویلپمنٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی وہ رپورٹ ہے جس میں وثوق سے کہا گیا ہے کہ غُوطہ میں کیمیائی ہتھیار واقعی استعمال ہوئے ہیں۔ اس حملے میں تقریباً پندرہ سو لوگ مارے گئے تھے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ غُوطہ دمشق کے نواح میں ایک گائوں ہے جس کے اردگرد سیب‘ خوبانی‘ آڑو اور آلو بخارے کے باغات ہیں۔ موسم بہار میں جب غُوطہ کے باغات میں پھول کھلتے ہیں تو دمشق کے لوگ پکنک منانے جوق درجوق چلے آتے ہیں۔ دمشق میں قیام کے دوران میں خود کئی مرتبہ وہاں جاچکا ہوں۔ شام کے شہروں کی بیشتر آبادی چونکہ فلیٹوں میں رہتی ہے لہٰذا وہاں موسم گرما میں پکنک کا رواج عام ہے۔ چند ہفتے پہلے جب کیمیائی حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے معصوم چہرے ٹی وی سکرین پر دیکھے تو مجھے غُوطہ کے خوبصورت پھول یادآگئے ۔ شامی بچے بھی پھولوں کی مانند بہت ہی پیارے ہوتے ہیں ۔ شامی حکومت کے صاف انکار کے باوجود یہ بھیانک جرم اسی کا کیا دھرا لگتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یواین کے انسپکٹرز کو جائے وقوعہ پر جانے سے روکا گیا کہ وہاں شدید خطرہ ہے۔ لیکن یہ لوگ بضد رہے کہ ہم ہرصورت جائیں گے۔ انہیں وہاں صرف چند گھنٹوں کے لیے شامی حکومت کے کارندے لے کر گئے۔ اس عرصہ میں ان لوگوں نے بڑی مہارت سے زمین کے نمونے لیے۔ مرنے والوں کی تصویریں اکٹھی کیں۔ جسمانی اعضا خون اور بالوں سے نمونے لیے اور اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ زہریلی گیس سارین جوکہ انسانی اعصاب کو آناً فاناً تباہ کردیتی ہے واقعی استعمال ہوئی ہے۔ شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی کنونشن کا حصہ نہیں یعنی اس نے اب تک اس قانون پر دستخط نہیں کیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے یہ مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی آزادی ہے۔ بین الاقوامی مبصر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گیس سے بھرے میزائل تاسیون کے پہاڑ سے چلائے گئے جوکہ شامی حکومت کے قبضے میں ہے۔ تاسیون کے پہاڑ سے غُوطہ کا فاصلہ تیس کلومیٹر سے زیادہ نہیں۔ پہاڑ شہر کے ایک جانب ہے اور وہاں حکومتی فوج کی ایک ڈویژن موجود ہے۔ غُوطہ کی بیشتر آبادی باغیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے اکثر نوجوان یا حکومت کی قید میں ہیں یا دوسرے علاقوں میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا باغی فوج یہ حماقت کرسکتی ہے کہ اپنی ہی خواتین اور بچوں کو سینکڑوں کی تعداد میں موت کی نیند سلادے۔ شام پر متوقع امریکی حملے کا صدر بشارالاسد کو بہت سیاسی فائدہ ہوا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شامی حکومت کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں ۔ یہ غالباً اس وجہ سے ہوا ہے کہ پاکستانی عوام اور میڈیا کو شام کی بعثی حکومت کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ 1980ء میں حما کے شہر میں حافظ الاسد نے ہزاروں لوگوں کو محض اس لیے قتل کروادیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کے حامی تھے۔ بعث پارٹی جمہوریت کا نام لیتے نہیں تھکتی لیکن جب حافظ الاسد کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے بشار کو تخت پر بٹھا کر خاندانی اور موروثی اقتدار کو جمہوریت پر ترجیح دی گئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1982ء میں یاسر عرفات کو لبنان سے نکالنے میں شامی حکومت کا اہم رول تھا۔ شامی حکومت کی اس کارروائی سے فلسطین کے مسئلے کو شدید دھچکا لگا۔ شامی حکومت نے پچیس سال سے زائد عرصے تک لبنان میں اپنی فوج رکھی لیکن اسرائیل کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ عرب ممالک کی اکثریت بشارالاسد کی حکومت سے خاصی متنفر ہے اور عرب لیگ میں شام کی موجودہ حکومت کی رکنیت معطل ہے اور یہی صورت او آئی سی میں بھی ہے۔ امریکی حملے کو ٹالنے کے لیے شامی حکومت کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔ سکیورٹی کونسل اس سلسلے میں ایک قرارداد بھی تیار کررہی ہے۔ لیکن کئی مبصرین کا خیال ہے کہ شامی حکومت تمام کیمیائی ہتھیار تلف نہیں ہونے دے گی۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ بشارالاسد کی حکومت ان ہتھیاروں کے محل وقوع کے بارے میں معلومات صحیح طرح سے بین الاقوامی انسپکٹرز کو نہ دے اور انہیں چکر دینے میں کامیاب ہو جائے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ شام کے پاس ایک ہزار ٹن کیمیائی ہتھیار ہیں اور اُس کی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ 2014ء تک یہ ہتھیار تلف کردیئے جائیں گے۔ روس نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ اگر شامی حکومت نے وعدہ کی پاسداری نہ کی تو اس کے خلاف یواین چارٹر کے باب ہفتم کے تحت کارروائی ہوسکے گی۔ باب ہفتم میں طاقت کے استعمال کے ذریعہ اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جاسکتا ہے۔ پھر بھی عام رائے یہ ہے کہ امریکہ اور روس مل کر بھی ایک سال کے عرصہ میں ہتھیاروں کے اتنے بڑے ذخیرے کو تلف نہیں کرسکیں گے۔ تو جناب شامی حکومت کے ہاتھوں پر غُوطہ کے پھول جیسے معصوم بچوں کا خون نظر آرہا ہے لیکن وہ اب بھی جرم کی صحت سے انکاری ہے۔ اب اتنا اقرار ضرور کیا ہے کہ کیمیائی ہتھیار حکومت کے پاس موجود ہیں۔ یواین کی رپورٹ نے اس بات کا تعین نہیں کیا کہ ہتھیار کس نے استعمال کیے کہ یہ بات یو این انسپکٹرز کے حیطۂ اختیار میں شامل نہ تھی۔ لیکن شامی باغیوں کو یہ مہلک ہتھیار کہاں سے ملے اس کے بارے میں بشارالاسد کی حکومت خاموش ہے۔ کیا حماسے لے کر غُوطہ تک کے جرائم کے بعد بھی بشار کو حکومت کرنے کا حق ہے۔ کیا ایک لاکھ شہریوں کو قتل کرنے والی حکومت کو قائم رہنا چاہیے۔ زبان خنجر تو خاموش ہے لیکن شامی حکومت کی آستین پر خون صاف نظر آرہا ہے اور مجھے یقین کہ غُوطہ کے پھول جیسے معصوم بچوں کا خون ضرور رنگ لائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں