"JDC" (space) message & send to 7575

ایک اچھی خبر

مبارک ہو کہ پاکستان میں اس سال کرپشن پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پوزیشن بارہ درجے بہتر ہوئی ہے لیکن بہت زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ پاکستان کا شمار اب بھی دنیا کے اُن دو تہائی ممالک میں ہوتا ہے جہاں کرپشن خاصی عام ہے۔ صومالیہ اور افغانستان دنیا کے کرپٹ ترین ممالک شمار کیے گئے ہیں جبکہ ڈنمارک اور نیوزی لینڈ سب سے ایمان دار گردانے گئے ہیں۔ 
کرپشن صرف رشوت لینے یا دینے کا نام نہیں ہے۔ جب کوئی برسر اقتدار حکومت انتخاب میں دھاندلی کراتی ہے تو وہ بھی کرپشن ہے۔ جب کوئی وزیر یا ایم این اے اپنے بھتیجے بھانجے کو میرٹ کو پامال کر کے نوکری دلواتا ہے تو وہ بھی کرپشن ہے۔ جب سرکاری انجینئر ناقص بنے ہوئے پل کو عین معیار کے مطابق قرار دیتا ہے تو وہ بھی کرپشن ہے۔ کمیشن اور کک بیک تو صریحاً کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں۔ 
کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے سے پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل مختلف ذرائع سے معلومات جمع کرتی ہے۔ ورلڈ بینک کے نمائندوں کی رائے لی جاتی ہے۔ حکومتی سطح پر شفافیت کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر کسی فرد یا ادارے پر کرپشن کا الزام لگ جائے تو اس کا محاسبہ ہوتا ہے یا نہیں۔ عدالتی نظام اور نگہبانی کے ادارے مثلاً محتسب اور آڈیٹر جنرل کس حد تک کرپشن کو روکنے میں کامیاب ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر ہر ملک کو نمبر دیئے جاتے ہیں اور ایمانداری میں پاکستان کے نمبر اب بھی پچاس فیصد سے کم ہیں۔ یہ امر ہمارے لیے باعثِ تشویش ہونا چاہیے کہ نام کے اعتبار سے یہ پاک دھرتی ہے۔ 
کرپشن عام طور پر ایسے ملکوں میں پھلتی پھولتی ہے جہاں حکومت بے حد کمزور ہو مثلاً صومالیہ اور افغانستان۔ لیکن لطف کی بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شمالی کوریا بھی شامل ہے جہاں حکومت سیاہ و سفید کی مالک ہے اور بے حد طاقت ور ہے۔ انگریزی کے ایک محاورے کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ اقتدار انسان کو کرپٹ کرتا ہے اور مکمل اقتدار مکمل طور پر کرپٹ کرتا ہے۔ جہاں نکیل ڈالنے کا بندوبست نہ ہو وہاں شتر بے مہار لامحالہ زیادہ ہوں گے۔ شمالی کوریا کے لیڈر اور سرکاری افسر ضرورت سے زیادہ مقتدر ہیں۔ نہ عدلیہ آزاد ہے اور نہ میڈیا لہٰذا بازپُرس کرنے والا کوئی نہیں۔ ڈکٹیٹر شپ واقعی کرپشن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ 
اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ گزشتہ چھ ماہ میں ہمارا ملک پاک پوتر ہو گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد کوئی بڑا کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ غضب کرپشن کی عجب کہانیاں خاصی کم ہو گئی ہیں۔ یادش بخیر پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی قیوم جتوئی نے ایک ٹی وی پروگرام میں برسرعام کہا تھا کہ برسراقتدار پارٹی کو کرپشن کا حق حاصل ہے۔ اینکر پرسن حیران رہ گیا۔ اُس نے اپنے سوال کا اعادہ کیا اور قیوم جتوئی صاحب نے وہی جواب دیا۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو حکومت ہل جاتی مگر وطنِ عزیز میں نہ قیوم جتوئی کا بال بیکا ہوا اور نہ ہی حکومت کو کچھ ہوا۔ 
اب یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ والے فرشتے ہیں۔ ایس آر او کا غلط استعمال لوگوں کو یاد ہے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکے ہوئے تو لوگوں کے ڈالر اکائونٹ منجمد کر دیئے گئے۔ افواہ گرم تھی کہ فیصلے سے قبل چند با اثر لوگوں نے بینکوں سے اپنے تمام ڈالر نکلوا لیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ایسے تمام لوگوں کی تفصیل شائع کر دے جنہوں نے 1998ء میں اپنے ڈالر اکائونٹس پر جھاڑو پھیرا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ پیپلز پا رٹی کے الیکشن میں حشر کے بعد مسلم لیگ محتاط ضرور ہو گئی ہے۔ 
اور اب کرپشن کے حوالے سے ان ملکوں کا ذکر ہو جائے جہاں میں نے کام کیا ہے۔ سنٹرل ایشیا میں کرپشن کا مرض عام ہے۔ میرے زمانے کا دو شنبے کچھ سہما سہما سا لگتا تھا۔ ملک خانہ جنگی سے نکلا تھا۔ لوگ سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے لیکن مافیا سے ڈرتے تھے کہ کاروبار چل نکلا تو بھتہ مانگنے والے آ جائیں گے اور انکم ٹیکس والے بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ لہٰذا کاروبار ٹھپ پڑا تھا۔ یہاں یہ بھی جان لیجیے کہ بھتہ مافیا کراچی والوں کی ایجاد نہیں ہے۔ دو شنبے کی پولیس بھی کراچی کی پولیس کی طرح کمزور تھی۔ 
دو شنبے سے 1997ء میں میں رنگون چلا گیا۔ میانمار‘ جس کا معروف نام برما ہے‘ جرنیلوں کے مکمل قبضے میں تھا۔ یہاں بھی کرپشن عام تھی۔ جرنیلوں اور ان کے ساتھ ملے ہوئے سرکاری افسروں کے وارے نیارے تھے۔ ان کا محاسبہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ میڈیا مکمل طور پر حکومت کے شکنجے میں تھا۔ برما وسائل سے مالا مال تھا لیکن کرپشن کی وجہ سے غربت کے سائے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ کرپشن غریبوں کو غریب تر کر دیتی ہے اور دولت کو معدودے چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیتی ہے۔ کرپشن معاشرے کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ آج کی دنیا میں اس کی واضح مثال نائیجیریا ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے پس ماندہ ہے۔ 
برما کے بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ جمہوریت آنے سے وہاں کرپشن میں کمی آئی ہے۔ میں یونان میں چار سال رہا۔ وہاں کرپشن عام تھی لیکن یورپی یونین نے یونان کے داخلے سے پہلے یہ شرط لگائی تھی کہ معیشت میں لکھت پڑھت (Documentation) لائی جائے۔ اس قدم سے کرپشن میں خاصی کمی آئی۔ 
اس سال کے شروع کی بات ہے کہ ہندوستان کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ اسلام آباد آئے۔ جناح انسٹیٹیوٹ والوں نے ان کا لیکچر کرایا۔ موضوع تھا 'عوام کی سرکاری معلومات تک رسائی‘۔ کہنے لگے کہ دہلی کے قریب غریبوں کی بستیاں ہیں۔ وہاں سڑکیں ہر سال بارش سے بہہ جاتی تھیں‘ چنانچہ ہر سال نئی سڑکیں بنتی تھیں۔ ٹھیکے داروں کے بھی وارے نیارے تھے اور سرکاری افسروں کے بھی۔ وہاں کے عوام میں اس بات کا شعور آیا کہ سرکاری ٹھیکوں کی معلومات حاصل کرنا ان کا حق ہے۔ چنانچہ عوام کی طرف سے مطالبہ آیا کہ آئندہ سڑک بنے تو ہمیں دکھایا جائے کتنی بجری استعمال ہوئی ہے اور کتنی کول تار۔ چنانچہ سڑکوں کی حالت بہتر ہو گئی۔ 
پاکستان میں بھی معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے لیکن حکومتی ادارے اکثر ہاتھ پلّہ نہیں پکڑاتے۔ قانون سے استثنیٰ کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔ شفافیت ازبس ضروری ہے۔ ٹیکس دینے والوں اور قرض نادہندگان کی تمام معلومات انٹرنیٹ پر ہونی چاہئیں۔ ہمارے لیڈر کتنا انکم ٹیکس دیتے ہیں‘ اس کی معلومات تو میڈیا میں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ اب یہ بھی پتہ چلنا چاہیے کہ کون کتنا پراپرٹی ٹیکس دیتا ہے۔ لیڈروں کی ملک سے باہر جائیداد کی تفصیل جاننا بھی ضروری ہے۔ ابھی ہمارے ملک کو صحیح معنوں میں پاکستان بننے میں وقت لگے گا لیکن چلیں ایک اچھی خبر تو آئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں