"JDC" (space) message & send to 7575

وادیٔ فرغانہ کی سیر

وادیٔ فرغانہ دیکھنے کا مجھے ایک زمانے سے شوق تھا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کی جائے پیدائش اندی جان فرغانہ ویلی میں ہے۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ موسم بہار اور گرما میں وادی کا قدرتی حسن قابل دید ہوتا ہے اور ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چلا کہ فرغانہ کے لوگ لوکل اسلامی تحریک میں پیش پیش ہیں۔ جنوری 1995ء میں دوشنبے میں تاجک صدر کو اسناد پیش کیں تو سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ اب فرغانہ جانا ممکن ہو گیا تھا بلکہ تاجکستان کا شمالی شہر خوجند‘ جو دریائے سیر Seer کے کنارے واقع ہے‘ یوں سمجھ لیں کہ وادیٔ فرغانہ کا دروازہ ہے۔ 
خوجند اُن شہروں میں سے ایک ہے جنہیں سکندر اعظم نے آباد کیا تھا۔ ہمسایہ ملک ازبکستان میں میرے محترم دوست جناب شفقت علی شیخ سفیر تھے اور انہیں تاشقند میں چند سال ہو چکے تھے۔ بہت ہردلعزیز سفیر تھے۔ کیا سرکاری افسر اور کیا عام شہری ہر ازبک انہیں جانتا تھا۔ شیخ صاحب کی شخصیت اور محنت سے ازبکستان میں پاکستان کا نام روشن ہوا‘ ورنہ سوویت یونین کے زمانے میں تو یہ خیال عام تھا کہ برصغیر کا اصل متمدن ملک صرف اور صرف بھارت ہے جبکہ پاکستان جہالت پس ماندگی اور شدت پسندی کا گھر ہے۔ دوشنبے میں قدم جمانے کے بعد میں نے شیخ صاحب سے وادیٔ فرغانہ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ فرغانہ کا بیشتر حصہ ازبکستان میں ہے۔ شیخ صاحب کے فرغانہ کے تمام اہم لوگوں کے ساتھ ذاتی مراسم تھے۔ اب ایک مشکل یہ تھی کہ سفیر سرکاری کار اپنے ہی ملک میں استعمال کر سکتا ہے۔ اس کا حل بھی شفقت صاحب نے نکال دیا۔ کہنے لگے تم خوجند والے بارڈر پر آ جانا‘ میں وہاں سے تمہیں لے لوں گا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ایک تو فرغانہ کی سیر اور دوسرے شفقت صاحب کی دو روز کی مصاحبی۔ موصوف اسم بامسمیٰ ہیں اور دوستوں پر خوب شفقت فرماتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے شعر بھی بہت اچھے سناتے ہیں۔ گویا سیر کا لطف دو آتشہ ہو رہا تھا۔ 
وقت مقررہ پر شیخ صاحب بارڈر پر اپنی کار میں میرا انتظار کر رہے تھے۔ بارڈر خوجند سے زیادہ دور نہیں۔ کہنے لگے کہ ہمارا لنچ عوش میں ہے اور اسی بہانے تم تخت سلیمان بھی دیکھ لو گے۔ میں نے کہا کہ عوش تو کرغیستان میں ہے وہاں ہم آپ کی گاڑی میں کیسے جائیں گے؟ کہنے لگے تم فکر نہ کرو اس مسئلے کا حل بھی نکل آئے گا۔ ہوا یوں کہ عوش کے اکابرین میں سے جناب دین محمدوف تھے۔ انہیں پتہ چلا کہ شفقت صاحب فرغانہ آ رہے ہیں تو پیشگی لنچ کی دعوت دے ڈالی۔ شیخ صاحب نے کار والا عذر پیش کر کے معذرت کرنا چاہی تو کہنے لگے: میں ٹرانسپورٹ بارڈر پر بھیج دوں گا۔ خوجند کی طرح عوش بھی وادی فرغانہ میں واقع ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ وادی تین ملکوں میں تقسیم ہے اور بڑا حصہ ازبکستان میں ہے۔ ایک گھنٹے سے کم وقت میں ہم کرغیستان بارڈر پر تھے اور مسٹر دین محمدوف خود بارڈر پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ چند منٹوں میں ہم تخت سلیمان والے پہاڑ کے پاس تھے۔ روایت ہے کہ حضرت سلیمان اس پہاڑ پر اُترے اور عبادت فرمائی۔ مقامی لوگ تخت سلیمان کی زیارت کو ثواب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لوگ منتیں مرادیں مانگنے جاتے ہیں۔ یہاں وہ جگہ بھی ہے جہاں بابر نے نوجوانی میں عبادت کی۔ 
دین محمد صاحب نے ہمیں تخت سلیمان کے بارے میں بریفنگ دی اور کہنے لگے کہ بابر کی عبادت گاہ پر پہاڑ کے اوپر کمرہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔ سنٹرل ایشیا میں مسلمانوں کے ناموں کے ساتھ اوف کا لاحقہ سوویت زمانے میں لگایا گیا تھا‘ جو کئی لوگوں نے اب اتار دیا ہے۔ دین محمد صاحب نے پُرتکلف دعوت کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ شہر کے معروف لوگ وہاں موجود تھے۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے اور ہر قسم کے مشروبات تھے‘ لیکن دین محمد صاحب نے خود شراب کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ وہ گزشتہ سال حج کر آئے تھے۔ 
لنچ کے بعد ہم اندی جان روانہ ہوئے۔ دین محمد صاحب نے تحفوں کے ساتھ رخصت کیا۔ تحائف کا تبادلہ پورے سنٹرل ایشیا کی روایت ہے۔ اندی جان میں ہمارے میزبان ذاکر جان آکا تھے۔ لوکل زبان میں آکا بھائی کو کہتے ہیں۔ یہاں ہمیں انگریزی اردو اور ازبک زبانوں کے ترجمان مسٹر علی مل گئے جو باقی ماندہ سفر میں ہمارے ساتھ رہے۔ کئی مرتبہ پاکستان آ چکے تھے اور شیخ صاحب سے ان کا تعلق نیاز اور احترام والا تھا۔ ذاکر جان بابر کے شیدائی ہیں۔ اندی جان میں انہوں نے بابر میوزیم بھی بنایا ہے۔ میوزیم میں بابر کا بڑا مجسمہ رکھا ہوا ہے۔ پتہ چلا کہ سوویت زمانے میں ماسکو سے حکم آیا کہ لینن کا بڑا مجسمہ بنا کر اندی جان میں لگایا جائے اس کے لیے کئی من دھات بھی فراہم کی گئی۔ ذاکر جان نے اُسی دھات سے خفیہ طور پر بابر کا مجسمہ بنوایا جو آج بھی بابر میوزیم کی زینت ہے۔ یاد رہے کہ سوویت حکمران بابر کو زیادہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک اُس کی اہمیت ایک مہم جو حملہ آور سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے بعد ذاکر جان ہمیں بابر پارک لے گئے جو خاصا وسیع ہے۔ یہ پارک ذاکر جان آکا نے ہی بنوایا ہے‘ اس لیے کہ بابر اب تیمور کی طرح ازبک ہیرو ہے یہ اور بات کہ بابر کو فرغانہ سے نکالنے والے بھی ازبک ہی تھے۔ 
بابر پارک میں وہ جگہ بھی ہے جہاں ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے بابر نے آخری سجدہ کیا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پارک میں بابر کی فرضی قبر بھی موجود ہے اور یہ بھی ذاکر جان آکا کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ذاکر جان متعدد بار افغانستان پاکستان اور بھارت گئے۔ ہر جگہ سے مٹی لی اور اندی جان میں قبر کے لیے لے گئے۔ بس مٹی کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کا کسی نہ کسی حوالے سے بابر سے تعلق رہا ہو مثلاً کابل سے مٹی بابر کی اصل قبر کے ارد گرد سے لی گئی۔ کچھ مٹی پانی پت کے میدان سے لی گئی اور باقی پاکستان اور بھارت کے ان مقامات سے جن کا تعلق بابر سے تاریخی طور پر ثابت ہے۔ بابر کی پارک میں سجدہ گاہ پر شفقت شیخ صاحب سے ایک پودا لگوایا گیا جو یقیناً آج بڑا درخت ہو گا۔ 
ازبکستان کے صدر اسلام کریموف ٹینس کے کھیل کے شیدائی ہیں۔ اندی جان میں انہوں نے ایک بڑا ٹینس کمپلیکس بنوایا تھا۔ ساتھ ایک ہوٹل تھا۔ ذاکر جان آکا نے ہماری شب باشی کا بندوبست اسی ہوٹل میں کیا ہوا تھا۔ اگلے روز ناشتے کے بعد ہم نے ذاکر جان سے اجازت چاہی اور اب ترجمان مسٹر علی بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ راستے میں شیخ صاحب سے سفارت کاری کے حوالے سے دلچسپ قصے سنے۔ بیت بازی بھی ہوتی رہی میں نے ازبکستان کی مسلم موومنٹ کے بارے میں پوچھا جس کا گڑھ فرغانہ ویلی ہے تو فرمانے لگے کہ ازبک حکومت سیکولر ہے اور ان لوگوں کو سخت ناپسند کرتی ہے لہٰذا میں بھی ان سے دور رہتا ہوں۔ 
راستے میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں مسٹر علی کا گھر تھا وہاں انہیں ڈراپ کرنے گئے تو مُصر ہوئے کہ چائے پی کر جائیں۔ شیخ صاحب علی کے گھر پہلے جا چکے تھے۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو بیگم علی نے استقبال کے جملے بولے اور بولتی ہی گئیں۔ میں نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ یہ جو لمبی چوڑی تقریر محترمہ نے کی ہے اُس کا لب لباب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ موصوفہ کے دو بیٹے ہیں ایک میڈیکل پڑھ رہا ہے اور دوسرا انجینئرنگ‘ مجھے کہہ رہی تھی کہ دونوں میں سے ایک کو اپنا داماد بنا لو۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا جواب دیا۔ بولے کہ میں نے ہاں کر دی ہے۔ میں حیران تھا کہ اتنا بڑا فیصلہ شیخ صاحب نے اپنی بیگم سے مشورہ کیے بغیر کیسے کر دیا۔ شفقت صاحب فرمانے لگے کہ ان لوگوں کا احترام اور محبت ظاہر کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔ میں اپنی بیٹیوں کی نسبت متعدد بار ازبک گھرانوں میں طے کر چکا ہوں لیکن یہ تجویز اتنی سنجیدہ بھی نہیں ہوتی۔ سنا ہے کہ یہ اچھی روایت اب دم توڑ رہی ہے۔ 
چائے کے بعد ہم بارڈر کی طرف روانہ ہوئے۔ تا حد نگاہ چنار کے لمبے درخت تھے۔ خوبصورت راستہ تھا جو جلد ہی ختم ہو گیا اور بارڈر پر میرا ڈرائیور منتظر تھا۔ شیخ صاحب کو خدا حافظ کہا اور دوسرے ملک میں داخل ہو گیا۔ یہ یادگار اور دلچسپ سفر کچھ زیادہ ہی جلدی تمام ہوا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں