"JDC" (space) message & send to 7575

کیسی بلندی‘ کیسی پستی

قائداعظمؒ زیارت میں صاحبِ فراش ہیں۔ بیماری کے غلبے نے بہت نحیف کر دیا ہے۔ اس مردِ آہن کا وزن صرف ستر پائونڈ یعنی بتیس کلو گرام رہ گیا ہے اور مستزاد یہ کہ بھوک بالکل ختم ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر اور اہل خانہ قائدؒ سے مشورہ کے بعد ایک ایسے کُک یعنی باورچی کو بلانا چاہتے ہیں جس کا پکایا ہوا کھانا قائد کو بہت پسند تھا اور وہ بمبئی میں ان کے پاس ملازم رہا تھا۔ پتہ چلا کہ وہ باورچی پاکستان بننے کے بعد بمبئی سے پاکستان آ گیا ہے اور اس کا قیام پنجاب میں کسی جگہ ہے۔ چنانچہ حکومت پنجاب کو کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا پتہ لگا کر اسے فوراً زیارت روانہ کرے۔ کُک زیارت پہنچ جاتا ہے۔ قائد کو اس کا پکا ہوا کھانا پیش کیا جاتا ہے اور وہ دوبارہ کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ قائدؒ استفسار کرتے ہیں کہ باورچی کے سفر کا خرچ کس نے دیا ہے۔ جواب ملتا ہے حکومت پنجاب نے۔ قائدؒ خفا ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ باورچی میری ذاتی خواہش پر بلایا گیا ہے لہٰذا خرچ میں خود ادا کروں گا۔ 
قائد ملت راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے۔ قائد ملت کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ ان کے کوٹ سے صرف چھ آنے نکلتے ہیں۔ بینک اکائونٹ میں تقریباً ساڑھے تین سو روپے نکلتے ہیں۔ یہ اُس شخص کے اثاثے ہیں جس نے اربوں روپے کی جائیداد یومیہ مہاجرین میں تقسیم کی۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کا سوچا تک نہیں کیونکہ تمام پاکستانی اس کی فیملی تھے۔ ان کی فلاح و بہبود قائد ملت کی اولین ترجیح تھی۔ 
غالباً 1955ء کی بات ہے۔ چودھری محمد علی پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ انہیں ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے جس کا علاج اس وقت کے پاکستان میں ممکن نہ تھا۔ چودھری صاحب بیرون ملک علاج کے لیے اٹھارہ ہزار روپے کے قرض کی درخواست دیتے ہیں۔ قرض لے کر وہ علاج کے لیے غالباً لندن جاتے ہیں۔ مرض سے مکمل شفایاب ہو کر واپس پاکستان آتے ہیں اور سارے کا سارا قرضہ قسطوں میں حکومت کو واپس کرتے ہیں۔ 
اور اب فاسٹ فارورڈ... 24 مئی 2014ء کا دن ہے۔ سابق وزیرداخلہ رحمن ملک نے گیارہ ماہ گزرنے کے بعد بھی اپنا سرکاری بنگلہ خالی نہیں کیا۔ بنگلہ خالی کرانے کی تمام سرکاری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس واقعہ کی تمام تفاصیل فیس بُک پر موجود ہیں۔ میں نے خبر کی درستگی کی تاکید کرنے کے لیے سورس (Source) کو فون کیا اور اس بارے میں کالم لکھنے کی اجازت چاہی۔ ذریعۂ خبر کا کہنا تھا کہ تفاصیل سوفیصد درست ہیں اور اس کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ وزیر موصوف نے اس گیارہ ماہ کا کرایہ 24 مئی تک تو نہیں دیا تھا۔ بہرحال 24مئی 2014ء کو ایک سرکاری ٹیم مجسٹریٹ کامران چیمہ کی سربراہی میں سابق وزیر کے بنگلے پر گئی۔ گواہوں کے سامنے دروازہ کھولا۔ سرکاری فرنیچر کی دوبارہ انوینٹری بنائی۔ پتہ چلا کہ اصل Inventory کے بہت سارے آئٹم غائب ہیں۔ دروغ برگردنِ فیس بُک آپ کو یاد ہوگا کہ رحمن ملک صدر زرداری کے ناک کا بال ہوتے تھے اور شاید اب بھی ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے ''الطیور تقع علی الوانہا‘‘ یعنی پرندے اپنے رنگوں کے حساب سے رہتے ہیں۔ آپ نے کبھی کوے کو مرغابیوں کے درمیان کم ہی دیکھا ہوگا۔ کونجیں کبھی کبوتروں کے ساتھ پرواز نہیں کرتیں۔ مشہور فارسی کہاوت جو شعر میں بیان کی گئی ہے اس طرح سے ہے ؎ 
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز 
کبوتر با کبوتر باز با باز 
شعر کا مفہوم وہی ہے جو اوپر مذکور ہے کہ باز صرف باز کے ساتھ اڑتا ہے اور کبوتر کبوتر کے ساتھ۔ صدر زرداری کافی عرصے سے رحمن ملک کے ساتھ محو پرواز ہیں۔ مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے کہ کئی سال گزرنے کے باوجود زرداری صاحب کی پوزیشن درمیان میں لٹکی ہوئی ہے۔ اسی دوران انہوں نے صدارت بھی کر لی۔ اگر وہ کسی مہذب ملک میں ہوتے تو یا سو فیصد بری ہو چکے ہوتے یا سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوتے۔ یہ نیمے دروں نیمے بروں والی کیفیت صرف وطنِ عزیز میں ہوتی ہے اور ہمارے سسٹم کی کمزوری کی غماز ہے۔ ان کے سرے محل کے بارے میں متضاد بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ 
اب دیکھتے ہیں کہ مہذب معاشروں میں جھوٹ کے بارے کیسے رویے ہیں۔ ہمارے سامنے صدر نکسن کا واٹر گیٹ والا تنازع ہے۔ 1972ء کے صدارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ نکسن ریپبلکن پارٹی کے مضبوط امیدوار تھے اور وہ الیکشن آسانی سے جیت گئے۔ پھر پتہ چلا کہ الیکشن کی تیاری کے مراحل میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈ کوارٹر جو کہ واٹر گیٹ میں تھا میں خفیہ آلات لگائے گئے تاکہ مدمقابل کی پالیسی اور ذہنی سوچ کا پتہ لگایا جائے۔ صدر نکسن نے شروع میں اس واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا مگر بالآخر یہی جھوٹ انہیں لے ڈوبا اور صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 
اور صدر بل کلنٹن کے واقعہ کو تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ مونیکا نے تمام راز ایک خاتون کو بتائے اور اس خاتون نے دنیا جہان میں سیٹی بجا دی۔ صدر کلنٹن نے پہلے واقعات کی صحت سے انکار کیا اور پھر یہی جھوٹ انہیں مہنگا پڑ گیا۔ انہیں علی الاعلان تمام قوم سے معافی مانگنا پڑی۔ مجھے یاد ہے اسی دوران کئی امریکیوں سے میڈیا والوں نے پوچھا کہ کیا انہیں اپنے صدر کی بے راہ روی پر غصہ ہے۔ اکثر نے کہا بالکل نہیں۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کلنٹن کو ہم نے صدر چنا ہے مذہبی رہنما نہیں۔ ہمیں غصہ صرف اور صرف اس بات پر ہے کہ ہمارے صدر نے جھوٹ کیوں بولا۔ مگر وطن عزیز میں ہمارے رہنما روزانہ تھوک کے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ کی سب سے زیادہ ممانعت اسلام میں ہے اور جھوٹ بول کر بچ نکلنے والے بھی اسلامی جمہوریہ میں پائے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے روزانہ عدالتوں میں کتنی جھوٹی گواہیاں بھگتائی جاتی ہیں۔ 
ذرا یاد کیجیے کہ پاکستان کے وزراء اعظم پر کتنی مرتبہ کرپشن کا الزام لگا ہے۔ میرا محتاط اندازہ یہ ہے کہ یہ الزام چھ مرتبہ لگا ہے جبکہ بھارت میں کرپشن کا الزام صرف راجیوگاندھی پر لگا تھا۔ بھارت کے لیڈروں کے کتنے اثاثے ملک سے باہر ہیں اور ہمارے لیڈروں کے کتنے؟ 
یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقی انحطاط ہوا ہے اور بہت تیزی سے ہوا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ جب فون کی گھنٹی بجے اور والد اپنے بچے سے کہے کہ فون اٹھا کر بتا دو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں‘ تو وہ اپنے بچے کے لیے بہت ہی غلط مثال ہوگا اور بچہ بڑا ہو کر والد محترم سے دو قدم آگے ہی جائے گا۔ 
اور تو اور ہماری تاریخ کی ایک متنازع شخصیت یعنی صدر سکندر مرزا اقتدار چھوڑ کر گزر بسر کرنے کے لیے لندن کے ایک ہوٹل میں کام کرتے رہے۔ مگر بعد میں جو لیڈر آئے ان کے بچے یقینا خوش حال ہیں لیکن ہوا یوں کہ لیڈر امیر تر ہوتے گئے اور ملک غریب تر۔ 
حسین شہید سہروردی‘ ابراہیم اسماعیل چندریگر کسی پر کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ وہ وزارت ختم ہونے پر آرام سے سرکاری گھر اور فرنیچر لوٹا دیتے تھے۔ ہم کیسی بلندیوں پر تھے ا ور آخر کیسی پست کھائیوں میں آن گرے ہیں کیا ہماری اخلاقی واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں