"JDC" (space) message & send to 7575

ایران میں چند روز

جنوری1997ء کی بات ہے۔ میں دو شنبے میں سفیر تھا۔ تاجک حکومت اور اپوزیشن کے سپاہی عرصے سے پہاڑوں میں برسرپیکار تھے۔ اقوام متحدہ کوئی سیاسی حل تلاش کررہی تھی۔ طرفین کے درمیان بات چیت کے کئی رائونڈ ہوچکے تھے اور سب کے سب تاجکستان سے باہر۔ اپوزیشن لیڈر دوشنبے کو اپنے لیے غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ جنوری 1997ء میں گفت و شنید کا ایک اور رائونڈ تہران میں طے پایا۔ تاجک مذاکرات میں پاکستان کی حیثیت مبصر کی تھی۔ مجھے ایران جانے کا مدت سے شوق تھا۔ اسلام آباد سے حکم آیا کہ تہران کے لیے رخت سفر باندھیے تو گویا دلی مراد پوری ہوگئی۔
پتا چلا کہ تہران پہنچنے کے لیے پہلے مشہد جانا ہوگا۔ اب میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ مشہد کی سب سے معتبر شناخت امام علی رضاؒ ہیں۔ آپ مشہد کے قریب ہی شہید ہوئے بلکہ اس شہر کا نام ہی اس شہادت سے منسوب ہے کہ عربی میں مشہد کا ایک معنی مقام شہادت بھی ہے۔ مشہد ایرانی صوبے خراسان کا دارالحکومت بھی ہے اسی نسبت سے امام علی رضاؒ کو شاہِ خراسان بھی کہا جاتا ہے۔ خراسان میں جونامور شخصیات مدفون ہیں، ان میں بحرتصوف کے شناور حضرت فرید الدین عطار ؒ ، عظیم شاعر اور علوم ریاضیات کے ماہر عمر خیام اور شاہنامہ تخلیق کرنے والے ممتاز شاعر فردوسی طوسی شامل ہیں۔
مشہد میں پاکستان کے قونصل ان دنوں نصراللہ خان تھے جو میرے ساتھ وزارت خارجہ میں کام کرچکے تھے۔ پہلے ہی دن میں نے امام رضا ؒکے روضہ مبارک پر حاضری دی۔ نصراللہ خان اگلے روز مندرجہ بالا شخصیات کے مزاروں پر میرے ساتھ گئے ۔ ہمارے ہمراہ قونصل خانے کے ترجمان آقائے شستری بھی تھے ۔ دوشنبے میں رہنے کی وجہ سے میں بھی ان دنوں فارسی روانی سے بولتا تھا ۔مشہد کے ارد گرد برف ہی برف تھی۔ عمر خیام کا مدفن مجھے اب تک یاد ہے کہ یہاں چھت نہیں بنائی گئی ،قبر خوبصورت مثلث نما کالموں کے نیچے ہے اور اس طرح عمر خیام کی علم ہندسہ میں یکتائی کو خراج تحسین پیش کیاگیا ہے۔ اگلے روز تہران کے لیے روانہ ہوئے ۔نصراللہ خان ایئرپورٹ پر خدا حافظ کہنے آئے ۔ تہران میں ہوٹل شیراٹن میں قیام تھا جس کا نام ایرانی انقلاب کے بعد بدل چکا تھا۔ ہوٹل پہنچے تو لابی میں جلی الفاظ سے لکھا ہوا تھا '' مرگ بر امریکہ ‘‘۔ تاجکوں کے مابین مذاکرات شروع ہوئے۔ اچھی بات یہ تھی کہ بات چیت کے یہ دور صبح شروع ہوتے تھے اور لنچ کے وقت ختم ہوجاتے تھے۔ سفارت خانے کی ایک کار صبح لینے آتی تھی اور مذاکرات ختم ہونے تک انتظار کرتی تھی۔ چھٹی کے دن میں مختلف میوزیم دیکھنے چلا جاتا تھا یا رضا شاہ پہلوی کے محلات اور شام کو واک کے لیے ایک قریبی پارک میں اکثر چلا جاتا تھا۔ دو ہفتے میں تہران کو اچھی طرح دیکھا۔ دنیا کی وہ اقوام جنہوں نے امپائر یا سلطنت چلائی ہے وہ ایک خاص خود اعتمادی حاصل کرلیتی ہیں۔ ایسی اقوام کے شہر صاف ستھرے ہوتے ہیں اور لوگوں میں نظم و ضبط نظر آتا ہے۔ یہ خصائص مجھے لندن میں بھی نظر آئے اور استنبول میں بھی،روم میں بھی اور تہران میں بھی۔ تہران کی خیابان ولی عصر لاہور کی مال روڈ کی طرح بہت عریض اور لمبی سڑک ہے۔ اس سڑک پر بے شمار درخت ہیں۔ میں کئی مرتبہ اس سڑک پر پیدل پھرا ہوں،کہیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ ایرانی نفاست پسند لوگ ہیں۔ وہ صدیوں سے نیلی اور خوبصورت ٹائلیں بنارہے ہیں جو میں نے ملتان میں بھی دیکھی ہیں اور کاشغر کی تاریخی عمارات میں بھی۔ ایران ایک عرصے سے دیدہ زیب قالینوں اور خطاطی کے لیے مشہور ہے۔ شاعری، کوزہ گری ،شاندار جھاڑ فانوس ، چاندی کی خوبصورت دست کاری ،سب ایرانیوں کے اعلیٰ ذوق جمال کا ثبوت ہیں۔ تہران میں قیام کے دوران میں نے رضا شاہ پہلوی کے دو محلات دیکھے اور تین عجائب گھر جو ہر طرح سے منفرد تھے۔ آیئے شاہ کے محل چلتے ہیں۔
کاخِ نیا وران وہ محل ہے جہاں شاہ کی فیملی رہتی تھی۔ یہ شمالی تہران میں واقع ہے۔ شمالی تہران بلندی پر واقع ہے اور یہاں کی آب و ہوا جنوبی تہران سے خوشگوار ہے۔ آلودگی کم ہے، سردیوں میں یہاں برف بھی پڑتی ہے ۔جنوبی تہران نسبتاً پرانا شہر ہے جہاں تجارتی علاقے اور بازار ہیں۔ پہاڑ پر ہونے کی وجہ سے یہ محل اتنا وسیع نہیں جتنا کہ سعد آباد پیلس۔ نیاوران کی دو چیزیں مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک ملکہ فرح دیبا کی ڈریسنگ ٹیبل اور دوسرے شاہ کے فوجی لباس اور ٹوپیاں ۔ ڈریسنگ ٹیبل پر زیبائش کا سامان ویسے کا ویسا پڑا ہے ۔لگتا ہے ملکہ ابھی ابھی میک اپ کرکے گئی ہیں۔ شاہ ایران کو فوجی وردیاں پہننے کا شوق تھا۔ آرمی ،ایئرفورس اور نیوی کی درجنوں ٹوپیاں اس محل میں آج بھی محفوظ ہیں۔
سعد آباد پیلس جنوبی تہران میں ہے اور کئی ایکڑوں پر محیط ہے ۔ یوں سمجھیے کہ لاہور کے باغ جناح جتنا بڑا پارک اور اس میں درجن کے قریب شاندار بنگلے ہیں۔ ہر بنگلے کا علیحدہ مقصد اور ڈیزائن ہے لیکن حجم اور بلندی میں تناسب ہے۔ یہاں شاہ کا دفتر تھا۔ غیر ملکی شاہی مہمان بھی یہاں ٹھہرتے تھے۔ سفراء یہاں آکر اسناد سفارت شاہ کو پیش کرتے تھے۔ ایک بنگلہ شاہ کی جائے آرام تھا ۔ اس بنگلے کے پردے ، قالین اور فانوس دیکھنے کے لائق ہیں۔ فرنیچر پر سونے کا پینٹ ایسا ہے کہ نظروں کو خیرہ کرتا ہے۔ میرے لیے یہ جائے عبرت تھی۔ مکان رہ گیا اور مکین چلا گیا۔ اب ایرانی حکومت اس محل سے زرمبادلہ کمارہی ہے ۔فارنرز کے لیے ٹکٹ کئی گنا ہے اور وہ بھی ڈالر میں۔
ایک میوزیم صرف قالینوں کے لیے مختص ہے۔ یہ ملکہ فرح دیبا نے بنوایا تھا۔ دیواریں قالین بافی کے اڈے کے ڈیزائن کی ہیں۔ جواہرات کے میوزیم میں شاہی تاج اور تخت پڑے ہوئے ہیں۔ ملکہ کے ہار بھی ہیں۔ اربوں کے جواہرات ایک چھت کے نیچے پڑے ہوئے ہیں اور اب ان کی مالک ایران کی انقلابی حکومت ہے۔ شیشہ اور کوزہ گری ایران کی پرانی صنعت ہے۔ ایک میوزیم اس صنعت کے لیے مختص ہے۔ شیشے کی صراحیاں اور کرسٹل کے جھاڑ فانوس بہت دیدہ زیب ہیں۔ اور اب آتے ہیں ایرانی سوسائٹی کی عادات اور تقالید کی جانب۔ ایرانی زندہ دل لوگ ہیں۔ سیر اور ورزش ان کی زندگی کا جزو ہے ۔چھٹی کے دن غول در غول پارکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایرانیوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ دنیا کی ہر اچھی کتاب کا فارسی ترجمہ ضرور ہوتا ہے۔
ایرانی حکومت کا جاسوسی کا نظام بہت مربوط اور کامیاب ہے اور اسی وجہ سے امن عامہ کی حالت اچھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں