"JDC" (space) message & send to 7575

بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ

کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ بات عام زندگی پر بھی منطبق ہوتی ہے اور سفارت کاری پر اس سے بھی زیادہ۔ بقول شاعر ؎
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ 
دھوکا دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
تو کیا سفارت کاری صرف دھوکے اور مکاری کا دوسرا نام ہے۔ میرے خیال میں یہ بات بھی سو فیصد درست نہیں کہ ممالک کو اپنی ساکھ کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن وکی لیکس کو پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بین الاقوامی امور میں بہت ساری چیزیں خفیہ طے پاتی ہیں گوکہ اب رازوں کو افشا کرنے والے بھی خوب ترقی پاچکے ہیں۔
فلسطین کی تقسیم کا سوال اٹھا تو ہندوستان کی تقسیم سے قبل گاندھی جی نے کھل کر مخالفت کی اور کہا کہ ہم کسی بھی ملک کی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے خلاف ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کی تخلیق کی حمایت کرتے تو پاکستان کی مخالفت کیسے کرتے۔1948ء میں اسرائیل بنا تو کانگرس سرکار نے نئی ریاست کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا اور اس کی اقوام متحدہ کی ممبر شپ کی بھی مخالفت کی۔
بھارت میں ہندو مذہبی جماعتیں مثلاً شیوسینا اور راشٹریہ سیوک سنگھ شروع سے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے حق میں تھیں۔ بھارت میں یہودی اقلیت موجود تھی اور ممبئی میں آج بھی یہودی معبد قائم ہے۔ جب یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کردیے تو بھارت نے 1992ء میں اسرائیل کو تسلیم کرکے سفارتی تعلقات استوار کرلیے۔
لیکن دوستی کی جانب آنے میں دونوں ملکوں کو کچھ وقت لگا۔ بھارت میں دو جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی مخالفت ہوئی۔ ایک بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے اور دوسرے مسلمانوں نے اسرائیل مخالف خیالات کااظہار کیا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کا کہنا تھا کہ اول تو اسرائیل کا قیام ہی استعماری منصوبے کے تحت ہوا یعنی فلسطینی اپنے گھر بار اور سرزمین سے محروم کردیے گئے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسایاگیا ،دوسرے اسرائیل اب بھی مغربی کنارے اور غزہ کے عوام پر ظلم ڈھا رہا ہے ۔جو ملک انسانی حقوق کی دن رات پامالی کرتا ہو اس سے تعاون بڑھانا درست نہیں۔
بھارتی حکومتیں اپنے مسلمان ووٹروں اور عربوں کو بے وقوف بنانے کے لیے مسلسل کہتی رہیں کہ فلسطین کے بارے میں ہماری پالیسی میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا لیکن یہ ہاتھی والے دانت تھے۔ اس سال جب اسرائیل نے غزہ کے نہتے لوگوں پر ظلم ڈھائے تو بھارت ان معدودے چند ملکوں میں سے تھا جنہوں نے اسرائیلی بربریت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
کانگرس سرکار اسرائیل کے ساتھ دوستی کا زیادہ چرچا نہیں کرتی تھی۔ کچھ شرمائی شرمائی رہتی تھی حالانکہ اندرون خانہ خوب تعاون چل رہا تھا لیکن نریندر مودی بھارت کے پہلے اسرائیل نواز لیڈر ہیں جو برملا اس دوستی کا اظہار کررہے ہیں بلکہ عسکری تعاون کو بے حد فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کو اسلامی دنیا سے خطرہ ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں بھارت نے اسرائیل کے ساتھ جو دفاعی سامان خریدنے کے سودے کیے ہیں ان کا کل حجم 662ملین ڈالر ہے جوکہ اتنی کم مدت کے لیے ایک ریکارڈ ہے۔ اس وقت اسرائیلی اسلحہ کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بھارت ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نریندر مودی نے2006ء میں بطور گجرات کے وزیراعلیٰ اسرائیل کا دورہ کیا اور اس وقت ان کے ہاتھوں سے مسلمانوں کا خون خشک نہیں ہواتھا۔ 2003ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی ایجنسی موساد کے تعلقات عالمی میڈیا کی خبروں کی زینت بنے۔ اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ جنرل گابی اشک نازی نے 2009ء میں بھارت کا دورہ کیا جو تاریخی قرار پایا تھا۔ ابھی پچھلے مہینے اسرائیل کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جوزف کوہن نے بھارت کا دورہ کیا۔ لیکن میرے لیے نریندر مودی اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی وہ ملاقات بے حد اہم ہے جو اس سال ستمبر میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ہوئی۔ اس میٹنگ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کا باہمی تعاون آسمانوں کو چھو سکتا ہے۔
بھارت کئی برسوں سے اسرائیل کے بنائے ہوئے براق میزائل میں دلچسپی ظاہر کررہا ہے۔یہ میزائل سطح زمین اور سطح سمندر سے فضا میں اپنے ہدف کو تباہ کرسکتا ہے۔ کچھ سال پہلے جب پاکستان نے فضائی اور سمندری نگرانی کے لیے اورین طیارے حاصل کرلیے اور انہیں ہارپون میزائلوں سے لیس کردیا تو بھارت بھاگا بھاگا اسرائیل کے پاس گیا۔ براق میزائل کی ڈیل ہوئی جو کچھ عرصہ رشوت کے الزامات کی وجہ سے رکی رہی۔ اب اس ڈیل کو پھر سے فعال کیاگیا ہے۔ بھارت کا پلان ہے کہ 2027ء تک اپنی مسلح افواج پرایک سو پچاس بلین ڈالر خرچ کرے گا۔ لہٰذا اسرائیل کے منہ سے رالیں ٹپک رہی ہیں۔
اب تک کے تعلقات پر غور کریں تو اسرائیل کے صدر آبزروائزمین اور وزیراعظم شارون نے بھارت کے دور ے کیے تھے لیکن بھارت سے صرف وزیر خارجہ اور چند دوسرے وزراء گئے۔ کانگرس سرکار کو مسلم ووٹ بینک کا بھی خیال تھا اور بائیں بازو کی پارٹیوں کا بھی۔ اب صورت حال بدل چکی ہے ۔دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ اب بھارت بھی کھل کر اسرائیل سے تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔
اسرائیل نے بھارت کو یہ آفر بھی دی ہے کہ اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ وہ بھارت کو ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کرے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی اسلحہ بھارت میں ہی بنایا جائے تاکہ لاگت کم کی جاسکے اور آئندہ خود بھارت اس اسلحہ کو بنانے کے قابل ہوسکے۔
اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اسرائیل کو فلسطینی حریت پسندوں پر غلبہ حاصل ہے۔ اس کے ممکنہ دشمن یا مزاحمت کار ممالک یعنی مصر ، اردن اور شام اپنی اپنی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ادھر پاکستان اپنے مسائل سے دوچار ہے۔ بھارت اور اسرائیلی تعاون ہمیں مزید کمزور کرنے کے لیے ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کراچی کے نیول بیس پر کھڑے اورین ہوائی جہاز کس کی نظر میں کھٹکتے ہوں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قومی اثاثوں کو تباہ کرنے کے لیے لوگوں کو بھی ہمارے ملک کے اندر سے ہی خریدا گیا خواہ ان کی شہریت کوئی بھی رہی ہو۔ را اور موساد کا بڑھتا ہوا تعاون غور سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ گاندھی جی سے لے کر نریندر مودی تک کا سفر بھی دلچسپ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں