"JDC" (space) message & send to 7575

شاباش نیپال

سارک سمٹ کے دوران وزیراعظم نوازشریف تقریر کرنے کے لیے اٹھے۔ نریندر مودی کے پاس سے گزرے تو بھارتی وزیراعظم ایک میگزین کی ورق گردانی میں مصروف تھے گویا انہیں پاکستانی وزیراعظم کے افکار سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ یہ سکول کے بچوں جیسی بلکہ سوقیانہ حرکت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 2004ء میں سارک سمٹ کے لیے ہی وزیراعظم واجپائی اسلام آباد آئے تھے۔ میں ان دنوں فارن آفس میں تھا اور کانفرنس کے انتظامی امور میرے ذمہ تھے۔ دو تین دن واجپائی صاحب کو جب بھی دیکھا مسکراتے ہوئے پایا۔ وہ نارمل ادب آداب مشکل وقت میں بھی نہ چھوڑتے تھے۔ لیکن مودی صاحب کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ برصغیر کی قیادت مجموعی طور پر روبہ زوال ہے۔
کٹھمنڈو کی سارک سمٹ ناکامی کی طرف جارہی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی علاقائی تعاون کے معاہدے پر دستخط نہ ہوسکیں گے۔ پاکستان اور بھارت کی کٹی مزید راسخ ہوجائے گی ایسے میں نیپال کے وزیراعظم سوشیل کمار کورالہ متحرک ہوئے۔ تین ڈرافٹ معاہدے تیار تھے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ بری آمدورفت اور ریلوے کے شعبے میں تعاون پر متعلقہ وزراء کی سطح پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ بھارت اس بات پر بضد تھا کہ سارے معاہدے ہوں گے ورنہ ایک پر بھی دستخط نہ ہوں گے۔ نیپال کے وزیراعظم بھرپور کوشش کے بعد نریندر مودی کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ انرجی کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ سب کے لیے قابل قبول ہے لہٰذا اس ایک معاہدے پر دستخط ہوجائیں تو کانفرنس ناکامی سے بچ جائے گی اور ساتھ ہی کورالہ کی نوازشریف اور مودی کی باہمی سرد مہری ختم کرنے کی کوششیں بھی رنگ لائیں۔ آدھے منٹ کے مصافحے پر پورے ہال میں خوب تالیاں بجیں۔ کانفرنس کا پورا موڈ بدل چکا تھا۔ نیپال والے اس قدر خوش تھے کہ اگلے روز پورے ملک میں سرکاری تعطیل کااعلان کردیاگیا۔
نیپال، بھارت اور چین کے درمیان واقع ہے۔ آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ دو بڑی طاقتوں کے درمیان گھرا یہ ملک دونوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور آج بھی ہے مگر بھارت کو یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی۔ آئیے وجوہ جاننے کی کوششں کرتے ہیں۔ نیپال کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی ہندو ہے۔ 2006ء تک نیپال کا سرکاری مذہب ہندومت تھا۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد سیکولرازم کو دستور کا حصہ بنایاگیا۔ نیپال کی سرحدیں آسام، جھاڑکھنڈ، بہار اور یوپی سے ملتی ہیں۔ دو سو سال سے زیادہ عرصہ نیپال پر راجپوت شاہی خاندان کی حکومت رہی جو چند سال پہلے ہی ختم ہوئی ہے۔ شاہی خاندان کی بھارت میں عزیز داریاں تھیں‘ خاص طور پر راجستھان کے راجپوت گھرانوں سے۔ ہزاروں نیپالی بھارت کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ فاصلے کے لحاظ سے لکھنؤ نیپال سے زیادہ دور نہیں۔ باہر کی دنیا سے تمام تجارت بھارت کے راستے ہوتی ہے لہٰذا بھارت نے نیپال کو ہمیشہ گھر کی مرغی سمجھا مگر نیپالی قیادت نے کمال ہوشیاری سے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا۔ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک رکھے۔ دوسری طرف چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا۔ یاد رہے کہ کٹھمنڈو کانفرنس سنٹر جہاں حالیہ سارک سمٹ ہوئی ہے‘ چین نے بنوایا تھا۔
غالباً 1989ء کی بات ہے۔ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نیپال کے سرکاری دورے پر گئے۔ شریمتی سونیا گاندھی ہمراہ تھیں۔ کٹھمنڈو میں ایک اہم اور تاریخی مندر ہے جس کا نام ہے پشوپاتھ ناتھ مندر۔ سونیا گاندھی کی خواہش تھی کہ وہ اس مندر کو اندر سے دیکھیں لیکن نیپالی حکومت نے اجازت نہ دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس مندر میں صرف اور صرف پیدائشی ہندو جاسکتے ہیں۔ راجیو گاندھی نیپالی حکومت سے سخت ناراض ہوئے۔ بھارت سے نمک اور پٹرول بھیجنا بند کردیا لیکن نیپالی حکومت اپنے اصولی موقف پر قائم رہی۔ مجھے یاد ہے کہ بھارت ان دنوں نیپال پر اپنی پسند کا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ بھی مسلط کرنا چاہتا تھا اور چین کے ساتھ نیپال کا بڑھتا ہوا عسکری تعاون بھی اسے اچھا نہ لگتا تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ 2005ء میں جب چین کو سارک میں مبصر کا درجہ دیاگیا تو اس تجویز کو نیپالی سپورٹ حاصل تھی۔ اس بات کا اقرار ضروری ہے کہ چھوٹے ملک نیپال نے بھارت اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھے ہیں اور دونوں سے فوائد حاصل کیے ہیں اور اس کی بڑی وجہ نیپال کا محل وقوع ہے جو کہ بھارت اور چین دونوں کے لیے اہم ہے۔ لکھتے لکھتے مجھے افغانستان یاد آگیا جو اپنے محل وقوع کی بدولت بھارت اور پاکستان دونوں سے فوائد حاصل کرتا ہے۔
یہاں ایک اہم واقعہ کا ذکر ضروری ہے جو کہ سارک سمٹ کے دوران ہی پیش آیا۔ نیپال میں ایک اور اہم مندر رام جانکی مندر ہے جو طرز تعمیر میں شاہکار ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اس دفعہ اس مندر کی یاترا کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔ ایودھیا کے رام مندر سے ایک وفد خاص طور پر سارک سمٹ کے دنوں میں ہی کٹھمنڈو پہنچا۔ پروگرام یہ تھا کہ نریندر مودی نہ صرف اس اہم مندر میں جائیں گے بلکہ بھارت اور نیپالی ہندوئوں کے اجتماع سے بھی خطاب کریں گے۔ مقصد اس تاثر کو ابھارنا تھا کہ مودی نہ صرف بھارتی ہندوئوں کے مقبول نیتا ہیں بلکہ بین الاقوامی ہندو لیڈر بھی ہیں۔ اسی دوران نیپال کی بائیس سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہوکر بیان دیا کہ نیپال اب سیکولر ملک ہے لہٰذا ہم اس مذہبی پراپیگنڈا کے خلاف ہیں جو بھارتی پرائم منسٹر کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال میں نیپالی حکومت کو یہ پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔ آج کے جمہوری نیپال میں رائے عامہ کی اہمیت ہے اور اس کیس میں نیپالی رائے عامہ بھارت جیسے بڑے ملک کے نیتا کے سامنے ڈٹ گئی۔ مودی کو شرمندگی اٹھانا پڑی اور مندر یاترا دھری کی دھری رہ گئی۔
2003ء کی بات ہے میں سرکاری دورے پر کٹھمنڈو گیا۔ ضمیر اکرم ان دنوں ہمارے سفیر تھے۔ ضمیر اکرم کا شمار پاکستان کے بہت فعال سفراء میں ہوتا تھا۔ حسب روایت سفیر صاحب نے کھانے پر بلایا۔ نیپالی حکومت اور سول سوسائٹی کے اہم لوگ بھی ڈنر پر مدعو تھے۔ ابھی مشروبات چل رہے تھے کہ ایک سینئر نیپالی صحافی میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ پوچھنے لگے کہ بھارت پاکستان تعلقات کا مستقبل آپ کو کیسا نظر آتا ہے۔ میں نے سفارت کاروں والا گول مول جواب دیا کہ میں پرامید ہوں کہ تعلقات بہتر ہوں گے۔ اس بات پر جو اس صحافی نے کہا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ کہنے لگے کہ نیپال دنیا کا واحد ملک ہے جس کا سرکاری دھرم ہندومت ہے۔ بھارت ہمیں برداشت نہیں کرتا تو پاکستان کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ میں لاجواب سا ہوگیا۔
نیپال کے سابق آرمی چیف جنرل سچت رانا ریٹائرمنٹ کے بعد رنگون میں سفیررہ چکے تھے اور میرے اس زمانے سے دوست تھے اور گالف کے پارٹنر بھی۔ میں نے کٹھمنڈو پہنچ کر انہیں فون کیا۔ بہت خوش ہوئے۔ گھر چائے کے لیے بلایا اور خود ہوٹل سے لینے آئے۔ کار جب بھی کسی مندر کے سامنے سے گزرتی تو جنرل صاحب دونوں ہاتھ جوڑ کر سرہلکا سا جھکاتے۔ اس زمانے کی نیپالی اشرافیہ ہندومت کے بہت قریب تھی لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ اس زمانے میں مائو باغی حکومت کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ یہ نچلی ذات کے لوگوں کی راجپوت اشرافیہ کے خلاف بھی بغاوت تھی اور اشرافیہ سخت دبائو کا شکار تھی۔ جنرل رانا نیپالی حکومت کے بہت قریب تھے۔ میں نے حالات کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ ہم مائو باغیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ذات پات پرانے زمانے میں پیشوں کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ چنانچہ شمشیر زن مارشل قبیلہ راجپوت کہلایا۔ اگر آج کوئی راجپوت بزنس کرتا ہے یا وزیر ہے تو گویا اس کی ذات بدل گئی اور وہ عام لوگوں جیسا ہوگیا۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ راجپوت شاہی خاندان کے لیے سب برابر ہیں مگر مائو باغی اس منطق کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ سول وار جاری رہی اور بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا۔
آج کا نیپال جمہوری ہے اور سیکولر۔ اس کے بھارت ، چین اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ نیپال اور بھوٹان میں پن بجلی پیدا کرنے کی وسیع امکانات ہیں اور بھارت کے لیے یہ امر بہت اہم ہے۔ نیپال میں چین اور بھارت دونوں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ سارک کا ہیڈ کوارٹر بھی کٹھمنڈو میں ہے۔ 
خوش آئند بات یہ ہے کہ نیپالی قیادت کی کوششوں کی بدولت سارک سمٹ ناکامی سے بچ گئی۔ گیارہ سال پہلے جنرل مشرف واجپائی سے ہاتھ ملانے خود آگے بڑھے تھے۔ اس دفعہ دونوں وزرائے اعظم کے ہاتھ ایک ساتھ آگے بڑھے ۔ شابا ش نیپال۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں