"JDC" (space) message & send to 7575

ساندل رنگ

راوی اور چناب کے درمیانی رنگ کو رچنا دوآبہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کا پرانا نام ساندل بار ہے۔ انگریز نے 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کیا تو یہ علاقہ بے آب و گیاہ تھا۔ہر طرف ریت کے ٹیلے تھے اور ببول کے درخت۔بارش بہت کم ہوتی تھی۔جھنگ کمالیہ اور پیر محل کے علاوہ کوئی شہری آبادی نہ تھی۔آج کا فیصل آباد ضلع جھنگ کا حصہ تھا۔ آج جہاں فیصل آباد واقع ہے وہاں دو تین گائوں تھے۔جھنگ سے لاہور جانے والے اونٹوں کے قافلے اور گھڑ سوار یہاں رک کر آرام کرتے تھے۔جھنگ کے ڈپٹی کمشنر نے پنجاب کے گورنر سرجیمز لائل کو تجویز دی کہ یہاں شہر بنایا جائے اب مشکل یہ تھی کہ اس علاقے کا زیر زمین پانی کھارا تھا۔نہ زراعت کے قابل تھا اور نہ ہی پینے کے۔ چنانچہ چناب سے نہر لوئر چناب کے ذریعہ اس علاقے کو سیراب کرنے کا منصوبہ بنا۔ساتھ ہی ریلوے کا نظام لایا گیا۔ 1902ء میں لائل پور کی آبادی چار ہزار تھی۔کیپٹن ینگ نے یونین جیک کی طرز پر شہر کا نقشہ بنایا۔انگریز زمینی سروے میں ماہر تھے۔ زمینی ڈھلان کے مطابق رکھ برانچ‘ گوگیرہ برانچ اور جھنگ برانچ کھودی گئیں۔ 1892ء میں پہلی مرتبہ نہروں میں پانی چھوڑا گیا۔ 1895ء میں لائل پور اور وزیر آباد کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی اور اب ذکر ہو جائے ساندل بار کے اس عظیم سپوت کا جو 1857ء میں انگریز کے خلاف اپنے بڑھاپے کے باوجود جوانمردی سے لڑا۔اس مجاہد کا نام احمد خان کھرل تھا اور وہ راوی کے کنارے جھامرہ گائوں کا رہنے والا تھا۔ اپنے قبیلے میں اس کا ممتاز مقام تھا۔میرٹھ میں جنگ آزادی کا شعلہ بھڑکا ۔انگریز کو لڑاکا سپاہیوں کی اشد ضرورت تھی۔انگریز صرف آٹھ سال کے عرصے میں پنجاب کے زمینداروں کا مالیہ کم کر کے اپنے لیے ان کے دلوں میں جگہ بنا چکا تھا۔ انگریز کے آنے سے ہی پنجاب کے مسلمانوں کو سکھا شاہی سے آزادی ملی لہٰذا پنجاب کے بیشتر مسلمان1857ء میں انگریز کی حامی تھے۔
مگر پنجاب میں ایک شخص تھا جس نے بہادر شاہ ظفر کی حمایت نہ چھوڑی اور وہ تھا کھرل قبیلے کا سردار احمد خان۔انگریز سرکار نے اپنے ممتاز سول سرونٹ برکلے کے ذمہ لگایا کہ وہ ساندل بار اور نیلی بار کے علاقے سے جنگجو سپاہی اور گھوڑے روانہ کرے۔برکلے نے احمد خان کو گوگیرہ طلب کیا اور جنگی امداد طلب کی اور ساتھ ہی کہا کہ اس امداد کے عوض میں تمہیں لندن سے تعریفی سند منگوا کر دوں گا۔احمد خان نے برکلے کو تاریخی جواب دیا ''ہم لوگ اپنی زمین‘ عورتیں اور گھوڑیاں کسی دوسرے کو نہیں دیتے۔‘‘احمد خان کے گائوں جھامرہ سے انگریز نے عورتوں اور بچوں کو گرفتار کیا اور گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔چند روز بعد احمد خان نے گوگیرہ جیل پر حملہ کر کے اپنے قیدیوں کو رہا کرا لیا۔برکلے نے ملتان سے فوجی امداد طلب کی ۔کیپٹن بلیک کی سربراہی میں رسالے کے بیس گھوڑے اور کئی پیادہ سپاہی آئے۔احمد خان نے ان کے حملے کو پسپا کر دیا۔انگریزوں کے سپاہی جگہ جگہ احمد خان کو تلاش کر رہے تھے۔بالآخر برکلے کو خبر ملی کہ احمد خان گوگیرہ کے قریب ایک جنگل میں ہے۔ برکلے جنگل میں پہنچا۔ احمد خان ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا کہ برکلے نے فائر کا حکم دیا۔ایک سکھ سپاہی کی گولی احمد خان کے سینے سے پار ہو گئی۔ لوک گیتوں اور کہانیوں کے مطابق اس دن اسلامی کیلنڈر کے حساب سے دس محرم کی تاریخ تھی۔انگریز کے خلاف یہ بغاوت تین مہینے چلی۔راوی پار وٹو قبیلہ نے احمد خان کا ساتھ دیا۔ایک نامعلوم مقامی شاعر نے یہ مصرع لکھا ع 
اوہنوں انکھی نہیں سمجھدا جیہڑا احمد خاں دا درد وسارے 
یعنی جو شخص احمد خان کھرل کا درد بھول گیا میں اسے غیرت مند نہیں مانتا۔
ایک اور مقامی شاعر نے لکھا کہ انگریز سمجھ بیٹھے تھے کہ احمد خان کو قتل کر کے پنجاب کا سر نیچا کر دیا۔لیکن اس جرم کا بدلہ فوراً لیا گیا۔احمد خان کی شہادت کے دو دن بعد برکلے کو راوی پار کرتے ہوئے مارا گیا۔انگریز نے یہ مشہور کیا کہ برکلے گھوڑے پر سوار ہو کر راوی عبور کر رہا تھا کہ دریا میں ڈوب گیا جبکہ مقامی روایت کے مطابق مراد فتیانہ نے احمد خان کا بدلہ لینے کے لیے برکلے کا پیچھا کیا اور دریائے راوی میں خود اسے اپنے نیز سے ہلاک کیا۔ 
انگریزی استعمار کا ایک اور بڑا باغی جسے مشرقی پنجاب میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے‘ بھگت سنگھ تھا۔ بھگت سنگھ بھی ساندل بار کا رہنے والا تھا اور نوجوانی میں تختہ دار پر پہنچا۔مشہور پنجابی محقق شفقت تنویر مرزا کے مطابق کارل مارکس نے احمد خان کھرل کے بارے میں تعریفی کلمات لکھے۔
ساندل بار کو آباد کرنے میں کئی عوامل برٹش سرکار کے پیش نظر تھے۔ سب سے اہم پہلو تو یہ تھا کہ اس علاقے میں کپاس پیدا کر کے مانچسٹر کی ملوں تک پہنچائی جائے۔ بنگال کے قحط کی یادیں بھی ابھی تازہ تھیں اور ساندل بار میں غلہ پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔اس عمل سے پنجاب کے گنجان آباد اضلاع یعنی جالندھر‘ ہوشیار پور‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ سے آبادی کا دبائو کم ‘کرنا بھی مقصود تھا۔لیکن ایک بڑا مقصد سیاسی بھی تھا اور وہ یہ کہ دیگر اضلاع سے وفادار سکھ اور مسلمان بسا کر ساندل بار میں برٹش سرکار کی پوزیشن مضبوط کی جائے۔احمد خان کی سوچ کو کمزور کیا جائے۔
1947ء میں اس علاقہ کی آبادی کی ہیئت ترکیبی پھر سے بدل گئی۔مشرقی پنجاب سے مہاجر آئے۔ہندو تاجر اور صنعت کار کی جگہ سہگل اور چنیوٹ کے شیخ آ گئے۔ ان لوگوں نے اس خطے کی اقتصادی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا۔لائل پور پاکستان کا مانچسٹر بنا۔یہاں کے لوگ محنتی اور ذہین ہیں۔آج کا فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اب فیصل آباد ڈویژن میں کپاس بہت کم ہوتی ہے انرجی کا شدید بحران ہے لیکن اس کے باوجود فیصل آباد کا شہر ٹیکسٹائل کا مرکز ہے اوراب ٹیکسٹائل کے کاروبار میں چنیوٹ کی شیخ برادری کے علاوہ کئی نئے لوگ آ گئے ہیں۔ اس علاقے کے لوگوں نے نامساعد حالات سے ہار نہیں مانی۔فیصل آباد کا اکلوتا شہر اربوں روپے کی ایکسائز ڈیوٹی دیتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بدنظمی کی وجہ سے زرعی پانی کی شدید کمی ہے۔وہاں کے لوگ پولٹری کی صنعت میں چلے گئے ہیں انہوں نے حالات کے چیلنج کو بڑی ہمت اور ذہانت سے قبول کیا ہے۔1943ء تک یہ علاقہ باقی پنجاب کی طرح انگریز کی حمایت یافتہ یونینسٹ پارٹی کے زیر اثر تھا۔ یہ بڑے بڑے زمینداروں کی پارٹی تھی اور نظریہ پاکستان کی مخالف۔1943ء میں قائد اعظمؒ لائل پور آئے اور دھوبی گھاٹ میں ایک تاریخی جلسے سے خطاب کیا۔سیاسی فضا مسلم لیگ کے حق میں بدلنے لگی۔ اس سیاسی تبدیلی میں میاں نور اللہ اور ان کی فیملی کا بڑا اہم رول تھا۔فیصل آباد کے دو بڑے اور معروف محلے عبداللہ پور اور طارق آباد اسی خاندان کی زمین پر بنے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل میں بائیں بازو کی تنظیم‘ کسان کمیٹی عرصے تک سرگرم عمل رہی۔مگر 1946ء کے الیکشن میں ٹوبہ کے لوگ بھی مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ ہوا۔تمام سرکاری دبائو کے باوجود ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محترمہ کو زیادہ ووٹ ملے اور صدر ایوب کو کم۔کراچی شہر کے علاوہ پورے مغربی پاکستان میں ٹوبہ میں ہی اتنا سیاسی شعور نظر آیا۔
1970ء کے الیکشن آئے تو یہ علاقہ ذوالفقار علی بھٹو کا حامی تھا۔پیپلز پارٹی نے کئی غیر معروف لوگوں کو ٹکٹ دیے اور وہ کامیاب ہوئے۔ 2013ء کے الیکشن میں فیصل آباد ڈویژن مسلم لیگ کا قلعہ کہلایا لیکن 8دسمبر 2014ء کو شہر کا ایک بڑا حصہ تحریک انصاف کے ساتھ تھا۔ اس علاقے میں سیاسی شعور بہت ہے۔مزاحمت کی تاریخ بھی ہے جو پارٹی اپنے وعدے پورے نہیں کرے گی ساندل بار اسے تاریخ کا حصہ بنا دے گی۔ اس علاقے کے لوگوں میں آگے بڑھنے کی لگن ہے تعلیم کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔چند سال پہلے پرائیویٹ سیکٹر میں ایک اچھی یونیورسٹی کا اضافہ ہوا۔زرعی یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار خان کئی سالوں سے سرگرم عمل ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی میں نئی روح پھونک دی ہے۔ ہاں! جب کالم لکھا جا رہا ہو ساندل بار پر‘ تو گوجرہ کا ذکر ضروری ہے اور میرے اپنے سکول کا جس نے ہاکی کے کئی اولمپین پیدا کئے۔آج کی نیشنل کبڈی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی بشمول کپتان بابر گجر اسی ایریا سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس علاقے کے تین بنیادی مسئلے ہیں۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کو گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔فیصل آباد ملتان موٹر وے پر آدھا کام ہوا ہے اور اب کام کی رفتار انتہائی سست ہے۔ سنا ہے کہ اس منصوبہ کے لیے مختص فنڈز کہیں اور چلے گئے ہیں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے۔میاں صاحب یہ تینوں مسئلے جلد ازجلد حل کریں۔ساندل بار میں ہوا کا رخ بدل بھی سکتا ہے!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں