"JDC" (space) message & send to 7575

مصلح فرمانروا

کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ چالیس سال تک نیشنل گارڈ کے سربراہ رہے۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ کرائون پرنس رہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمر کے آخری حصہ میں شاہ فہد بن عبدالعزیز کی صحت اتنی اچھی نہ تھی چنانچہ روزمرہ کے تمام امور کرائون پرنس عبداللہ ہی چلاتے تھے۔ بطور ولی عہد بہت ہی فعال تھے۔ مڈل ایسٹ کے لیے امن پلان پیش کیا اور تمام عالمی برادری کو بتایا کہ اسرائیل اگر 1967ء کی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو آزاد فلسطینی ریاست بناکر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ ایک بھی عرب ملک نے اس پلان کی مخالفت نہ کی۔ گویا کہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی آواز پورے عالم عرب بلکہ عالم اسلام کی آواز تھی۔
کنگ عبداللہ بن عبدالعزیز 2005ء میں بادشاہ بنے۔ ان کا شمار دنیا کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا رہا۔ جو اصلاحات ان کے دور میں ہوئیں وہ پہلے نہیں ہوئی تھیں۔ سعودی معاشرہ قدامت پسند ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ آج سے کافی عرصہ پہلے جب ٹیلی فون آیا تو سعودی علما ء نے اس ایجاد کی مخالفت کی۔ موجودہ سعودی عرب کے موسس کنگ عبدالعزیزبہت ہی زیرک انسان تھے۔ انہوں نے علما ء کو شاہی محل آنے کی دعوت دی ۔انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا۔ چند کو ایک کمرے میں بٹھایا اور دوسرے گروہ کو کافی دور دوسرے کمرے میں۔ دونوں کمروں کے درمیان ٹیلی فون کا رابطہ تھا۔ پھر ایک عالم سے درخواست کی گئی کہ آپ تلاوت کلام پاک فرمائیں۔ علماء کے دوسرے گروہ کو کہا کہ آپ سب باری باری فون سنیں۔ چنانچہ علماء اس بات کے قائل ہوگئے کہ اس سائنسی ایجاد کو نیک مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب تصور کیجیے کہ اسی قدامت پسند معاشرے میں کنگ عبداللہ نے ریاض کے پاس ایک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی انٹرنیشنل یونیورسٹی بنائی جہاں لڑکے ، لڑکیاں دونوں پڑھتے ہیں۔ یہ ایسی شاندار یونیورسٹی ہے کہ امریکہ اور یورپ سے آئے ہوئے طلبا بھی یہاں زیر تعلیم ہیں۔ سعودی پارلیمنٹ، جسے شوریٰ کونسل کہا جاتا ہے،میں خواتین کو نمائندگی کنگ عبداللہ کے عہد میں ملی اور اب خواتین کو بلدیاتی الیکشن لڑنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ کنگ عبداللہ کی وفات پر بیان دیتے ہوئے فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ صحیح معنوں میں ریفامر تھے۔ ان کے زمانے میں سعودی عرب میں چار صنعتی شہر بنائے گئے۔ بے پناہ اقتصادی ترقی ہوئی۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نکلے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ سعودی حکومت نوجوانوں کو شادی کے لیے قرضے دیتی ہے ، اس لیے کہ ازدواجی بندھن فسق وفجور کو کم کرتا ہے۔
تین چار سال قبل پوری عرب دنیا میں عرب سپرنگ کی لہرزور شور سے آئی تھی۔ عام خیال تھا کہ عرب بادشاہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے لیکن عرب سپرنگ سعودی عرب کے لوگوں کو متاثر نہ کرسکی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ آل سعود اپنے عوام سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ نوجوان اگر بے روزگار ہوں تو انہیں گزارا الائونس ملتا ہے۔ تمام خلیجی ممالک میں مجلس کا سسٹم پرانا ہے۔ بادشاہ سے لے کر مقامی والی تک لوگوں کو ملتے رہتے ہیں۔یہ ایک قسم کی کھلی کچہری ہوتی ہے، جہاں آنے کے لیے کسی دعوت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر شخص اپنی شکایت شکوہ بلاخوف بیان کرسکتا ہے۔ کنگ عبداللہ مرحوم کے بارے میں ہمیشہ سے یہ تاثر تھا کہ وہ عامۃ الناس کو مل کر خوش ہوتے ہیں۔ ان کی والدہ کا تعلق شمار قبیلہ سے تھا۔ اس قبیلہ کے لوگ سعودی عراقی بارڈر کے دونوں جانب رہتے ہیں۔ اس قبیلہ کے نوجوان نیشنل گارڈ ز میں بڑے شوق سے بھرتی ہوتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر مذکور ہے کنگ عبداللہ کا بین الاقوامی قد کاٹھ بہت بلند تھا۔ مشرق وسطیٰ امن پلان کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی سعودی کوششیں قابل قدر ہیں۔ او آئی سی میں ایک کشمیر رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس میں سعودی عرب کا نمائندہ شامل تھا،یہ اور بات کہ بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ رابطہ کمیٹی مقبوضہ کشمیر کا دورہ نہ کرسکے۔ اسی طرح افغانستان امن کوششوں میں کنگ عبداللہ فعال کردار ادا کرتے رہے۔ افغان دھڑوں میں صلح کا معاملہ ہو یا طالبان کو امن کی طرف لانا ،سعودی فارن پالیسی ہمیشہ متحرک رہی۔
یہاں پاک سعودی تعلقات کا ذکر ضروری ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کا تعلق ہمہ جہتی ہے۔ دونوں ملکوں میں عسکری تعاون رہا ہے۔ پاکستان پر1998ء میں اقتصادی طور پر مشکل وقت آیا۔ بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں لگیں تو ہمیں سعودی تیل ملنے لگا۔ صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا اور پھر سعودی عرب کو آنکھیں دکھائیں تو دوست ممالک سے فوجی مدد طلب کی گئی۔ پاکستان ان ممالک میں شامل تھا۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز2004ء میں بطور کرائون پرنس پاکستان آئے اور دیگر مصروفیات کے علاوہ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اجتماع سے خطاب کیا۔ میں وہاں موجود تھا۔ مرحوم و مغفور کی تقریر محبت کے جذبات سے لبریز تھی اور پھر آخر میں انہوں نے بلند آواز میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا جو عرصے تک ہمارے کانوں میں گونجتا رہا۔
سعودی عرب کا تعلق اور قریبی تعلق تمام پاکستانی حکام سے رہا۔ اس میں سول اور ملٹری حکمرانوں کی تفریق کبھی نہیں ہوئی۔ جنرل 
ضیاء الحق کا سعودی قیادت سے ہمیشہ رابطہ رہتا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف تو برسوں سعودی مہمان رہے۔ کنگ عبداللہ کی وفات ہوئی تو جنرل پرویز مشرف بھی ریاض جانا چاہتے تھے کہ مرحوم کے ساتھ ان کے مراسم تھے اور مجھے یاد ہے کہ 2004ء میں عارضی وزیراعظم چودھری شجاعت حسین عمرہ کے لیے سعودی عرب گئے۔ شاہ فہد کی طبیعت ناساز تھی لہٰذا سرکاری بات چیت کا دور کرائون پرنس عبداللہ بن عبدالعزیز کے ساتھ ہوا۔ میں وہاں سرکاری حیثیت میں موجود تھا۔ کرائون پرنس کی باتوں میں پاکستان اور امت مسلمہ سے محبت چھلک رہی تھی۔ بات چیت کا دور ختم ہوا تو کرائون پرنس پاکستانی وزیراعظم کو محل کے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ یاد رہے کہ سعودی محل بہت وسیع و عریض ہوتے ہیں۔ میں لیڈروں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ جب تک ہم گیٹ تک نہیں پہنچے کرائون پرنس نے چودھری شجاعت کا ہاتھ پکڑے رکھا۔ 2005ء میں پاکستان میں تباہ کن زلزلہ آیا اور چند سالوں بعد دو مرتبہ سیلاب آئے ۔ان تمام قدرتی آفات میں سعودی مدد پیش پیش رہی۔ کنگ عبداللہ مرحوم کے دل میں انسانیت سے محبت موجزن تھی۔
مرحوم و مغفور کی سب سے بڑی صفت مذہبی اعتدال پسندی تھی۔ وہ اسلام سے محبت کرتے تھے۔ انہی کے عہد میں حرمین کا سب سے بڑا توسیعی منصوبہ شروع ہوا ،جو اب بھی جاری ہے۔ وہ انتہا پسندی کو قطعاً پسند نہ کرتے تھے۔ دوسرے ادیان کا احترام ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ انہوں نے ادیان کے درمیان مکالمے کی بنیاد ڈالی۔ کیتھولک عیسائیت کے ہیڈ کوارٹر ویٹیکن سٹی گئے۔ پوپ سے ملاقات کی۔ موصوف بہت ہی کھلے ذہن کے انسان تھے۔ انہوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں سعودی نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ تعلیم کے لیے بھیجا ۔وہ بے حد دور اندیش تھے۔ ماڈرن تعلیم کے حصول کو ضروری سمجھتے تھے، ساتھ ہی وہ قدیم عرب روایات کے امین تھے۔ 1985ء میں مرحوم کی سرپرستی میں ریاض کے قریب جنادریہ فیسٹیول شروع ہوا۔ ریاض میں گُھڑ سواری کا بڑا کلب ہے ۔بطور کرائون پرنس وہ اس کے سرپرست تھے۔ 
آل سعود پہلے بھی عرب کے حکمران رہے ہیں۔ کنگ عبداللہ جو اپنے آپ کو خادم الحرمین الشریفین کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے موجودہ سعودی عہد کے چھٹے بادشاہ تھے۔ ان کی جگہ پرنس سلمان بن عبدالعزیز بادشاہ بنے ہیں۔ پرنس سلمان نصف صدی سے زیادہ عرصہ ریاض کے گورنر رہے اور اسے چھوٹے سے قصبے سے ایک ماڈرن شہر بنا دیا۔ جہاں وسیع سڑکیں ہیں، اعلیٰ یونیورسٹیاں ہیں اور بہت ہی ماڈرن طبی سہولیات موجود ہیں۔ بجلی ایک منٹ کے لیے نہیں جاتی۔ نظم وضبط ہے۔
آل سعود کی سب سے بڑی کامیابی قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون کو سختی سے نافذ کیا جاتا ہے۔ منشیات سمگل کرنے والوں کی گردنیں قلم ہوجاتی ہیں۔کریمینل کیسز میں مدعی اور مدعاعلیہ اپنی اپنی وکالت خود کرتے ہیں۔ مقدموں کے فیصلے ہونے میں غیر ضروری تاخیر نہیں ہوتی۔ سعودی عرب میں ڈسپلن ہے۔ مظاہرے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ سٹرائیک قسم کی چیز کا تصور بھی نہیں۔ اللہ مغفور کو جنت میں جگہ دے ۔وہ سچے اور مخلص مسلمان تھے اور القاعدہ اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کے سخت مخالف۔ آج تک سعودی علما ء جمعہ کے خطبات حکومت کی ہدایات کے مطابق دیتے ہیں اور مقصد صرف یہ ہے کہ مساجد کے منابر سے کوئی نفرت اور تفرقہ والی بات نہ ہو۔
نئے فرمانروا بھی حکومتی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور مجھے بخوبی علم ہے کہ پاکستان کے لیے ان کے دل میں نرم گوشہ موجود ہے۔ اللہ انہیں کامیاب کرے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مفادات مشترکہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں