"JDC" (space) message & send to 7575

سمرقند و بخارا

حافظ شیرازی فارسی شاعری کے عظیم اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی خوبصورت غزل کا ایک شعر جو آج بھی خاص و عام کو معلوم ہے‘ اس میں فرماتے ہیں کہ اگر میرا شیرازی محبوب میری محبت کو قبول کرلے تو میں اس کے رخسار کے تل کے بدلے میں سمرقند اور بخارا بخش سکتا ہوں۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اس عظیم شاعر کے نزدیک سمرقند اور بخارا اس زمانے میں دنیا کے اہم ترین شہر تھے۔ یہ دونوں شہر شاہراہ ریشم پر واقع تھے۔ یہ قدیم تجارتی روٹ چین سے شروع ہوکر یورپ تک جاتا تھا۔ اسی تجارتی راستے کے ذریعے بدھ مت سنٹرل ایشیا میں پھیلا اور چینی ماہروں نے یورپ والوں کو کاغذ بنانے کا ہنر سکھایا۔
سمرقند دنیا کے قدیم شہروں میں سے ہے اور اس کے ہم عمر دوسرے شہر اٹلی کا روم اور ہمارا ملتان ہیں۔ سمرقند کی خوبصورتی اور ترقی میں امیر تیمور‘ جسے تیمور لنگ بھی کہا جاتا ہے‘ کا اہم رول ہے کہ یہ شہر تیمور کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اسی شہر میں ریگستان کا مشہور چوک ہے جہاں تین تاریخی اسلامی مدرسے ہیں۔ آج ان مدرسوں کی وجہ شہرت دینی تعلیم کی بجائے ان کی عمارتیں ہیں‘ جن پر مشہور نیلی ٹائلوں پر نقش و نگار کا دلکش کام ہے اور آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں۔ اس شہر کے مضافات میں امام بخاری ؒ دفن ہیں جو احادیث نبوی جمع کرنے اور ان کی تحقیق میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ تیمور کا مزار بھی یہیں ہے جو گورا میر کے نام سے معروف ہے۔ بخارا شریف کی اپنی ہی شان ہے۔ یہاں سو سے زائد تاریخی مقامات ہیں۔ پورا شہر ایک وسیع میوزیم ہے۔ اس شہر نے دین کی خدمت اور تجارت‘ دونوں میں نام کمایا۔
جب میری پوسٹنگ دوشنبے میں بطور سفیر ہوئی تب تاجکستان کا پاکستان سے ہوائی رابطہ نہ تھا۔ پاکستان آنے جانے کے لیے نزدیک ترین ایئرپورٹ تاشقند تھا۔ لہٰذا اس پوسٹنگ میں‘ میں نے ازبکستان کو اچھی طرح دیکھا۔ پنج کنت تاجکستان کا اہم صوبہ ہے۔ دوشنبے سے بذریعہ کار پنج کنت جانے کا واحد راستہ سمرقند سے گزر کر جاتا ہے۔ پنج کنت میں‘ میں دو تین مرتبہ گیا۔ گورنر صاحب کو ملنا ضروری تھا۔ عبداللہ رودکی کے مزار پر حاضری بھی ضروری تھی کہ تاجکستان کے قومی شاعر ہیں۔ شہر سے کچھ فاصلے پر ایک پاکستانی سرمایہ کار نے لیدر جیکٹ بنانے کی فیکٹری لگائی ہوئی تھی۔ وہاں جاکر پاکستانی ورکرز سے ملا اور پھر گولڈ فیکٹری میں سونا بنانے کا عمل دیکھا۔ ایک کینیڈین کمپنی تاجک گورنمنٹ کی شراکت سے سونا بنارہی تھی اور پاکستانی اس کمپنی میں بھی تھے۔ پہلی مرتبہ گیا تو گورنر صاحب نے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ یہ ان کا پاکستان کے لیے محبت کا اظہار تھا۔
دوشنبے سے سمرقند کا سفر تقریباً پانچ گھنٹے کا ہے۔ سمرقند پہنچنے سے ایک گھنٹہ قبل وہ قصبہ آتا ہے جہاں تیمور لنگ کی پیدائش ہوئی۔ اس کے آس پاس شہر سبز بھی ہے جہاں سے مرزا غالب کے آباء ہندوستان آئے تھے۔ یہ پورا علاقہ یعنی سنٹرل ایشیا عمومی طور پر اور ازبکستان خصوصی طور پر ہم پاکستانیوں کے لیے بے شمار تاریخی حوالے رکھتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں وہاں پاکستان سے سیاح بھی بہت گئے اور سرمایہ کار بھی اور پھر بوجوہ یہ سلسلہ ماند پڑنے لگا اور جب پاکستان دہشت گردی کی زد میں آیا تو ازبک ویزہ حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کی طرح مشکل ہوگیا۔
امیر تیمور آج کے ازبکستان کا قومی ہیرو ہے۔ جگہ جگہ اس عظیم فاتح کے مجسمے لگے ہوئے ہیں لیکن موصوف تاریخ کی متنازع شخصیت ہیں۔ تیمور نے 1398ء میں دہلی کو تاراج کیا۔ بغور فتح کیا تو نوے ہزار انسانی سروں کا ڈھیر لگا دیا۔ تیمور کے ظلم و ستم کی وجہ سے تاجک آج بھی اس تاریخی لیڈر سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ تیمور کی اچھی صفات میں علم دوستی تھی۔ مرنے سے پہلے وصیت کی کہ مجھے میرے استاد محترم کے پہلو میں دفن کیا جائے اور میری قبر ان سے نیچی رکھی جائے۔ تیمور نے سمر قند کو وہ ترقی دی کہ وہ شہر عالم میں قابل رشک ہوا۔
گورا میر پر میں دو مرتبہ گیا ہوں۔ یہاں امیر تیمور‘ ان کے استاد اور دو بیٹے شاہ رخ اور میراں شاہ دفن ہیں۔ پہلی مرتبہ تو میں مزار کے نقش و نگار پر غور کرتا رہا کہ ایرانی اور ترکی میں فن تعمیر کا خوبصورت امتزاج ہے۔ دوسری مرتبہ سمر قند جانے لگا تو دو شنبے میں میرے دوست پروفیسر رسول ہادی زادہ نے عجیب قصہ سنایا ۔ کہنے لگے کہ تیمور نے کہا تھا کہ جس نے جب بھی میری قبر کو کھولا‘ وہ مجھ سے بڑے حملہ آور کو دعوت دے گا۔ 1941ء میں سوویت سائنسدانوں نے تیمور کی میت کو فولادی صندوق سے نکالا اور دو روز بعد ہٹلر نے حملہ کردیا۔ اس وقت تیمور کی وفات کو پانچ سو سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا۔
اس دفعہ میں گورا میرپر فاتحہ پڑھ رہا تھا تو اس کی باز گشت کا سامنا تھا۔ پھر اس مرتبہ ٹورسٹ کو یہ کہنے کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ مجھے تہہ خانے میں قبروں کے پاس لے جائے۔ میں اپنی ذہنی ہیبت کو دور کرنے کے لیے امام بخاری ؒ کے مزار کی طرف روانہ ہوگیا۔ سوویت یونین کے دور تک ماسکو کی پالیسی مذاہب کے بارے میں سخت رہی کہ کارل مارکس نے مذہب کو عوام کی افیون کہا تھا۔ چنانچہ امام بخاری ؒ کا مزار بھی عرصے تک بند رہا۔1960ء کی دہائی میں انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو سرکاری دورے پر آئے اور امام بخاری ؒ کے مزار پر جانے کی خواہش ظاہر کی؛ چنانچہ کئی عشروں کے بعد مزار کے احاطہ کو کھولا گیا۔ آج یہ جگہ مرجع خاص و عام ہے۔
سمرقند کے شہر کے پاس ہی شاہ زندہ کا قبرستان ہے جہاں لوکل روایت کے مطابق رسول اکرم ؐ کے قریبی عزیز حضرت کسام ابن عباسؓ کو شہید کیا گیا اور ان کا دھڑ سر کے بغیر کئی قدم تک چلتا رہا۔ اب جب بھی سمر قند جائیں‘ الغ بیگ کی رصد گاہ دیکھنا نہ بھولیں۔ الغ بیگ تیمور کا پوتا تھا۔
بخارا شریف کو دیکھنے کے لیے کئی دن درکار ہیں اور میرے پاس نصف روز تھا؛ چنانچہ میں اسماعیل سامانی کے مزار پر گیا کہ تاجک ان پر بے حد فخر کرتے ہیں۔ سلطنت سامانیاں میں ہمارا بلوچستان بھی شامل تھا۔ سامانیوں نے ایک سو اسی سال حکومت کی۔ ان کی سلطنت میں سنٹرل ایشیا افغانستان اور ایران شامل تھے۔ یہ نویں اور دسویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے یعنی تیمور سے بہت پہلے۔ اس دور میں تاجکوں کا افتخار یعنی بو علی سینا اپنے طب کے بیش بہا علم سے دنیا کو فیض یاب کرتا رہا۔ اسماعیل سامانی کے مزار سے میں میر عرب مدرسے کی جانب روانہ ہوا۔ یہ مدرسہ شیخ عبداللہ یمانی سے منسوب ہے جو یمن سے بخارا آئے تھے۔ مدرسہ سولہویں صدی عیسوی میں مقامی حاکم عبیداللہ خان نے تعمیر کروایا۔ عربوں نے بخارا شریف کو دو القاب سے پکارا ہے۔ پہلا لقب مدینۃ الصوفیاء تھا اور دوسرا مدینہ التجار۔ یہ شہر دین اور دنیا دونوں کے حوالے سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا۔
بخارا شریف کا برصغیر سے ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ بخاری پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں موجود ہیں۔ اس ہجرت کا زیادہ فروغ مغلیہ دور میں ہوا۔ بخارا شریف کی تاریخ میں سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں شیعہ مسلک کے مسلمانوں پر مظالم کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں جہانگیر اور شاہ جہاں کا دور تھا۔ مغل حکمران اپنے وطن سے آنے والوں کو جاگیریں اور مناصب دینے میں فیاض تھے۔ سنٹرل ایشیا سے ہندوستان آنے والوں میں سادات بھی کافی تعداد میں تھے اور ان میں شیعہ اور سنی دونوں شامل تھے۔ اس وقت سنٹرل ایشیا کے اکثر لوگ ترکی اور فارسی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔
جہانگیر سنی مسلک کا تھا لیکن نور جہاں ایران کے اثنا عشری خاندان سے تھیں۔ شاہ جہاں کی چہیتی ملکہ ممتاز محل نور جہاں کی بھتیجی تھی اور وہ بھی شیعہ مسلک پر قائم رہی۔ مغلوں میں مذہبی روا داری وافر تھی۔ لہٰذا انہوں نے سنٹرل ایشیا سے آنے والے دونوں مسالک کے لوگوں کو گلے لگایا۔ بخارا شریف اور سمر قند کی تاریخ پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ آج سے چار سو سال پہلے ہمارے خطے میں مسالک کی مخاصمت نام کو نہ تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے ان چار صدیوں میں بہت معکوس ترقی کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں