"JDC" (space) message & send to 7575

ٹورنٹو اور نیاگرا فالز

کینیڈا کی یادیں ٹورنٹو کے ذکر خیر کے بغیر نامکمل رہیں گی۔ اونٹاریو، کینیڈا کا خاصا بڑا اور اہم صوبہ ہے۔ کینیڈا کی بیشتر آبادی جنوب میں رہتی ہے یعنی امریکن بارڈر کے آس پاس ۔ٹورنٹو سے امریکن بارڈر یعنی نیاگرا کا شہر ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔ زمین زرخیز ہے ،سیب کے بے شمار باغات ہیں، یہ ملک سردیوں میں سفید چادر اوڑھ لیتا ہے لیکن موسم گرما میں مسحور کن حد تک سرسبز ہوتا ہے۔ جتنے خوبصورت ٹیولپ (Tulip) کے پھول کینیڈا میں ہوتے ہیں ویسے شاید ہالینڈ میں ہوتے ہوں گے اور کسی جگہ نہیں۔ لوکل لوگ بتاتے تھے کہ ہالینڈ کی ملکہ نے دوسری جنگ عظیم میں کینیڈا میں پناہ لی اور پھر واپس جا کر کئی سال تک ٹیولپ کے بیج‘ جو پیاز نما ہوتے ہیں‘ کینیڈا تحفہ کے طور پر بھیجتی رہیں۔ پھول گل لالہ کی طرح ہوتے ہیں مگر کئی رنگوں کے اور ان پھولوں کی وسیع کیاریاں اوٹاوہ اور ٹورنٹو دونوں کے حسن میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ ٹورنٹو، اونٹاریو کے صوبے کا دارلحکومت ہے۔ اس شہر کی اپنی ٹورنٹو یو مشہور یونیورسٹی ہے۔ نواحی قصبوں میں اور کئی یونیورسٹیاں ہیں جن میں واٹرلو یونیورسٹی زیادہ مشہور تھی۔ ٹورنٹو میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ جب میں وہاں تھا تو انگریز بیک گرائونڈ (پسِ منظر) کے گورے ٹورنٹو میں واضح اکثریت میں تھے ۔ یہ کینیڈا میں اپنی شناخت WASP کی اصطلاح سے کرتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ ۔ آبادی کے اس حصے میں کلچرل اور نسلی برتری کا احساس ضرور ہے مگر یہ نئے آنے والے لوگوں کو بھی برداشت کر رہے ہیں کیونکہ کم آبادی والے ترقی یافتہ ملک کی طرف دوسرے ممالک سے آبادی کا بہائو فطری عمل ہے۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ انڈین، پاکستانی اور چینی ملا کر ٹورنٹو کی نصف آبادی کے برابر ہیں۔ نئے کینیڈین اس لیے خوش ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہے اور قانون سب کے لیے برابر ہے ۔
اب مجھے 1979ء کا رائل یورک ہوٹل یاد آ رہا ہے جو اس وقت ٹورنٹو کا پرانا مگر شاندار ہوٹل تھا ۔ ٹورنٹو میں پاکستانی قونصل خانہ ابھی نہیں کھلا تھا، میں وہاں ہر ماہ ایک سٹاف ممبر کے ساتھ جا کر دو دن کے لیے رائل یورک میں دفتر لگاتا تھا۔ ڈائون ٹائون میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بسیں بھی آتی تھیں اور زیر زمین میٹرو ٹرین کا سٹیشن بھی پاس تھا ۔ ٹورنٹو میں رش اور پارکنگ کے مسائل کی وجہ سے کئی لوگ کار کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں ۔چونکہ پاکستانیوں کی اکثریت تب بھی ٹورنٹو میں رہتی تھی، لہٰذا ہمارا عارضی دفتر لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا ۔ کام بھی ہوتا رہتا تھا اور پاکستانی بھائیوں سے گپ شپ بھی۔ ان دو دنوں میں ہم چار پانچ سو پاکستانی پاسپورٹ بغیر کسی ارجنٹ فیس کے ہاتھوں ہاتھوں ایشو کر دیتے تھے۔ ٹورنٹو کے لوگ اسی وجہ سے سفارت خانہ سے بہت خوش تھے۔ یہ قانون بعد میں بنا کہ فوری پاسپورٹ کے لیے ارجنٹ فیس ضروری ٹھہری۔ اس قانون کی بھی ایک منطق ہے۔
رائل یورک ہوٹل میں ایک بھلے سے صاحب آئے، کوئی پچاس پچپن کے پیٹے میں ہونگے۔ انہیں ان کے بیٹے نے امیگریشن کے لیے سپانسر کیا تھا۔ میں نے پوچھا سنائیے کیسی گزر رہی ہے ۔ کہنے لگے کہ سالوں کا سوچ کر آیا تھا اور مہینوں میں واپس لاہور جا رہا ہوں اور ساتھ ہی ایک کتابچہ لکھ رہا ہوں کہ میری عمر میں کوئی امریکہ یا کینیڈا نہ جائے۔ میں نے کہا کہ یہ ملک صاف ستھرا ہے، لوگ مہذب ہیں، آپ کو کیوں پسند نہیں آیا؟ کہنے لگے دو تین وجوہ ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ سردیوں کے برفانی موسم میں میرے جیسے بوڑھے گھروں میں قید ہو جاتے ہیں، گرمیوں میں بھی بیٹا اور بہو علی الصبح کام پر جاتے ہیں اور میں گھر پر ہوتا ہوں، میں کب تک وی سی آر پر فلمیں اور ڈرامے دیکھوں۔ یہاں لوگوں کے پاس دوسروں کے لئے وقت ہی نہیں، مجھے تو اپنا لاہور بہت یاد آتا ہے۔ اور تیسری وجہ جو انہوں نے بتائی وہ بھی دلچسپ تھی۔ کہنے لگے کہ پوتے پوتیوں کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے یہ آپ کا کام نہیں، وہ مجھے انگریزی میں کہتے ہیں It is none of your business۔ نیاگرا فالز اور سی این ٹاور کے ذکر کے بغیر ٹورنٹو کی حکایت نامکمل رہے گی۔ نیاگرا فالز امریکہ اور کینیڈا کے بارڈر پر ہے۔ دوسری جانب نیویارک سٹیٹ ہے۔ بے تحاشا پانی 165 فٹ کی بلندی سے گرتا ہے۔ میں نیچے کی لفٹ لے کر پانی کے خاصا قریب چلا گیا ہوں۔ جھرنوں کی مدھر آواز کانوں میں آ رہی ہے۔ ٹورسٹ گائیڈ کہتا ہے، پلاسٹک کا اورآل پہن لیں ورنہ آپ گیلے ہو جائیں گے۔ ہر طرف آبی بخارات ہیں، جیسے ہمارے ہاں سردیوں میں دھند ہوتی ہے۔ نیاگرا فالز کی شکل ہارس شُو یعنی گھوڑے کے نعل جیسی ہے اور یہ اس آبشار کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیتی ہے۔ لفٹ لے کر اوپر سطح زمین پر آتا ہوں، قریب ایک پارک میں جاتے ہیں، یہاں ہر طرف پنجابی بولی جا رہی ہے۔ کئی سکھ فیملیز سیر کے لئے نیاگرا آئی ہوئی ہیں۔ پتا چلا کہ ٹورنٹو اور نیاگرا کے درمیان سیبوں کے کچھ باغات سکھوں کی ملکیت ہیں۔
نیاگرا فالز کے حوالے سے دو لطیفے یاد آ رہے ہیں جو اس زمانے میں مشہور تھے۔ پاکستانی پورے کینیڈا اور امریکہ میں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی ویک اینڈ پر نیاگرا کا پروگرام بناتے ہیں۔ ہر ایک، ٹورنٹو میں دور نزدیک کے رشتہ دار تلاش کرنے کی فکر میں ہوتا تھا۔ ہفتے کے روز ٹورنٹو اپنے عزیز یا دوست کے پاس گئے، رات وہاں گزاری اور پھر درخواست کی کہ اتوار کی صبح ہمیں نیاگرا لے چلیں۔ ٹورنٹو کے پاکستانی اس حوالے سے خاصے تنگ آئے ہوئے تھے۔ ایک منچلا جو کہ پاکستان کے کسی گائوں سے تھا اور اس کے دوست بھی دیہی بیک گرائونڈ کے تھے، اسے خوب سوجھی، جب بھی کسی دوست کا فون آتا وہ جواب دیتا کہ اتوار کے روز نیاگرا فالز بند ہوتی ہے۔ دوسرا لطیفہ ایک نوبیاہتا بیوی کا تھا جو پاکستان سے گئی تھی۔ خاوند کو دلہن پر ترس آیا کہ بے چاری گھر پر بیٹھی بور ہوتی رہتی ہے، وہ اسے نیاگرا فالز دکھانے لے گیا۔ جب سیر مکمل ہو گئی تو بیوی سے پوچھا، تمہیں نیاگرا فالز کیسی لگی۔ بیوی نے ترنت جواب دیا‘ زندگی کی دوسری بڑی مایوسی اور خاوند صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کو فالز اتنا امپریس نہیں کرتیں۔
میں ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر قائم ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوں۔ میرے ساتھ میرے ہم زلف اشرف صاحب تھے جو اب بھی ٹورنٹو کے علاقے مارکھم میں رہتے ہیں۔ یہ ریسٹورنٹ ایک بڑی جھیل کے کنارے واقع ہے یعنی لیک اونٹاریو۔ شہر کی روشنیاں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں لوڈ شیڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر ایسا مسئلہ پیدا ہو جائے تو فوراً حکومت کی چھٹی ہو جائے۔
لاہور کی مال روڈ کی طرح ٹورنٹو کی ینگ سٹریٹ بھی بہت لمبی ہے۔ یہ ٹورنٹو کا اصل تجارتی علاقہ ہے یعنی ڈائون ٹائون۔ ہمارا ہوٹل بھی پاس ہی تھا، ٹورنٹو کے شاندار سینما ہال اور تھیٹر بھی قریب ہی تھے۔ میں نے وہاں کئی ڈرامے دیکھے، ان میں سے شیکسپئر کا ہیملٹ مجھے آج بھی یاد ہے۔ ڈرامہ بہت ہی پروفیشنل طریقے سے سٹیج کیا گیا تھا۔
آج ٹورنٹو میں کوئی ڈیڑھ لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ قونصل خانہ بھی کھل گیا ہے۔ اس زمانے میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ تلاش روزگارمیں جاتے تھے، اب سنا ہے وہ بھی جا رہے ہیں جنہوں نے پاکستان میں بے تحاشا دولت کمائی ہے مگر یہاں رہتے ہوئے اب ان کا دم گھٹتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں