"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور مڈل ایسٹ میں ثالثی

عمران خان کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں فوج بھیج کر پاکستان تنازعے کا فریق بن جائے گااور ثالث کا کردار ادا نہیں کر سکے گا۔ ثالثی کے حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں۔ ثالثی یعنی تیسرے فریق کی صلح یا معاہدے کی کوشش کی کامیابی کے لیے بھی چند شرائط اور اوامر کا ہونا ضروری ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ تنازع میں ملوث دونوں فریق ثالث پر اعتماد کریں اور وہ ثالثی کی درخواست کریں۔
یمن میں اس وقت دو تین فریق آپس میں محاذ آرا ہیں۔ ایک فریق صدر منصور ہادی ہیں جو اصل میں عارضی صدر تھے اور اس وقت یمن سے باہر ہیں۔ دوسرا فریق حوثی باغی ہیں۔ جنہیں سابق صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ باغیوں کے ساتھ مل کر اقتدار دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا دور کرپشن اوربدنظمی سے عبارت تھا۔ حوثی قبیلے نے علی عبداللہ صالح کے خلاف کئی مرتبہ بغاوت کی تھی۔ حضر موت کی جانب القاعدہ کچھ علاقے پر قابض ہے۔ اقتدار کی اس جنگ میں عجیب کھچڑی سی پکی ہوئی ہے۔ اقتدار کی قبائلی جنگوں میں حلیف بدلتے رہتے ہیں اور یہ جنگیں طویل ہوتی ہیں۔ یمن خود کئی مرتبہ خانہ جنگی کا شکار ہوا ہے۔ ثالثی بذات خود ایک مشکل اور طویل عمل ہے۔ مجھے افغانستان میں پاکستان اور سعودی عرب کی ثالثی کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ سوویت فوجیں افغانستان سے چلی گئیں تو حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور دوسری افغان تنظیمات میں پھر سے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ سب کا مطمح نظر کابل پر قبضہ اور افغانستان پر حکومت تھی۔ کافی خون ریزی ہوئی۔پاکستان اور سعودی عرب نے تمام افغان لیڈروں کو اسلام آباد میں جمع کیا۔ صلح کسی طور سے ہو نہیں رہی تھی، باہمی گلے شکوے بے شمار تھے۔ سعودی وزیر خارجہ پرنس سعود الفیصل بے تاب ہو رہے تھے۔ ادھر گرماگرما بحث جاری تھی اور سعود الفیصل آرام سے قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور پھر حاضرین کو خاموشی کے لیے کہا۔ مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارے سے متعلق چند آیات تلاوت کیں اور کہا کہ صلح کا معاہدہ فوراً ہونا چاہیے۔ افغان لیڈروں نے کہا معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیںلیکن سعودی فرماں روا‘ کی ضمانت ہونی چاہیے کہ معاہدے پر عمل ہو گا۔ چنانچہ معاہدے پر دستخط ہو گئے اور تمام لیڈروں کو سعودی عرب لے جانے کے لیے حکومت پاکستان نے طیارہ فراہم کیا۔ سعودی عرب میں شاہ فہد سے تمام لیڈروں کی ملاقات کرائی گئی۔ عمرہ کے مناسک ادا کئے گئے اور واپس اسلام آباد آنے کی تیاری ہوئی۔ اتنے میں افغان شیعہ لیڈر گویا ہوئے کہ وہ ایران جانا چاہتے ہیں۔ ایرانی لیڈر شپ کی حمایت حاصل کرنا بھی ضروری ہے اور مشہد میں مزار مقدس پر حاضری بھی ضروری ہے۔ چنانچہ پاکستانی طیارہ سعودی عرب سے ایران چلا گیا۔ وہاں تمام مراحل بخوبی سرانجام پائے۔ سب خوش خوش واپس اسلام آباد آئے۔ معاہدے پر چند ہفتے ہی عمل ہو سکا اورپھر افغان متحارب دھڑوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ اقتدار کی ہوس اچھے اچھوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ سگے بھائی برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ مجھے 1986ء والی جنوبی یمن والی خانہ جنگی بھی یاد آ رہی ہے۔ مجھے 1988ء میں تین ہفتے کے لیے عدن جانے کا اتفاق ہوا۔ تمام بڑی بڑی عمارتوں پر گولیوں کے نشان واضح تھے۔
بات ذرا موضوع سے ہٹ گئی۔ سوال یہ ہے کہ آیا صدر منصور ہادی یا حوثی باغیوں نے پاکستان سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حوثی باغیوں کی دستوری اور قانونی حیثیت کیا ہے۔ حکومت پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ طالبان سے بات پاکستان کے دستور کے دائرہ میں ہو گی۔ یہی پوزیشن ہماری بلوچ باغیوں کے بارے میں رہی۔ اصولی طور پر یہ صحیح پوزیشن ہے۔ کیا اس قسم کی ضمانت کے بغیر حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا غیر دستوری عمل نہیں ہو گا یا ان باغیوں کو تسلیم کرنے کے مترادف نہیں ہو گا؟
اور اگر صلح دو بڑے ملکوں یعنی سعودی عرب اور ایران کے درمیان کرانی ہے تو پھر کئی اور سوال ذہن میں آتے ہیں۔ گو کہ پاکستان ایسی کوشش 1980ء کی دہائی میں کامیابی سے کر چکا ہے لیکن موجودہ پاکستان نسبتاً کمزور پوزیشن میں ہے اور اس کے اپنے بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستان شائد اس مرتبہ یہ کام اکیلا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اسی لیے ہم ترکی کو ساتھ ملا کر چلنا چاہتے ہیں اور شاید ملائشیا یا انڈونیشیا کی مدد بھی مانگنا پڑے ۔ دو بڑوں کے درمیان مصالحت میں بھی کئی نازک مقام آئیں گے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایران اس بات سے انکاری ہے کہ اس کا یمن میں کوئی رول ہے اور پھر سعودیہ اور پاکستان کی پوزیشن میں بھی واضح فرق ہے ۔ اس معرکے میں آل سعود کی عزت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کریں گے کہ باغی یمن پر مسلط ہو کر تمام جزیرہ نما علاقے کو غیر مستحکم کر دیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا یمن پر موجودہ بمباری بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے؟ اقوام متحدہ نے اس سلسلہ میں کوئی قرار داد پاس نہیں کی اور عرب لیگ سمٹ کا اختتامی بیان پوری عالمی برادری کی رائے کا ترجمان نہیں۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں او آئی سی کو موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔او آئی سی کی تاریخ اس سلسلہ میں کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ دوسرے اس تنظیم میں خلیجی ممالک کا اثرو رسوخ واضح نظر آتا ہے۔ موجودہ سیکرٹری جنرل سعودی عرب سے ہیں لہٰذا ان کا فعال رول شاید ایران کے لیے قابل قبول نہ ہو۔ دوسرا پرابلم جو مجھے نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں اس سلسلہ میں مثبت رول کے لیے تیار ہیں مگر ان دونوں کا جھکائو اس وقت سعودی عرب کی طرف زیادہ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کسی بڑے اور نیوٹرل اسلامی ملک مثلاً ملائشیا کو اس نیک کام میں شامل کیا جائے۔
ان تینوں ممالک کو ہر سطح پر انتھک کوشش کرنا پڑے گی۔ عالمی برادری یمن کو دوسرا صومالیہ بننے کی اجازت نہیںدے سکتی۔ اسلامی ممالک کے لیے عمومی طور پر اور پاکستان کے لیے خصوصی طور پر خلیج کی سکیورٹی بے حد اہم ہے۔خلیجی ممالک میں چالیس لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ ہمارا قبلہ و کعبہ وہاں ہے۔ ہمارا گوادر پورٹ کا منصوبہ اور چین کے ساتھ راہداری کا گلف کے تیل سے گہرا تعلق ہے۔ خلیج کے پانیوں میں تلاطم ہمارے مفاد میں ہرگز نہیں ہے لہٰذا ثالثی کی سنجیدہ کوشش بہت ضروری ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ مسئلے کا حل یو این کے ذریعے ہی شائد ممکن ہو سکے۔ یمن میں عبوری حکومت کا قیام اورپرامن ماحول میں انتخابات کے لیے وہاں امن فوج بھیجنا ضروری ہے۔ پاکستان کو اس سلسلہ میں نیو یارک میں بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔ برادر ملک سعودی عرب کے لیے یمن میں امن اتنا ہی اہم ہے جیسے ہمارے لیے افغانستان میں۔ یمن غیر محفوظ ہوا تو عالمی بحری تجارت بھی غیر محفوظ ہو جائے گی۔ جس کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں