"JDC" (space) message & send to 7575

صدراوباما کی خلیجی حکمرانوں کو نصیحت

تھامس فریڈمین وہ مشہور امریکی کالم نگار ہے جو مشرق وسطیٰ کے مسائل کو خوب سمجھتا ہے اور اس کے اکثر کالم اسی خطہ کے بارے میں ہوتے ہیں۔ حال ہی میں فریڈ مین نے صدر اوباما کا انٹرویو کیا اور مڈل ایسٹ کے بارے میں کئی سوال پوچھے۔ یہ انٹرویو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے۔ صدر اوباما نے خلیجی حکمرانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ اندرونی خطرات کی طرف توجہ دیں کیونکہ نظام سے مایوس نوجوان نسل کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی نہیں‘ سیاسی جماعتیں ناپید ہیں‘ اور ساتھ ہی اوباما نے یہ بھی کہا کہ خلیجی حکمرانوں کو اصل خطرہ ایران سے نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی سے ہے۔ صدر اوباما کے افکار ایک حد تک درست ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیجی عوام بھی اب ایران کو خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ خلیج کے لوگوں کی رائے چند سال پہلے ایران دوست تھی مگر اب تبدیل ہورہی ہے۔
ایک حقیقت جو عرب سپرنگ میں واضح طور پر سامنے آئی‘ وہ یہ تھی کہ صحت اور تعلیم کے لحاظ سے خلیجی ممالک نے خاصی ترقی کرلی ہے۔ نوجوان نسل آبادی کا بڑا حصہ ہے۔ ان میں سے کئی نوجوان بے روزگار ہیں۔ میڈیا کی آزادی خاصی محدود ہے۔ خلیجی تعاون کونسل کے چھ ممالک میں سے پانچ میں سیاسی جماعتیں ناپید ہیں‘ اور کویت جہاں سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور منتخب پارلیمنٹ بھی ہے وہاں سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی آزادی ہی مسائل کا حل ہے۔
سعودی عرب میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں اور پارلیمنٹ نامزد ارکان پر مشتمل ہے۔ پارلیمنٹ سفارشات دے سکتی ہے انہیں قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار بادشاہ کے پاس ہے۔ سلطنت عمان میں بھی سیاسی جماعتیں وجود نہیں رکھتیں لیکن لوئر ہائوس کے لیے انتخابات ہوتے ہیں اور منتخب شدہ عوامی نمائندے ازخود قانون نہیں بناسکتے۔ سلطان معظم کو سفارشات بھیج سکتے ہیں‘ چونکہ ان ممالک میں سیاست دانوں کا وجود ہی نہیں لہٰذا سیاسی کرپشن کے قصے بھی سننے میں نہیں آتے۔ حکمرانوں کی سوچ یہ ہے کہ یک لخت تمام سیاسی آزادیاں دے دینا سود مند نہ ہوگا‘ لہٰذا بتدریج سیاسی آزادیاں دی جارہی ہیں۔ چند عشرے پہلے خلیجی ممالک میں مجلس شوریٰ کے ادارے کا وجود ہی نہیں تھا۔
میں جب مسقط میں سفیر تھا تو چند اہم عمانی شخصیات سے باقاعدہ رابطہ رہتا تھا‘ کچھ بے تکلف دوست بھی بن گئے تھے ان بے تکلف دوستوں میں سے ایک صاحب فرمانے لگے کہ پاکستانی لوگ ہر وقت سیاست کی بات کرتے ہیں اور سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنی بات کی وضاحت فرما دیں۔ کہنے لگے: بہت کم پاکستانیوں کو آپ اقتصادی ترقی یا تعلیم کی بہتری کی بات کرتے ہوئے سنیں گے۔ اکثر حکمرانوں کو ملک کی ابتر صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اپنے حقوق کی بات شدومد سے کرتے ہیں مگر اپنے واجبات کی بات شاذ ہی کرتے ہیں۔
اقتصادی طور پر آج خلیجی ممالک کی حالت بہت بہتر ہے۔ شاندار سڑکیں‘ فراٹے بھرتی ہوئی لمبی لمبی گاڑیاں‘ لوگ صحت مند بلکہ موٹاپے کی طرف مائل۔ جب یہ اونٹ اور گھوڑے پر سفر کرتے تھے تو دبلے پتلے تھے‘ اب ہر وقت کار کا استعمال اور لمبے سفر کے لیے ہوائی جہاز بلکہ پرائیویٹ جیٹ کا استعمال فربہی اور اس سے متعلق مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ اقتصادی خوشحالی مگر سیاسی پابندیاں بھی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ ایوب خان کے زمانے کا پاکستان بھارت سے کہیں زیادہ خوشحال تھا مگر پاکستان میں سیاسی آزادی محدود تھی جبکہ بھارت میں الیکشن اور سیاسی سرگرمیاں وافر تھیں۔ اس زمانے میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا تھا کہ موٹا تازہ پاکستانی کتا اور لاغر بھارتی کتا بارڈر پر ملتے ہیں۔ دونوں بارڈر کراس کرکے دوسرے ملک جانا چاہتے تھے۔ پاکستانی کتے کا کہنا تھا کہ اسے کھانے کو خوب ملتا ہے مگر بھونکنے کی آزادی نہیں جبکہ بھارتی کتے کا بیان تھا کہ وہ جب چاہے بھونک سکتا ہے لیکن کھانے کو پورا نہیں ملتا۔
تو خلیجی ممالک میں خوش حالی بہت ہے۔ عرب سپرنگ کے بعد تو نوجوانوں کو اچھا خاصا بے روزگاری الائونس ملتا ہے۔ گھر کی تعمیر ، کار کی خرید اور شادی کرانے کے لیے آسان قرضے ملتے ہیں لیکن آزادیٔ رائے بہرحال محدود ہے۔ دوحہ میں موجود الجزیرہ ٹی وی چینل پوری دنیا میں آزادی رائے کے حوالے سے قطر کی پہچان بن گیا ہے لیکن الجزیرہ قطر کے شاہی خاندان اور اس کی پالیسی پر تنقید نہیں کرسکتا۔ انگریزی کی ایک ضرب المثل کا ترجمہ ہے کہ انسان صرف روٹی کے سہارے زندہ نہیں رہتا۔ جب پیٹ بھر جائے انسان سیاسی آزادیاں اور اظہار رائے کا حق مانگنا شروع کرتا ہے۔ پاکستان اور عرب ممالک میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ ہمیں غبار خاطر نکالنے کی آزادی ہے۔ میڈیا آزاد ہے دھرنوں سے دھواں دار تقریریں ہوتی ہیں ہمارے پریشر ککر سے ٹینشن نکلتی رہتی ہے۔
خلیجی ممالک ایران کے بڑھتے ہوئے علاقائی رول سے خائف نظر آتے ہیں۔ میری عربوں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ اور بالمشافہ بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان میں سے ایک صاحب اگلے روز کہنے لگے کہ پہلے امریکہ نے ہمارے سروں پر اسرائیل کو مسلط کیا ہوا تھا اور اب ایران کو کھل کھیلنے کی اجازت ملنے والی ہے۔ ویسے مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں۔ عالمی برادری میں واپس آنے سے ایران میں احساس ذمہ داری اجاگر ہوگا۔ خوشحالی وہاں ٹھہرائو لائے گی۔ مرگ بر امریکہ اور شیطان بزرگ والے جذباتی نعرے ختم ہوجائیں گے۔
آپ کو شاید یاد ہو چند سال قبل ایران عرب عوام میں بے حد پاپولر تھا۔ ایران خطے کا واحد بڑا ملک تھا جس نے اسرائیل کو للکارا اور حزب اللہ اور حماس کے ذریعے اسے چیلنج کیا۔ ایران کی یہ باتیں مسالک سے بالاتر تھیں۔ حماس غزہ کی نمائندہ تنظیم تھی اور غزہ میں اہل تشیع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن بعد میں شام اور یمن میں ایرانی پالیسی میں مسلکی رنگ نمایاں ہوا اور اسی وجہ سے عرب عوام میں ایران کی مقبولیت گر رہی ہے۔
دیگراں را نصیحت اور خود میاں فصیحت۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عرب حکمران فرشتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل نہ ہونا خطے میں انتہا پسندی کی بڑی وجہ ہے۔ ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسئلے تو بین الاقوامی برادری نے حل کرنے میں دیر نہیں لگائی لیکن فلسطینی عشروں سے انصاف کی راہ تک رہے ہیں اور اس صورت حال کی سب سے زیادہ ذمہ داری مغربی اقوام پر ہے خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ پر۔
مشرق وسطیٰ میں امن مسلمان ممالک کے اپنے مفاد میں ہے۔ اگر برطانیہ، جرمنی اور فرانس تباہ کن جنگیں لڑ کر یورپی یونین میں اکٹھے ہوسکتے ہیں تو ایران اور عراق خلیجی تعاون کونسل کا حصہ کیوں نہیں بن سکتے۔ اگر یورپ کے کیتھولک اور پرونسٹنٹ متحد ہوسکتے ہیں تو اہل تشیع اور سنی مسلک کے لوگ کیوں متحد نہیں ہوسکتے جبکہ اختلاف محض فروعی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات درست کرنے کی ذمہ داری مغربی ممالک‘ ایران اور عرب ممالک تینوں کی ہے بصورت دیگر مستقبل کچھ تابناک نظر نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں