"JDC" (space) message & send to 7575

یورپ کا مرد بیمار:یونان

ایتھنز اور یونان کے دوسرے شہروں میں پچھلے ہفتے اے ٹی ایم مشینوں کے باہر لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگوں کو پیسے مل گئے باقی نامراد لوٹے‘ اس لیے کہ اے ٹی ایم مشینیں بھی خالی ہو گئیں اور بنک مزید کرنسی ڈالنے کے قابل نہ تھے۔ چند بینکوں کے بارے میں افواہ تھی کہ بند ہو رہے ہیں۔ بینکوں کو تو چھوڑیں یونانی حکومت کی آئی ایم ایف کی قرض ادائیگی کا آخری روز 30جون ہے اور عام خیال ہے کہ حکومت قرض کی ادائیگی جس کی قسط تقریباً ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر بنتی ہے‘ نہیں کر سکے گی کہ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ لہٰذا میں یہ کالم یکم جولائی کو آخری خبر سننے کے بعد ہی ارسال کروں گا۔
اب دیکھتے ہیں کہ یونان کی اقتصادی بیماری کے اسباب کیا ہیں کہ اس باب میں پاکستان کے لیے بھی کئی سبق مضمر ہیں بشرطیکہ ہم سیکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ مجھے یونان اور وطن عزیز میں جو مماثلت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آمدنی غریبوں والی ہے اور خرچے شاہانہ ہیں۔ گویا کہ چادر چھوٹی ہے اور پائوں بہت پھیلائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا میں کساد بازاری 2008ء میں شروع ہوئی۔ یونان یورپی یونین کا ممبر بھی ہے اور یورو زون کا حصہ بھی۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کے تمام ممبر یورو زون میں شامل نہیں مثلاً برطانیہ یورپی یونین میں ہے مگر کرنسی اس کی وہی پہلے والی یعنی پائونڈ ہے۔2009ء میں یونانی حکومت ہر الزام لگا کر مالیاتی خسارے کو چھپانے کے لیے غلط اعداد و شمار دیتی رہی ہے۔ یورپی یونین کے معاملات کی جانچ پڑتال برسلز میں ہوتی ہے۔ تو فراینکفرٹ میں یورپین بینک یورو زون کے ممبر ممالک کو مالی طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ یونانی حکومت نے الزام کا اعتراف کر لیا اور کئی انٹرنیشنل اداروں نے یونان کو مزید قرض دینے سے معذرت کر لی۔
مجھے یونان میں گزارے ہوئے چار سال یاد آ رہے ہیں گو کہ اس وقت یونان کی اقتصادی حالت خراب نہ تھی مگر یونان کی اشرافیہ میں شاہانہ خرچ کا رجحان عام تھا ۔ ہر متمول گھر میں جوکوزی ضرور ہوتی تھی۔ ہر امیر گھر میں مشرب یعنی بار گویا ڈیزائن کا حصہ تھی۔ ہمارے اپنے گھر میں یہ دونوں لوازمات تھے۔ جوکوزی کا استعمال تو ہم نے کسی نہ کسی طرح سیکھ لیا لیکن بد ذوقی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے بار سے کوکا کولا یا اورنج جوس ہی مہمانوں کوپیش ہوتے رہے۔
یونان میں ہر سال گرمیوں میں چھٹیوں پر جانے کا رواج عام ہے۔1982ء میں یونان یورپی یونین میں شامل ہوا اور دیگر ممبر ممالک میں جانے کا کوئی مسئلہ نہ رہا‘ لہٰذا اشرافیہ گرمیوں کی چھٹیاں اٹلی اور فرانس میں گزارتی تھی جبکہ مڈل کلاس والے اپنے ہی ملک میں جزیروں کی طرف چلے جاتے تھے۔ ایک عجیب چیز جو ملاحظے میں آئی وہ یہ تھی کہ جن لوگوں کے پاس اپنے وسائل وافر نہ تھے‘ وہ بینکوں سے قرض لے کر چھٹیوں پر چلے جاتے۔ گویا قرض کی مے کا رواج وہاں بھی تھا۔ ہمارے ہاں بھی مڈل کلاس نے قرضے لے کر خوب کاریں چلائیں اور اشرافیہ کے کچھ لوگوں نے توقرضے لے کر دوبارہ بینک کی طرف نہیں دیکھا کہ واپس ہی نہ مانگ لے۔
2010ء تک یونان کے مالی حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ انٹرنیشنل ادارے مزید قرض نہیں دے رہے تھے اور یونانی اشرافیہ کو ٹیکس ادا کرنے کا کوئی شوق نہ تھا اور پھر انٹرنیشنل اداروں کو یونان کی حالت زار پر ترس آ ہی گیا۔ یونان کے مالی مسائل کے حل کے لیے ایک ٹرائکا یعنی مثلث ترتیب دی گئی جس میں آئی ایم ایف‘ یورپی کمشن اور یورپی سنٹرل بینک شامل تھے۔ ٹرائیکا نے یونان کو 110ارب یورو کی امداد 2010ء میں دی۔ یاد رہے کہ پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ اب بھی اس رقم سے کم ہے۔ یہ رقم تو یونان کو مل گئی لیکن مسائل جوں کے توں رہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں یونان کی معیشت 25 فیصد سکڑ گئی ہے اور اس وقت بے روزگاری کی شرح بھی 25 فیصد ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اگر حالات اتنے ہی خراب ہیں تو پاکستانی‘ انڈین‘ بنگلہ دیشی‘ مصری اور شامی یونان جانے کے لیے بیتاب کیوں رہتے یں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یونان یورپی ممالک جانے کے لیے پہلی منزل ہے۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ ان دگرگوں اقتصادی حالات کا یونان کی سیاست پر کیا اثر ہوا۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب میں وہاں تھا تو بائیں بازو کی سیاست عملاً ختم ہو چکی تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ روس خود سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یونان کے اپنے معاشی حالات اچھے تھے۔ ایسی فضا میں بائیں بازو کی پارٹیوں کو ووٹ کم ملتے تھے اور ویسے بھی یونان میں رائج نظام کے مطابق اگر کسی پارٹی کے ٹوٹل ووٹ ایک حد سے کم ہوں تو اسے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ اس لحاظ سے وہاں تانگہ پارٹیوں کا وجود ختم ہو گیا تھا۔
خراب اقتصادی حالات نے بائیں بازو کی سیاست کو نئی زندگی بخشی۔ پچھلے الیکشن میں بائیں بازو کی تیرہ جماعتوں نے اتحاد بنایا اور انتخاب جیت گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ دوسری جماعتوں کے لیڈر ہر قیمت پر یورپی اتحاد میں رہنا چاہتے تھے۔ جبکہ بائیں بازو والے جیالے تھے اور بیرونی پابندیوں اور یورپی سنٹرل بینک کے مالی ڈسپلن کے خلاف تھے۔ یونانی عوام بھی ہماری طرح جذباتی ہیں۔ انہوں نے جذبات میں لیفٹ کی پارٹیوں کے اتحاد کو ووٹ تو دے دیئے مگر کیا بائیں بازو کی یہ حکومت یونان کو اقتصادی گرداب سے نکال بھی سکے گی؛ یہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔
یونان کی ٹوٹل آبادی گیارہ ملین ہے یعنی تقریباً لاہور کے برابر۔ یونان کی مجموعی قومی پیداوار پاکستان سے دگنی ہے۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ میں ٹیکس چوری کا رجحان عام ہے۔ مثلاً یونان کی سب سے بڑی صنعت جہاز رانی ہے۔ یہاں کے شپ اونر بے تحاشا امیر ہیں۔ آپ کو یونانی شپ اونر اوناسس کا نام یاد ہو گا جس کی شادی جیکولین کینیڈی سے ہوئی تھی۔ یونان کے متمول شپ اونر ٹیکس بچانے کے لیے یا تو جہازوں پر دوسرے ملکوں کے جھنڈے لگاتے ہیں یا اپنا سارا منافع باہر رکھتے ہیں لہٰذا یونان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ امیر ہیں مگر حکومت غریب ۔ ملک کے مالی حالات اتنے دگرگوں ہوں تو لوگوں کی نفسیات پر بھی اثر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر یونان کو یورو زون سے نکال دیا جاتا ہے تو اسے اپنی پرانی کرنسی یعنی دراخمہ کی طرف لوٹنا ہو گا۔ موجودہ حالات میں افراط زر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ 
یونانی حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے کرنسی نوٹ چھاپے گی جیسا ہم پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے کر رہے ہیں لیکن کرنسی نوٹ چھاپنا ڈنگ ٹپائو حل ہوتا ہے‘ کوئی صائب اور دیرپا پالیسی نہیں ہوتی۔ جب افراط زر بہت زیادہ ہو تو لوگ اپنی بچت ہارڈ کرنسی یعنی ڈالر پائونڈ یا یورو میں رکھتے ہیں۔ کچھ ایسے اثاثوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جن کی قدر کم نہ ہو مثلاً جائیداد۔ لیکن اس قسم کے رجحانات قومی اقتصاد کے لیے زیادہ ممدو معاون نہیں ہوتے۔
آپ حیران ہونگے کہ یونان کا مجموعی قرض پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ 2013ء میں یونان کا قرضہ 423ارب ڈالر تھا اور یہ مجموعی قومی پیداوار کا 175 فیصدتھا اور کیا آپ کو علم ہے کہ پاکستان کا مجموعی قرض بھی ہماری سالانہ مجموعی قومی پیداوار کو کراس کر چکا ہے۔
ٹرائیکا کا مطالبہ ہے کہ یونان پنشن کم کرے‘ ٹیکس کی شرح بڑھائے اور قومی اثاثوں کو پرائیویٹ سیکٹر کو فروخت کرے۔ مگر یونان والے یہ کڑوی گولی کھانے کو تیار نہیں۔ وزیر اعظم ایلیکسس سپراس نے پانچ جولائی کو ریفرنڈم کا اعلان کیا ہے‘ گویا اس کڑے فیصلے کی گیند عوام کی طرف پھینک دی ہے ۔ یہ امر بھی اچھی لیڈر شپ کی غمازی نہیں کرتا۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ یونان آئی ایم ایف کی قسط ادا نہیں کر سکا۔ عالمی مالیاتی نظام کے لیے یہ بُری خبر ہے۔ ضروری نہیں کہ یونان کو فوری طور پر یورو زون سے نکال دیا جائے البتہ اگر 5جولائی کو یونان عوام نے ٹرائیکا کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا تو حالات مزید بگڑ جائیں گے۔
تصحیح: پچھلے کالم''انسانی سمگلنگ‘‘ کے پیرا نمبر8میں لکھا گیا لفظ سندھ دراصل مندھ Mandhہے جو پاک ایران بارڈر کے قریب واقع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں