"JDC" (space) message & send to 7575

خالصتان

گورداسپور کے قریب پولیس سٹیشن پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستانی پرنٹ اور سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ خالصتان کی تحریک پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔ سب سے کمزور تجزیہ وہ ہوتا ہے جہاں تجزیہ نگار کے جذبات عقل پر غالب آ جائیں۔ ایسی صورت میں وہ پوری بحث اپنی دلی خواہش کے مطابق ڈھالتا ہے اور جب بحث کی بنیادیں ہی معروضیت پر مبنی نہ ہوں تو نتائج بھی معقولیت سے دور ہوتے ہیں اور استنتاج بھی بالکل غلط۔ اب اگر کالم نگار یا اینکر کی دلی خواہش ہے کہ خالصتان ضرور بنے تو وہ اس مسئلے پر معروضی بحث کیسے کر سکتا ہے۔ 
ہم ایوب خان کے زمانے سے سُن رہے ہیں کہ ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اُس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ناگالینڈ اور میزورام میں علیحدگی پسند تحریکیں شدت پکڑ رہی ہیں۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ شمالی اور جنوبی بھارت اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیحدگی کی تحریکیں انڈیا میں تھیں اور آج بھی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔ جمہوریت اور اقتصادی ترقی کی وجہ سے شمال اور جنوب کی دوریاں کم ہوئی ہیں۔ میں کئی ممالک میں مختلف صوبوں کے انڈین لوگوں سے ملا ہوں۔ شکوے شکائتیں ضرور موجود ہیں لیکن انڈیا سے اکثر لوگ محبت کرتے ہیں۔ اور اب آتے ہیں خالصتان کی طرف۔ یہ تحریک 1980ء کی دہائی میں زوروں پر تھی اور دس سال میں دم توڑ گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بینظیر کی پہلی حکومت میں خالصتان تحریک کے سرگرم کارکنوں کے بارے میں خفیہ معلومات راجیو گاندھی حکومت کو دی گئیں۔ یہ سب لوگ آناً فاناً گرفتار ہوئے اور تحریک کمزور پڑ گئی لیکن اس بات کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی کہ بینظیر پر لگایا گیا یہ الزام صحیح ہے یا غلط۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے لیڈر دوطرفہ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہوں لیکن میرا استدلال یہ ہے کہ خالصتان تحریک زیادہ دیر چلنے کے ویسے بھی قابل نہ تھی۔ 
کئی سال پہلے اس موضوع پر ریسرچ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس موومنٹ کی کامیابی کے امکانات شروع سے کم تھے۔ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت 1947ء میں مغربی پنجاب سے جانے والے سکھوں کو مدراس اور کلکتہ تک پھیلا دیا گیا۔ آج دہلی اور لکھنؤ میں سکھ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس سے دو نتائج حاصل ہوئے۔ ایک تو یہ کہ انڈین پنجاب میں سکھوں کی عددی قوت محدود ہوئی اور دوسرے سکھ برادری کے اقتصادی مفادات پورے انڈیا کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ پنڈت نہرو کی دوراندیشی کی داد دینی چاہئے۔ 
جب خالصتان کی تحریک زوروں پر تھی تو اس کی بڑی حامی سکھوں کی سیاسی پارٹی اکالی دل تھی اور اکالی دل اُس وقت کئی دھڑوں میں تقسیم تھی۔ صرف ایک دھڑا کُھل کر خالصتان کا نعرہ لگا رہا تھا۔ باقی دھڑے اٹانومی یعنی صوبائی خودمختاری کے حامی تھے اور کچھ کنفیوژن کا بھی شکار تھے۔ مثلاً کچھ سکھ خالصتان کا مقصد یہ سمجھ رہے تھے کہ انڈیا میں رہتے ہوئے مزید کلچرل اور مذہبی حقوق حاصل کئے جائیں۔ آل انڈیا ریڈیو پنجاب کے تمام سٹیشن نشریات کا آغاز گرنتھ صاحب کے اقتباسات سے کریں۔ شرومنی اکالی دل کو ہندو تسلط سے مکمل نجات دلائی جائے۔ 
سکھوں اور ہندوؤں کے مذہبی اعتقادات ضرور مختلف ہیں لیکن سماجی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ دونوں آپس میں شادیاں کرتے ہیں۔ آزادی سے پہلے کی بات ہے کہ کئی ہندو گھرانے اپنا ایک بیٹا سکھوں کو دے دیتے تھے کہ ہم نے اسے واہ گرو کے نام کیا۔ میری اس موضوع پر مسقط میں ایک ہندو ڈاکٹر سے بات ہوئی اور اس کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جب میں نے اس سماجی روائت کی وجہ پوچھی تو جواب یہ تھا کہ ہندو افغانستان کی جانب سے آنے والے مسلمان حملہ آوروں سے خائف رہتے تھے۔ سکھ چونکہ بہادر تھے اور جنگ جو بھی لہٰذا ہندو آریہ سماج نے سوچ سمجھ کر سکھوں سے دوستی کی تاکہ مسلمان حملہ آوروں کے خلاف انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ ہندو بنیا دانش مند ضرور ہے۔ 
1993ء کی بات ہے کہ میں ایک ہفتہ کے لئے سرکاری ڈیوٹی پر نئی دہلی گیا۔ دن کو ہائی کمشن میں کام ہوتا تھا اور شام کو تاریخی مقامات دیکھنے چلا جاتا تھا۔ آخری دن یہ سوچا کہ کچھ شاپنگ بھی ہو جائے۔ ہائی کمشن میں دوستوں سے شاپنگ پر بریفنگ لی۔ مختلف بازاروں اور اُن میں ملنے والی اشیا کا ذکر ہوا اور پھر ایک بازار کا ذکر آیا تو دوست کہنے لگے وہاں آپ نہ جائیں۔ میں نے پوچھا کہ کیوں تو پتہ چلا کہ بازار خاصا مہنگا ہے اور وہاں سردار جی اکثر شاپنگ کرتے ہیں۔ پھر پتہ چلا کہ انڈیا میں سکھ کمیونٹی پارسی کمیونٹی کے بعد دولت کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہے۔ 
آبادی کے لحاظ سے انڈیا میں سکھوں کی تعداد دو فیصد کے آس پاس ہے لیکن فوج اور پولیس میں انہیں اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ نوکریاں ملتی رہی ہیں، لہٰذا اب اکثر سکھ اپنا مستقبل انڈیا سے باہر نہیں دیکھتے۔ 
کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اُسے بین الاقوامی برادری کی مدد حاصل ہو۔ بنگلہ دیش، ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان تینوں کو انٹرنیشنل مدد ملی اور خوب ملی۔ خالصتان کے لئے کبھی کبھی کوئی آواز کینیڈا اور امریکہ کے سکھ اٹھاتے ہیں لیکن انہیں کوئی انٹرنیشنل لیول کی پذیرائی نہیں ملی اور ویسے بھی 9/11 کے بعد آزادی کی تحریکوں کی عالمی سطح پر حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ 
انڈین پنجاب پہلے ہی تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہریانہ اور ہماچل پردیش پہلے پنجاب کا ہی حصہ تھے۔ باقی ماندہ پنجاب میں سکھ اکثریت میں ہیں اور انڈین پنجاب کا وزیر اعلیٰ بھی عام طور پر سکھ برادری سے ہوتا ہے لیکن آپ کو حیرانی ہو گی کہ وہاں ایک بھی شہر ایسا نہیں جہاں سکھ آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو، اور تو اور امرتسر شہر میں بھی ہندو اکثریت میں ہیں۔ 
پچھلے بیس پچیس سال میں انڈیا اقتصادی، عسکری اور عالمی سیاست کے حوالے سے مضبوط ہوا ہے۔ اسی وجہ سے انڈیا کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو انٹرنیشنل پذیرائی کم ہی ملے گی۔ دوسرے دہلی سرکار کی اندرونی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2006ء کی بات ہے، انڈوپاک تعلقات میں بہتری آ رہی تھی۔ میں مسقط میں سفیر تھا۔ وہاں رہنے والے سکھوں نے درخواست کی کہ ہم ننکانہ صاحب سالانہ فنکشن میں جانا چاہتے ہیں، ہمیں پاکستان کے ویزے دئیے جائیں۔ میں نے ویزا افسر کو ہدائت کی کہ پاکستان جانے کے خواہش مند تمام سکھوں کو ویزے دئیے جائیں۔ واپس آ کر ایک سردار جی خاص طور پر میرا شکریہ ادا کرنے آئے اور جاتے جاتے درخواست کی کہ انڈین ایمبیسی کو میرے یہاں آنے کا علم نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے کہا سردار جی آپ فکر نہ کریں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ سکھ دہلی سرکار کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ 
آپ لندن کے ساؤتھ ہال جائیں تو لگتا ہے سکھوں کے محلے میں آ گئے ہیں۔ کینیڈا میں سکھ خوشحال ہیں۔ بنکاک میں کپڑے کے کاروبار اور ٹیلرنگ بزنس پر سکھ حاوی لگتے ہیں۔ انہیں اپنے سکھ اور پنجابی ہونے پر فخر ضرور ہے لیکن علیحدگی کی حمائت کرنے والے خال خال ہی ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیر اور خالصتان دونوں کی آزادی کی حمائت کرنی چاہئے۔ دونوں مسئلے بالکل مختلف ہیں۔ کشمیر متنازعہ خطہ ہے جبکہ مشرقی پنجاب انڈیا کا حصہ ہے اور حقیقت پسندی یہ ہے کہ ایسے خوابوں کے پیچھے نہ بھاگا جائے جن کا حصول ناممکن ہو۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان اس بات کا ادراک رکھتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں